ملک میں اُردو کو سرکاری زبان کا درجہ دینے کیلئے تحریک زور پکڑنے لگی
لاہور(شہباز اکمل جندران//انوسٹی گیشن سیل) ملک میں اردو زبان کو سرکاری زبان کا درجہ دینے کے لیے تحریک زور پکڑنے لگی۔جبکہ سندھ ، خیرپختونخواہ اور بلوچستان کی حکومتوں نے رائج الوقت صوبائی قوانین کا اردو میں ترجمہ کرنے کے لیے پنجاب حکومت سے تحریری طورپر معاونت طلب کرلی ہے۔ پنجاب میں ان قوانین کا اردو میں ترجمعہ کرنے کا عمل گزشتہ کچھ عرصے سے جاری ہے۔معلوم ہواہے کہ ان دنوں ملک میں قومی زبان اردو کو سرکاری اور دفاتر کی زبان کے طورپر رائج کرنے کے حوالے سے تحریک زور پکڑنے لگی ہے۔ اس سلسلے میں سپریم کورٹ کے روبرو ایک پٹیشن بھی زیر التوا ہے۔پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے۔اور دو قومی نظریے کی بنیاد پر قائم ہونے والے اس ملک میں اردو کو قومی زبان قرار دیا گیا لیکن 68برس گزرنے کے بعد بھی سرکاری دفاتر میں اردو رائج ہوسکی اور نہ ہی اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دیا جاسکا۔ حالانکہ یہ دستور پاکستان کی خلاف ورزی بھی ہے۔1973کے آئین میں آرٹیکل 251میں واضح طورپر لکھا گیا ہے کہ مذکورہ آئین کے نفاذ کے 15برس کے اندر ملک میں اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دیا جائیگا۔ 1988 کواس آئینی مد ت کو ختم ہوئے 27برس گزرچکے ہیں۔ لیکن اردو کو سرکاری زبان کا درجہ نہیں مل سکا۔بھی آئین پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ معلوم ہوا ہے کہ آئین پاکستان میں عائد پابندی کے باوجود پاکستان کی قومی زبان اردو کو سرکاری زبان کا درجہ نہیں دیا جاسکا۔ 1973ء میں متفقہ طور پر منظور کئے جانے والے دستور کے آرٹیکل 251 کی شق 1 کے مطابق ’’پاکستان کی قومی زبان اردوہے اور دستور کے یوم آغاز سے پندرہ برس کے اندر اندر اس کو سرکاری و دیگر اغراض کے لئے استعمال کرنے کے انتظامات کئے جائیں‘‘ شق 2 کے مطابق ’’شق نمبر 1 کے تابع، انگریزی زبان اس وقت تک سرکاری اغراض و مقاصد کے لئے استعمال کی جائے گی جب تک کہ اس کے اردو سے تبدیل کرنے کے انتظامات نہ ہوجائیں‘‘ شق 3 کے مطابق ’’قومی زبان کی حیثیت متاثر کئے بغیرکوئی صوبائی اسمبلی قانون کے ذریعے قومی زبان کے علاوہ کسی صوبائی زبان کی تعلیم، ترقی اور اُس کے استعمال کے لئے اقدامات تجویز کرسکے گی‘‘ دستور میں اردو زبان کو بطور سرکاری زبان نافذ کرنے کے لئے 15 برس کی جو مہلت دی گئی تھی وہ 1988ء میں ختم ہوچکی ہے لیکن 1988ء سے 2012ء تک پانچ حکومتیں گزر چکی ہیں اور چھٹی حکومت چل رہی ہے۔ اس کے باوجود آج تک قومی زبان اردو کو سرکاری زبان کا درجہ نہیں مل سکا جو آئین پاکستان کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے اور سابق وزراء اعظم محترمہ بینظیر بھٹو شہید، میاں نواز شریف اور سابق صدر پرویز مشرف کی مجموعی طور پر پانچ حکومتوں کے علاوہ پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت بھی اس آئینی خلاف ورزی کی مرتکب ہورہی ہے۔ پاکستان کے تمام سرکاری و غیر سرکاری دفاتر میں اردو کی بجائے بدستور انگریزی زبان رائج ہے اور ہر طرح کی خط و کتابت کے علاوہ صوبائی اور وفاقی سطح پر سرکاری افسروں کی بھرتی کے امتحانات بھی انگریزی زبان میں ہی ہوتے ہیں۔ اردو زبان کو محض انٹرمیڈیٹ تک لازمی مضمون کے طور پر نصاب میں شامل کیا جاتا ہے جبکہ گریجویشن میں اردو زبان بطور اختیاری مضمون شمار ہوتی ہے تاہم انگریزی زبان (مضمون) بی اے میں بھی لازمی ہوتی ہے۔ پاکستان میں اردو زبان کی ترویج و نفاذ کے لئے 4 اکتوبر 1979ء کو ’’مقتدرہ قومی زبان‘‘ نامی ادارہ قائم کیا گیا۔ مذکورہ ادارے نے اپنے قیام سے آج تک اردو زبان کے فروغ کی خاطر بہت سی کوششیں اور کاوشیں کی ہیں اور کررہا ہے۔ مقتدرہ قومی زبان کے سیکرٹری محمد اکرام بلال کا کہنا ہے کہ اردو زبان کو سرکاری زبان کا درجہ دینے کی آئینی مہلت 14 اگست 1988ء کو ختم ہوچکی ہے اور اس کے بعد سے آج تک کی تمام حکومتیںآئین کی خلاف ورزی کررہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ آئینی مہلت ختم ہونے پر کیبنٹ ڈویژن اسلام آباد ن ایک چٹھی لاء ڈویژن اسلام آباد کو لکھی تاکہ آئینی مہلت میں اضافے یا آئینی گنجائش کے بارے میں جانا جاسکے۔ اس پر اس وقت کے اٹارنی جنرل نے ایڈوائس دی کہ اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دینے کے حوالے سے حکومت مخلصانہ کوششیں کررہی ہے اور اس حوالے سے آئین میں ترمیم یا مہلت میں اضافے کی ضرورت نہیں ہے۔ بعد ازاں 2005ء میں سیکرٹری کیبنٹ ڈویژن اعجاز چیمہ نے اردو کے نامور ادیبوں پر مشتمل ایک کمیٹی کی اردو زبان کے بطور سرکاری زبان نفاذ اور ترویج و اشاعت کے حوالے سے رپورٹ اس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز کو بھجوا دی جس پر انہوں نے سابق وفاقی وزیر قانون وصی ظفر، مشاہد حسین، وفاقی وزیر اطلاعات محمد علی درانی، ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین عطاء الرحمن سمیت 7 افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی لیکن ان کمیٹیوں کی سفارشات اور رپورٹس کے باوجود اردو کو سرکاری زبان کا درجہ نہ مل سکا جبکہ سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے تین تین ارکان پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی ہے تاکہ اردو زبان کو سرکاری زبان کا درجہ مل سکے لیکن تاحال د وزارت پارلیمانی امور کمیٹی کے قیام کا نوٹیفکیشن جاری نہیں کرسکی۔ مذکورہ کمیٹی میں خوش بخت شجاعت، سینیٹر پرویز رشید و دیگر شامل ہیں۔ یوں اردو زبان کو سرکاری زبان کا درجہ تاحال نہیں مل سکا۔ذرائع کے مطابق اردو زبان کو سرکاری زبان کا درجہ دینے کے حوالے سے سب سے زیادہ کوشش 1986ء میں ہوئیں۔ کینٹ ڈویژن نے سرکاری سطح پر اردو کے نفاذ کے لئے نہ صرف ہدایات جاری کیں بلکہ 6ہزار سرکاری افسروں اور ساڑھے تین ہزار سٹینو گرافروں اور چھوٹے ملازمین کو اردو زبان کے کورس کروائے گئے، اس مقصد کے لئے ملک بھر میں 13اردو سنٹر قائم کئے گئے لیکن 14اگست 1988ء کو آئینی مہلت کے خاتمے کے بعد لاء ڈویژن کی طرف سے اٹارنی جنرل کی ایڈوائس کے بعد اردو زبان کی سرکاری زبان کے طور پر نفاذ کا معاملہ سرد خانے میں جا پڑا۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اردو کو سرکاری زبان کا درجہ نہ دے کر حکومتیں آئین کی خلاف ورزی کرتی آ رہی ہیں۔ 1988ء کے بعد اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دیئے جانے کے حوالے سے آئین میں مزید مہلت کا ذکر نہیں ہے اور نہ ہی اس سلسلے میں مزید مہلت دی گئی ہے ۔لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ قومی زبان کو سرکاری اور سرکاری دفاتر کی زبان قرار دینے کے لیے ان دنوں تحریک زور پکڑنے لگی ہے۔ پنجاب حکومت نے صوبے میں رائج قوانین کا انگلش سے اردو زبان میں ترجمعہ شروع کررکھا ہے۔ جبکہ سندھ ، کے پی کے اور بلوچستان کی حکومتوں نے اس حوالے سے پنجاب حکومت سے اپنے صوبوں کے قوانین کو اردومیں بدلنے کے لیے تحریری طورپر معاونت طلب کی ہے۔
اردو زبان