انسانی زندگی کیلئے وقف شوکت خانم کینسر ہسپتال
تصور کریں کہ آپ روزانہ تیز دھوپ میں ایک ایک اینٹ چن کر ایک ایسے گھر کی تعمیر کررہے ہیں جس کے آپ زندگی بھر مالک نہیں بن سکتے۔ اس سخت محنت کے باجود آپ بمشکل اتنا کما پاتے ہیں کہ دو وقت کی روٹی کھاسکیں، جبکہ آپ زندہ رہنے کے لئے اگلے دن پھر محنت مزدوری کے لئے گھر سے نکل پڑیں کہ ایک دن آپ کو حادثہ پیش آجائے اور آپ کی ٹانگ میں اتنی تکلیف بڑھ جائے کہ اس کسمپرسی کی حالت میں ڈاکٹر کے پاس جانا پڑ جائے،لیکن بہت سے ڈاکٹروں کو چیک کروانے اور دوائیاں لینے کے باوجود وہ یہ نہ جان پائیں کہ اس درد کی وجہ کیا ہے؟ شدید درد میں مبتلا عزیز رشتہ داروں سے اُدھار پکڑ کر آپ اپنے شہر سے دور ایک اجنبی شہر میں ایک ڈاکٹر کے پاس جائیں اور مہنگے ٹیسٹوں کے بعد آپ کو پتہ لگے کہ یہ صرف درد نہیں، بلکہ کینسر ہے۔ایک ایسی بیماری جس کے علاج کے لئے آپ کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ پھر آپ کو بغیر علاج واپس جانا پڑے کہ اب اس درد کی دوا صرف موت ہے۔ یہ کہانی رحیم یار خان کے ایک گاؤں میانوالی قریشیاں کے محمد اکرم کی ہے اور ہمارے ارد گرد ایسی ہزاروں کہانیاں موجود ہیں ،جن میں زندگی سسک سسک کر موت کی طرف جارہی ہے۔ یہ ایک ایسی موت کا سفر ہے جس کو روکا جاسکتا ہے۔
جی ہاں! ایک انسان کے خواب اور ایک قوم کے اعتماد کی بدولت ایسے کئی سفروں کی منزل بدل گئی ۔ جب کوئی اپنی زندگی میں کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہوکر زندگی سے مایوس ہوجاتا ہے تو کچھ ایسے دوست ہیں جو ایسے لوگوں کو اُمید کی کرن دکھاتے ہیں۔ یہ دوست جو اس بیزار زندگی میں ہنسنے کے مواقع فراہم کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ زندگی کتنی اہم ہے کہ اس کی بقا کے لئے جنگ لڑی جائے،شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال اینڈ ریسرچ سینٹر ایسے دوستوں سے بھرا ہوا ہے جو زندگی کی اُمید دلاتے ہیں اور جن کا ایمان ہے کہ ایک کوشش اور کر کے دیکھتے ہیں۔یہ ہسپتال نادار کینسر کے مریضوں کے لئے اُمید کی کرن ہے۔ پاکستان میں ہر سال تقریباً ڈیڑھ لاکھ افراد کینسر میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔ محدود وسائل میں یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے کہ کس کا علاج کیا جائے،لیکن اگر ایک زندگی بچ بھی جاتی ہے تو یہ اس حقیقت کی تصدیق ہے کہ اُمید موجود ہے۔شوکت خانم ہسپتال میں ہر سال ہزاروں لوگوں کا علاج کیا جاتا ہے اور گزشتہ سال لگ بھگ دس ہزار کینسر کے نئے مریضوں کو علاج کے لئے رجسٹر کیا گیا۔
شوکت خانم کینسر ہسپتال منصفانہ برتاؤ کے ایسے تصور کا اظہار ہے ،جہاں امیر اور غریب، اور مختلف نسل اور مذہب سے تعلق رکھنے والے افرادکے کھانے، پینے، علاج معالجے میں کوئی تفریق نہیں برتی جاتی اور ان مریضوں کی کینسر کے خلاف لڑنے کے لئے ایک جیسے مواقع ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہسپتال کا مشن ہے کہ کینسر کے مریضوں کا علاج کیا جائے گا ، قطع نظر کہ وہ اخراجات ادا کرسکتے ہوں یا نہیں۔ہسپتال میں رجسٹرڈ 75فیصد مریضوں کے علاج میں مدد فراہم کی جاتی ہے۔ اگر آپ ہمارے ملک میں ایسی جگہ دیکھنا چاہتے ہیں جہاں امیر اور غریب سے یکساں سلوک ہوتا ہے تو شوکت خانم کینسر ہسپتال لاہور یا پشاور ضرور وزٹ کریں۔ہسپتال کو قائم ہوئے دوعشروں سے زائد ہوچکے ہیں جو کہ ایک معجزے سے کم نہیں ہے، لیکن یہاں پر ہر روز معجزے رونما ہوتے ہیں۔جب کسی کی سرجری ہوتی ہے، کسی کو ریڈی ایشن تھراپی دی جاتی ہے یا کسی کو کیموتھراپی ملتی ہے۔ ان معجزوں کے پیچھے دنیا بھر کے اُن تمام پاکستانیوں کا ہسپتال پر اعتماد ہے جو اس عظیم مقصد کے لئے مل کر کام کرتے ہیں۔اور انسانی بھلائی کا یہ کام گزشتہ اکیس سالوں سے جاری ہے، تاہم، ہمارے ملک میں کینسر کا بوجھ بہت زیادہ ہے جس کے لئے مزید ہسپتالوں کے قیام کی شدیدضرورت ہے۔
عوام کی صحت کی مناسب دیکھ بھال کا مربوط نظام فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے، جبکہ غیرمنافع بخش تنظیموں کا کام صرف اس نظام میں موجود خلا کو پُر کرنا اور پہلے سے موجود ریاستی اداروں کو اضافی مدد فراہم کرناہوتا ہے نہ کہ پبلک سیکٹر میں بنیادی ادارے کے طور پر کام کرنا۔یہ ایک ایسا رجحان ہے جو بدقسمتی سے ہمارے ملک میں وجود رکھتا ہے۔ایک ہسپتال، خاص طور پر ایک کینسر ہسپتال کو عالمی معیار کی ہیلتھ کیئر کی سہولتیں فراہم کرنے کے لئے مسلسل ترقی کرتے رہنا ہوتا ہے۔ اس ترویج و ترقی کے لئے ایک خیراتی کینسر ہسپتال کو مستقل مدد درکار ہوتی ہے۔الحمدللہ! شوکت خانم کینسر ہسپتال اپنے قیام سے اب تک کینسر کے مریضوں کو جدیدترین کینسر کے علاج کی سہولتیں فراہم کررہا ہے اور بلاشبہ اس صلاحیت کو قائم رکھنے میں ہسپتال کے ڈونرز کی مدد شامل ہے جو ہسپتال پر مکمل اعتماد کرتے ہیں۔
اگر ملک میں موجود کینسر کے ہسپتالوں کی تعداد بڑھ جائے تو کینسر کے مریضوں کا بوجھ بانٹا جاسکتا ہے، جس سے نہ صرف زیادہ مریضوں کو علاج کے مواقع میسر آئیں گے، بلکہ زیادہ وسائل دستیاب ہونے سے کینسر کے بارے میں تحقیق میں بہت مدد ملے گی۔شوکت خانم کینسر ہسپتال نے کینسر کے مریضوں کا ڈیٹا اکٹھا کرکے ایک جامع کینسر رجسٹری مرتب کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے اور اہم بات یہ ہے کہ ہسپتال نے ملک میں موجود کینسر سے متعلق مختلف اعداد وشمار کے حوالے سے معیار بھی قائم کیا ہے۔اس کے علاوہ، شوکت خانم کینسر ہسپتال کے ریسرچ سائنسدان مختلف کینسرز،بالخصوص بریسٹ کینسر کے خطرے کے عوامل جاننے کے لئے اپنی توانائیاں وقف کئے ہوئے ہیں۔ یاد رہے ایشیا میں بریسٹ کینسر کی شرح میں پاکستان سب سے آگے ہے۔BRCA1 اور BRCA2 جین کی تحقیقات میں ہسپتال کی بھرپور شرکت صحیح معنوں میں قابل تحسین ہے جو کہ پاکستان میں چھاتی کے کینسر کی تحقیق میں نئی پیش رفت کا باعث ہے۔اپنے مشن کے مطابق ہسپتال نے مختلف کینسرز کے بارے میں آگہی پیدا کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔
مثال کے طور پر، ہسپتال میں اُن خواتین کی آمد جن کو بریسٹ کینسر کی ابتدائی سٹیج تشخیص ہوئی، اس حقیقت کی تصدیق کرتی ہے کہ ہمارے معاشرے میں کینسر کی آگہی بہتر ہوگئی ہے، جبکہ اس سے پہلے بریسٹ کینسر کے علاج کے لئے تیسری چوتھی سٹیج کی خواتین ہی آتی تھی،تاہم، ابھی کینسر کی سینکڑوں اقسام پر تحقیق، اُن کے لئے نئے علاج کے طریقوں کی دریافت، جیسا کہ امیونوتھراپی،کے لئے ابھی ایک طویل سفر طے کرنا ہے۔بدقسمتی سے اس سمت میں تحقیق کے لئے بڑے سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ حکومت کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہے۔شوکت خانم ہسپتال پاکستان کے غریب کینسر کے مریضوں کے لئے اُمیدکی کرن ہے۔ یہ پاکستان کے لوگوں کا پاکستان کے لوگوں کے لئے انسانیت کا ایک عظیم تحفہ ہے اور انسانی زندگی کے وقار کے لئے ایک خراج تحسین ہے جس میں نسل، مذہب، قومیت اور امارت کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ آئیے ،شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال کے مشن میں شامل ہوجائیے ، کیونکہ انسانی فلاح کے اس کام میں ایک ایک روپے کی قدر، اکرم جیسے ہزاروں افراد اچھی طرح جانتے ہیں جو کینسر سے صحت یاب ہونے کے بعد نئی زندگی کا سفر شروع کرچکے ہیں۔