ایرانی پارلیمینٹ اور امام خمینی کے مزار پر دہشت گرد حملے
ایران کے دارالحکومت تہران میں مسلح افراد اور خود کش حملہ آوروں نے پارلیمینٹ (مجلس) کی عمارت اور امام خمینی کے مزار پر دھاوا بول دیا اِن حملوں میں12افراد جاں بحق اور42 زخمی ہو گئے، داعش نے حملوں کی ذمہ داری قبول کر لی ہے اور اگر یہ دعویٰ درست ہے تو اسے ایران میں داعش کا پہلا حملہ کہا جا سکتا ہے، حملہ آور بدھ کو الصباح سیکیورٹی گارڈ اور ایک دوسرے شخص کو ہلاک کرتے ہوئے پارلیمینٹ کی عمارت میں داخل ہوئے، چند افراد کو یرغمال بنائے جانے کی اطلاعات کے باوجود اجلاس جاری رہا، حملہ آوروں اور سیکیورٹی فورسز میں چار گھنٹے تک مقابلہ ہوتا رہا، جس کے بعد تمام دہشت گرد مارے گئے، حملہ آوروں نے خواتین کا روپ دھار رکھا تھا اور وہ عام افراد کے لئے داخل ہونے والے راستے سے پارلیمینٹ میں داخل ہوئے۔ ایک نے خود کو دھماکے سے اُڑا لیا جبکہ باقی دو کو سیکیورٹی فورسز نے ہلاک کر دیا، امام خمینی کے مزار کے باہر واقع بینک کے قریب ایک خود کش حملہ آور نے دھماکہ کر دیا،دو حملہ آوروں کو حراست میں لے لیا گیا ہے ایرانی پاسدارانِ انقلاب نے حملے میں ملوث ہونے کا الزام امریکہ اور سعودی عرب پر لگایا ہے اور بدلہ لینے کا بھی اعلان کیا ہے۔ ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ اِس حملے کا ایرانی عوام پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ صدر حسن روحانی نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف عالمی سطح پر متحد ہونے کی ضرورت ہے، ترکی کے دورے پر گئے ہوئے ایرانی وزیر خاجہ جواد ظریف نے کہا ہے کہ یہ حملہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں ہمارے عوام کے عزم کو مزید پختہ کرے گا۔ پوری دُنیا اِس وقت کسی نہ کسی انداز میں دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے، برطانیہ میں مسلسل کئی وارداتیں ہو چکی ہیں، اب تہران میں ایک ہی دن میں دو بڑے واقعات ہوگئے گئی ہیں، امام خمینی کا مزار شہر سے باہر قبرستان بہشت زہرا کے ایک کنارے پر واقع ہے مرجع خلائق ہے اور ایرانی عوام کی عقیدتوں اور محبتوں کا مرکز ہے۔ پارلیمینٹ کی عمارت بارونق علاقے، وسط شہر میں واقع ہے۔ غالباً رمضان المبارک کی وجہ سے اس کا اجلاس سحری کے وقت ہو رہا تھا، خود کش حملے کی اطلاع ملنے کے باوجود اجلاس معمول کے مطابق جاری رہا اور سیکیورٹی فورسز نے حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایرانی سیکیورٹی فورسز پہلے سے مستعد اور چاق و چوبند تھیں، ارکانِ پارلیمینٹ بھی حملے کے باوجود کسی خوف و دہشت اور افراتفری کا شکار نہیں ہوئے اِس لئے اس حملے کو اِس پہلو سے ناکام ہی کہا جا سکتا ہے،کیونکہ ایرانی عوام کے منتخب نمائندوں نے یکسوئی کے ساتھ اپنا کام جاری رکھا۔
ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد حکومت نے ریاست کے اداروں کو مستحکم کیا ہے اور انقلابی رہنما اس انقلاب سے جو مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے اُن پر توجہ مرکوز رکھی گئی ہے، انقلاب کے فوراً بعد عراق نے ایران پر جنگ مسلط کر دی تھی جو آٹھ سال تک جاری رہی اِس جنگ کے دوران بھی ایران میں انتخابات باقاعدگی سے ہوتے رہے اور معمول کی زندگی جاری رہی۔ بہانے بہانے سے الیکشن ملتوی کرنے پر تیار رہنے والے ملکوں کے لئے اس میں سبق ہے۔ جنگ کے علاوہ بھی ایران کو دہشت گردی کا سامنا رہا اور ایک حملے میں ایرانی صدر جواد باہنر اور وزیراعظم محمد علی رجائی سمیت صفِ اول کی تمام قیادت جاں بحق ہو گئی تھی،لیکن ایران نے خوفزدہ ہوئے بغیر ملکی استحکام کے لئے اپنا سفر کامیابی سے جاری رکھا، ایران جنگوں اور دھماکوں جیسے مشکل حالات سے سرخرو نکلا ہے طویل عرصے تک اُسے امریکہ اور یورپی ممالک کی اقتصادی پابندیوں کا سامنا بھی رہا،لیکن ایرانی حکومت نے ان تمام آزمائشوں کا پامردی سے مقابلہ کیا۔مشرقِ وسطیٰ کے حالات اِس وقت دگر گوں ہیں ،عراق اور شام کے کچھ علاقوں پر قبضہ کر کے داعش نے اپنی حکومت بنائی ہوئی ہے، ایران اس میں شام کی حکومت کا کھل کر ساتھ دے رہا ہے اور ایرانی فوجی بھی شام میں موجود رہے اس وقت داعش کو شامی علاقوں سے پسپائی کا سامنا بھی ہے جو اردگرد کے ممالک میں پھیل رہی ہے۔ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ داعش نے افغانستان کے ایک صوبے میں اپنے آپ کو منظم کرنا شروع کر دیا ہے اِس لئے خطے کے ممالک کو دہشت گردی کے خلاف اپنی حکمتِ عملیوں کو مربوط کرنا ہو گا یہی بات ایرانی صدر حسن روحانی نے دہشت گردی کے حملوں کے بعد اپنے بیان میں کہی بھی ہے ’’ایران کا موقف ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ دہشت گردی عالمی مسئلہ ہے اور انتہا پسندی، تشدد اور دہشت گردی کا مقابلہ علاقائی اور عالمی قوتوں کو مل کر کرنا چاہئے‘‘، لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جو عالمی اتحاد وجود میں آ رہے ہیں ان کے درمیان بھی اتحاد کا فقدان ہے۔
سعودی عرب کی سربراہی میں جو فوجی اتحاد تشکیل پایا ہے، اس کا بنیادی مقصد بھی دہشت گردی کا مقابلہ بتایا گیا ہے،لیکن چند روز قبل سات عرب ممالک نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر لئے ہیں۔ ان ممالک کا قطر پر الزام ہے کہ وہ دہشت گرد گروپوں کی سرپرستی کر رہا ہے جبکہ قطر نے اس الزام کی تردید کی ہے۔ اِن ممالک کو قطر سے اصل شکایت یہ ہے وہ اخوان المسلمون اور فلسطینی تنظیم حماس کی حمایت کر رہا ہے، چونکہ مصر کی حکومت اخوان المسلمون سے نالاں ہے اور سعودی عرب بھی اخوان المسلمون کے خلاف ہے، مصر کی حکومت تو اس معاملے میں اسرائیلی پالیسی کے بہت قریب ہے۔ اِن حالات میں دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ متاثر ہو رہی ہے اور دہشت گرد گروپوں نے نئے اہداف بھی تلاش کرنے شروع کر دیئے ہیں۔ ایران اس لحاظ سے نیا ہدف کہلا سکتا ہے کہ وہاں ایسا واقعہ طویل عرصے کے بعد رونما ہوا ہے۔ اس بات کا خدشہ موجود ہے کہ ایران میں اس نوعیت کے مزید حملے ہوں، پہلے ہی حملے میں ایران کے دو انتہائی اہم مقامات کو منتخب کیا گیا ہے۔ ایرانی پارلیمینٹ وسطی تہران میں انتہائی سیکیورٹی زون میں واقع ہے اس پر حملہ کر کے دہشت گردوں نے یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ وہ سیکیورٹی حصار کے اندر داخل ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں،لیکن اس لحاظ سے دہشت گردوں کو ناکامی ہوئی کہ ایرانی پارلیمینٹ کا اجلاس جاری رہا اور اس حملے کا کوئی بڑا اثر ایرانی حکومت اور پارلیمینٹ نے نہیں لیا، اِسی طرح امام خمینی کا مزار روحانی مرکز کی حیثیت رکھتا ہے اس پر حملے کے ذریعے جو پیغام دینے کی کوشش کی گئی اس کا جواب بھی ایرانی سیکیورٹی فورسز نے حملے کو ناکام بنا کر دے دیا ہے۔ اب دہشت گردی کے پھیلتے ہوئے عفریت کو ناکام بنانے کا تقاضا ہے کہ تمام ممالک متحد ہو کر دہشت گردی کا مقابلہ کریں اور اس وقت گروہوں میں بٹ کر جو نقصان ہو رہا ہے اس سے بچیں۔
