ماہ رمضان اورتلاوت قرآن

ماہ رمضان اورتلاوت قرآن

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ماہ صیام نزول قرآن کا مہینہ ہے۔ یہ نیکیوں کا موسم بہا رہے، برکتوں اور رحمتوں کا مہینہ ہے۔ عبادات کا یہ عالمی موسم بہار وہی شخص پاتا ہے جو خوش نصیب ہوتا ہے بعض لوگ اپنی تمناؤں اور آرزؤں کو لے کر داربقا کی طرف رحلت کر جاتے ہیں اور یہ قیمتی وقت انہیں نصیب نہیں ہوتا۔ قرآن کا نزول اسی مہینہ میں ہوا جیسا کہ ارشاد ہے۔
’’ماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا جو لوگوں کو ہدایت کرنے والا ہے اور جس میں ہدایت کی گئی اور حق وباطل کی تمیز کی نشانیاں ہیں۔ تم میں سے جو شخص اس مہینہ کو پائے اسے روزہ رکھنا چاہئے‘‘۔(بقرہ)
جہاں یہ مہینہ برکتوں، رحمتوں اور سعادتوں کا سنگم ہے وہاں اسی ماہ رمضان کے روزے کا ربط و تعلق نزول قرآن سے اس ماہ کی فضیلت و اہمیت کے لئے کافی ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلیؒ ’’حجتہ اللہ البالغہ: 37/2 میں لکھتے ہیں کہ کسی اور ماہ کی تعین ہونا ہی تھی تو اس کے لئے اس مہینہ سے بہتر کوئی مہینہ نہیں تھا۔ جس میں قران نازل ہوا، ملت مصطفوی کی بنیاد مستحکم ہوئی، مزید یہ شبِ قدر کا امکان بھی زیادہ تر اسی مہینہ میں ہے۔
روزہ اور قرآن کے درمیان بڑا گہرا ربط ہے اور خصوصی مناسبت بھی کیونکہ قرآن رمضان کی شب قدر میں لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر اتار دیا گیا اور وہاں بیت العزہ میں رکھ دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان میں تلاوت قرآن کا بہت زیادہ اہتمام کیا کرتے تھے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے بیان کے مطابق رسول اللہ ﷺ سب سے زیادہ فیاض و سخی تھے لیکن جب ماہ رمضان آ جاتا تو آپ کی سخاوت و فیاضی ہوا سے بھی زیادہ تیز ہو جایا کرتی تھی۔
حضرت جبرئیل علیہ السلام ہر سال ماہ رمضان میں آتے اور قرآن کا دور کراتے جس سال آپ کی وفات ہوئی آپ نے رمضان میں جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ دو مرتبہ دور کیا۔ اس طرح یہ قرآن کو ازبر کرنے کا مہینہ ہے۔ رمضان کا تعلق اللہ تعالیٰ کی تکوینی مصلحت کے مطابق ایک تسلسل ہے اس شریعت الٰہی کا جس کی تکمیل نبی ﷺکے ذریعہ کی گئی۔ ماہ رمضان میں پوری انسانی فضا اور پورے انسانی معاشرے پر اس کے اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ زمان و مکان پر ایک روحانی فضا چھائی رہتی ہے۔ نیکی کے جذبات ابھرتے ہیں، برائی کے عوامل کمزور ہو جاتے ہیں۔ قرآن کریم نے یہی انقلاب پیدا کیا اور ہر سال رمضان آ کر اسی انقلاب کی یاد دہانی کراتا ہے کسی شاعر نے لکھا ہے۔
ورد قرآن سے زمین و آسماں پرنور ہیں
سجدہ ریزی سے جبینیں نور سے معمور ہیں
دل نوافل کی لطافت سے بہت مخمور ہیں
لذت افطار سے پیر و جواں مسرور ہیں
قرآن کی تلاوت بڑی ہی بابرکت اور باعث اجر و ثواب ہے۔ ارشاد الٰہی ہے:
جو لوگ کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہیں اور نماز کی پابندی رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو عطا فرمایا ہے اس میں سے پوشیدہ اور اعلانیہ خرچ کرتے ہیں وہ ایسی تجارت کے امیدوار ہیں جو کبھی خسارہ میں نہ ہوگی۔ یعنی ایسے لوگوں کا اجر اللہ کے ہاں یقینی ہے جس میں مندے اور کمی کا امکان نہیں۔اس کی تلاوت کرنے والوں کی خوشبو کا کیا پوچھنا جس کی تعریف محمد عربیؐ نے کی ہو بھلا اس کی تعبیر لفظوں میں ممکن ہے۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری کا بیان ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
قرآن پڑھنے والا مومن اترج کے مانند ہے جس کی خوشبو اور لذت دونوں اچھی ہوتی ہیں اور قرآن نہ پڑھنے والا مومن کھجور کے مانند ہے جس کی لذت تو عمدہ ہے مگر اس میں خوشبو نہیں ہوتی ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: جس نے قرآن کا ایک حرف بھی پڑھا اس کے لئے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں میں الم کو حرف نہیں کہتا بلکہ الف ایک حرف ہے اور لام ایک حرف اور میم ایک حرف ہے۔ محمد صالح عثیمین بیان کرتے ہیں کہ تلاوت قرآن کی دو قسمیں ہیں ایک تلاوت لفظی اور دوسری تلاوت حکمی: جو رسول اللہ ﷺ کی دی ہوئی خبروں کی تصدیق اور احکام شرعیہ کی اتباع بلکہ تمام مامورات کی بجا آوری اور منہیات سے اجتناب کا نام ہے۔ دراصل نزول کا بنیادی مقصد یہی تلاوت حکمی ہی ہے۔ ’’یہ بابرکت کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف اس لئے نازل فرمایا ہے کہ لوگ اس کی آیتوں پر غور و فکر کریں اور عقل مند اس سے نصیحت حاصل کریں‘‘۔(ص23)
تلاوت قرآن ایک اہم عبادت ہے اس لئے قرآن کی عظمت، اس کے واجب التعظیم ہونے پر ایمان رکھنا چاہئے اور تلاوت قرآن کے آداب کو ملحوظ رکھنا چاہئے۔ ہر شخص کو دوران تلاوت لغویات سے پرہیز کرنا ضروری ہے تلاوت قرآن میں اخلاص و للہیت ہو۔ خشیت الٰہی ہو اور اس کا مقصد رضا و خوشنودی کا حصول ہو۔ اس کے معانی و مفاہیم پر غور کرکے تلاوت کی جائے، پاکی کی حالت میں تلاوت کی جائے۔ کیونکہ قرآن کلام الٰہی ہے گویا تلاوت کرنے والا اللہ سے مخاطب ہے قرآن کی تلاوت اچھی آواز سے کرے، تلاوت شروع کرتے وقت تعوذ و بسملہ پڑھے۔
قرآن کی تلاوت اہم عبادت تو ہے ہی لیکن قیامت کے دن وسیلہ نجات بھی ہے عام دنوں میں اس کے اجر و ثواب جہاں زیادہ ہیں وہاں رمضان کے ایام میں اور اضافہ کے باعث ہیں۔ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: روزے اور قرآن کی تلاوت بندے کے لئے قیامت کے دن سفارش کریں گے، روزے،اللہ سے کہیں گے کہ اے رب! میں نے اس کو کھانے پینے اور جنسی خواہش کی تکمیل سے روک دیا تھا لہٰذا تو اس کے لئے میری سفارش قبول کرلے۔ اسی طرح قرآن مجید کہے گا کہ میں نے تیرے اس بندے کو رات میں سونے سے روک دیا تھا لہٰذا تو اس کے لئے میری سفارش قبول کرلے۔ ان دونوں کی سفارشیں قبول کی جائیں گی۔ (مسند احمد 174/2)
چنانچہ اس خیر و برکت کے مہینہ کو پا کر ہر شخص کو خوشیوں سے جھوم اٹھنا چاہئے اور اپنی کوتاہیوں اور لغزشوں کی مغفرت کے لئے تگ و دو شروع کر دینی چاہئے، قرآن کی تلاوت میں اس کے جملہ آداب کے ساتھ ہمہ وقت مصروف رہنا چاہئے تاکہ رحمت کے فرشتے ہمارے اوپر سایہ کئے رہیں اور نیکیوں کا چشمہ ہمارے لئے رواں رہے۔

مزید :

ایڈیشن 1 -