تصویر کے ساتھ رمضان اورعید پیکیج کی تقسیم؟
نیکیوں کے موسم بہار کا دوسرا عشرہ شروع ہو چکا ہے تزکیہ کا موسم تیزی سے اپنی منزل کی طرف گامزن ہے۔ روزے کا بنیادی فائدہ تقویٰ کا حصول ہے دوسرا فائدہ روحانیت میں اضافہ ہے۔ جب انسان کی طبیعت میں تقویٰ اور روحانیت پیدا ہوتی ہے اس کے نتیجے میں انسان نیکی کی طرف اور زیادہ راغب ہوتا ہے۔ رمضان المبارک میں نبئ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سخاوت اور فیاضی بہت بڑھ جاتی تھی۔ زیادہ فیض رسانی اور نیکی آپ کی طبیعت میں آ جاتی، تقویٰ اور روحانیت کی وجہ سے مسلمان کی طبیعت میں قدرتی طور پر نیکی کی طرف رغبت زیادہ ہوتی ہے اس میں اضافہ اور اس کی طرف زیادہ رغبت دلانے کے لئے نبئ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ،روزے کی حالت میں جب آدمی کوئی نفل نیکی کرتا ہے، مثلاً نمازِ نفل ہے اس کا ثواب فرض کے برابر ملتا ہے، فرض نیکی کرتا ہے اس کا ثواب70گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ بڑھا دیا جاتا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نیکی کی طرف مزید رغبت دلانے کے لئے فرمایا:فرشتے رمضان کی ابتدا ہی میں نیکی کے خواہش مندوں کو بلانا، پکارنا، رغبت دینا شروع کر دیتے ہیں، منادی کرائی جاتی ہے۔ اے نیکی کے متلاشی! قدم آگے بڑھا نیکی جمع کرنے کا موسم آ گیا ہے بدی کی تلاش کرنے والے اب تو رُک جا، اس نیکی کے مہینے میں تو باز آ جا۔
عام طور پر دیکھا گیا ہے ایک ادنیٰ درجے کا مسلمان بھی جس کو ذرا بھی دین کے ساتھ محبت ہے اس مہینے میں نیکی کی طرف زیادہ رغبت رکھتا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دورِ اقدس میں یمن سے تعلق رکھنے والا اشعری قبیلہ بڑا مشہور تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشہور صحابی ابو موسیٰ اشعریؓ کا تعلق اسی خاندان اور قبیلہ سے تھا اس دور میں پیسہ بہت کم لوگوں کے پاس ہوتا تھا، لوگوں کو بس زندہ رہنے کے لئے کچھ مل جاتا تو غنیمت سمجھا جاتا۔ اس قبیلے کے لوگوں میں ایثار اور قربانی کی بڑی خوبصورت روایت چلی آ رہی تھی،ان کے پاس جب کھانے پینے کی اشیاء ختم ہو جاتیں تو قبیلے کا سربراہ حکم دیتا جس کے گھر میں جو بھی آٹا، جو، ستو ، کھجوریں یا کھانے پینے کی اشیاء ہیں وہ اس کے پاس لے آئے، بڑی بڑی چادریں زمین پر بچھا دی جاتیں، اب کھانے کی جو بھی چیز کسی گھر میں ہوتی وہ لا کر ڈھیر کر دیتا، جب سارے لوگ اپنے گھروں سے چیزیں لا کر ڈھیر کر دیتے تو مساوی انداز میں ان چیزوں کو تمام خاندانوں کے درمیان تقسیم کر دیا جاتا اس کو آپ کہہ سکتے ہیں یہ مساوات محمدی ہے۔ ذرا تصور کیجئے! ایثار اور قربانی کی اس سے زیادہ خوبصورت مثال اور کیا ہو سکتی ہے، کسی کی عزتِ نفس کو ٹھیس بھی نہیں پہنچی اور ہر گھر کو کھانے پینے کا سامان بھی مساوی طور پر میسر آ گیا ۔ اس سارے معاملے میں جو اصل حقیقت بیان کی گئی ہے مدد کیجئے عزتِ نفس مجروح کئے بغیر، نبئ پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں مومن صدقہ خیرات ایسے کرتا ہے ایک ہاتھ سے دیتا ہے دوسرے ہاتھ کو پتہ نہیں چلتا،مگر افسوس کیسا زمانہ آ گیا ہے بظاہر ریا کاری سے پناہ مانگنے والے بھی سفید پوش خاندانوں کا مذاق اڑا رہے ہیں۔
ہمارے ایک دوست ڈاکٹر عمران ملک نے ایک تصویر فیس بُک پر پوسٹ کی جو ہر مسلمان کی توجہ کی طالب ہے عمران ملک نے جس دُکھ کا اظہار کیا وہ یقیناًہمارے لئے لمحۂ فکریہ ہے۔مَیں محترم عمران ملک صاحب سے درخواست کروں گا۔ آپ ایک تصویر لے کر بیٹھ گئے یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ڈاکٹر عمران ملک نے جو تصویر پوسٹ کی ہے اس میں لاہور حکمران جماعت کے ایم این اے، ایم پی اے اور دیگر دس کے قریب ذمہ داران 8سے10کلو رمضان پیکیج کا پیکٹ60سالہ خاتون کو گھیرے میں لے کر دے رہے ہیں۔ وہ میری محترم بہن سہمی ہوئی کھڑی ہے ایسا لگ رہا ہے فوٹو لینے والے نے اسے بار بار ایک اور ایک اور کا نعرہ لگا کر مزید دہشت زدہ کر دیا ہوگا۔ 8سے10کلو پیکٹ پر 16سے 20 ہاتھ دینے کے لئے اور ایک سفید پوش محترمہ کے دو ہاتھ لینے والے کے، کیا بیت رہی ہو گی اس غریب مسکین خاتون پر جس کے سر سے چادر بھی نیچے آ رہی ہے یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے، زیادتی نہیں، ریا کاری نہیں، غضب خدا کو دعوت دینا نہیں۔
اخبار میں شائع ہونے کے لئے آنے والی تصاویر پر اگردیکھا جائے تو سر شرم سے جھک جاتے ہیں اس میں صرف مسلم لیگ(ن) کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ ڈاکٹر عمران ملک کی طرف سے پوسٹ کی گئی تصویر میں یقیناًلاہور کے ایم این اے کا تعلق مسلم لیگ(ن) سے ہے اس حمام میں تمام جماعتیں ننگی ہیں کوئی مذہبی، سیاسی جماعت، این جی او ایسی نہیں جو اس سمندر میں غوطہ زن نہ ہو۔ فیس بُک پر پوسٹ کی گئی، مظلوم خاتون کی طرف سے رمضان پیکیج کی وصولی کی رونگٹے کھڑے کر دینے والی تصاویر میں تبصرہ کرنے والوں کی فہرست دیکھ رہا تھا ان افراد کی اپنی جماعت کی طرف سے بھی دو دو سو خواتین اور مردوں کی لائنیں لگی تصویر میرے پاس موجود ہے۔ سعودیہ سے گفٹ آئے، ملازمین اور دیگر افراد کو قرآن پاک کا گفٹ دینے کی طویل داستان بھی میرے پاس موجود ہے، بڑے بڑے نامور دانشور مواخات مدینہ کے نمبردار بننے والے بھی اس حمام میں ننگے ہیں۔ یہ آگ ہے لگی ہوئی ہر طرف۔ الزام کس کو دیا جائے، گلہ کس سے کیا جائے، ناچ گانے والیاں جب رمضان میں سحری اور افطاری پرریڈیو اور ٹی وی پروگراموں میں ہماری دینی رہنمائی کریں گی، ایک ماہ کے لئے مجرہ چھوڑ کر دو دو کنال کے روحانی سیٹ پر بیٹھ کر درس حدیث دیں گی تو پھر عام آدمی کے لئے نیکی اور بدی، اچھائی برائی کا فرق سمجھنا یقیناًمشکل ہو جائے گا۔ قرآن عظیم الشان میں ارشاد ہے تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں۔ دوسری جگہ فرمایا گیا ایسی قومیں تباہ برباد کر دی گئیں، جو بے عمل ہو گئیں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسولؐ سے منہ موڑ لیا ان کا نام نشان مٹا دیا گیا، جو منکر ہو گئیں آخر میں اپنا احتساب کرتے، اپنے گریبان میں جھانکتے ہوئے اپنے دوست احباب کسی جماعت میں بھی ہوں اتنا کہوں گا، الزام دوسرے کو دینے کا وقت نہیں ہے، اپنے گریبان میں جھانکنے،اپنی تنظیم اور اپنی جماعت کو دیکھنے کا ہے ہم کیا کر رہے ہیں اگر کسی کی مدد کر رہے ہیں اس کا اجر دُنیا میں لینا چاہتے ہیں تو اللہ کا وعدہ ہے مَیں اس کو دوں گا، قیامت کے دن صرف عالم، شہید ہی اللہ کی عدالت میں پیش نہیں ہوں،بلکہ ہر فرد کو ہر لمحے کا حساب دینا ہو گا۔آخر میں تاریخ کا ایک واقعہ نقل کرنا چاہوں گا۔
عمرو بن شیبہ کہتے ہیں ہم مکہ مکرمہ میں تھے ہم نے دیکھا ایک شخص صفا مروہ کے درمیان اپنے خچر پر سوار ہے اس کے اردگرد نوکر خدام ہیں جو لوگوں کو اس سے پرے ہٹا رہے ہیں وہ بڑے تکبر اور فخر کے ساتھ خچر پر بیٹھا صفا مروہ کے مابین چکر لگا رہا ہے۔ اللہ کے گھر میں اس طرح خدام کے حصار میں صفا مروہ کا چکر لگانا ہمیں کچھ اچھا نہ لگا، کچھ عرصہ گزرا ہمیں بغداد جانے کا اتفاق ہوا،مَیں نے ایک آدمی کو دیکھا جو بھیک مانگ رہا تھا مَیں بار بار اسے دیکھ رہا تھا اس نے مجھ سے پوچھا مجھے ایسے کیوں دیکھ رہے ہو؟ مَیں نے کہا کچھ عرصہ قبل تم سے ملتا جلتا شخص دیکھا تھا مکہ مکرمہ میں! وہ فرمانے لگا مَیں وہی ہوں مجھے بڑا تعجب ہوا۔ وہ شخص کہنے لگا۔ مَیں نے وہاں تکبر اور فخر کا اظہار کیا جہاں لوگ تواضع انکساری اختیار کرتے ہیں۔ آج اللہ نے مجھ سے اپنی نعمت چھین کر بھکاری بنا دیا، نیکیوں کے موسم بہار میں ایک نیکی70گنا بڑھتی ہے گناہ بھی اسی حساب سے بخشے جاتے ہیں، ریا کاری، دکھاوا،تکبر، غرور کی سزا بھی اتنا ہی بڑھا دی جاتی ہے۔ کسی صدقہ خیرات کرنے والے کی دِل آزاری کرنا مقصود نہیں ہے جو جتنا کرے گا اتنا ہی اس کا اجر پائے گا، مگر رمضان ہو یا آنے والی عید اس پر جو بھی گفٹ یا پیکیج دیا جائے اس میں اگلے فرد کی سفید پوشی کا بھرم قائم رہنا چاہئے۔