ہم مر چکے ہیں

ہم مر چکے ہیں
ہم مر چکے ہیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اس وقت حالات یہ ہیں کہ ہم ذہنی طور پر بدل چکے ہیں اور مجھے گمان ہوتا ہے کہ جیسے ہم بیس کروڑ لوگ مرے ہوئے ہیں، میں بڑی ایمانداری سے کہہ رہا ہوں۔ اس وقت سب سے زیادہ اچھا ریٹنگ(Rating) پتا ہے کس چیز کا آتاہے، ہم دو عادتیں اپنی بڑی پختہ کر چکے ہیں، ہم اپنے بادشاہوں کو ذلیل ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں، مزہ آتا ہے، ووٹ دیں گے پھر ہم کہتے ہیں کہ اسی کو لا کرایک عورت کے ہاتھوں بے عزت کرواؤ، ہمیں مزہ آتا ہے ، پتا نہیں کیوں۔ پھر دوسری، سب سے زیادہ آپ کو پتا ہے کون سا چینل دیکھا جاتا ہے پاکستان میں؟ سب سے زیادہ کیا دیکھا جاتا ہے ؟ گانے(Music)؟ خبریں(News)؟ سٹار پلس دیکھا جاتا تھا۔میں کہتا ہوں کہ اگر وہ بھی دیکھتے رہے نا ہماری مائیں ، بہنیں توچلیں ناچ لیں گھر میں،یارومیں تو یہی کہتا ہوں ،مریں تو نا، یہ تو مر چکی ہیں ساری، اس وقت سب سے زیادہ ریٹنگ (Rating) آتی ہے، آٹھ سال کی بچی کو اس کے باپ نے ریپ (Rape)کیا۔لاحول ولا قوۃ۔ہم اس کے گھر کا ماتم دیکھتے ہیں چل کے، آےئے دیکھیں، کیا خیال ہے آپ کا، اب باپ یہ کر رہا تھا تو آپ کیا کر رہی تھیں؟ سارا پاکستان دیکھ رہا ہوتا ہے۔ ہمیں لوگوں کی بیٹیوں کی عزتیں لوٹنے کے بعد ان کے گھروں کے اندرماتم دیکھنے کا شوق ہے، آپ اس قوم کو زندہ کہتے ہیں؟ آپ کو Mind change کرنے کا مسئلہ ( ہے، ارے یہ مر چکی ہے قوم۔ پھر ہم عشقِ رسولﷺ کی باتیں کرتے ہیں۔ آپ تو اپنی پانچ پانچ سال کی بیٹیوں کو ان کی عزتیں لٹا کر، ان کے ماتم پہ بیٹھتے ہیں، بین کرتے ہیں ، کہتے ہیں اچھا یہ کر رہا تھا ۔اس وقت اس کا باپ، سسر نے لوٹی بہو کی عزت، کیسے ؟ وہ پھر آتی ہے ، بتاتی ہے، پھر آپ اس کو سنتے ہیں، اس قوم کو آپ دین کی تبلیغ دینا چاہتے ہیں۔ آپ یہ چاہتے ہیں کہ یہ مری ہوئی لاشیں جو ہیں یہ ڈی۔ ایچ۔ اے (D-H-A)گروپ میں نہ جائیں، تبلیغ میں جائیں، ایم ۔بی۔بی۔ایس (MBBS) کریں لیکن اس کے ساتھ یہ ماسٹر ان ایجوکیشن(Master in Education)اور اسلامک اسٹڈیز (Islamic Studies) بھی کریں اور فرنٹ فٹ (Front foot)پہ جا کر دعویٰ کریں۔ آپ کی مسجد محلے کی جو ہے اس کا امام جو ہے وہ میرے جیسا کوئی مفتی نہ ہو، وہ وہاں ،اسی محلے کا رہنے والاگولڈ میڈلسٹ(Gold Medalist) ہو،جو روز پانچ وقت جا ئے اور امامت کرے اور خطبہ بھی ہم اسی کا سنیں، یہ چاہتے ہیں آپ، اس قوم سے جو اپنی بیٹیوں کی عزتوں کو لوٹتے ہوئے دیکھنا چاہتی ہے خود، اسے کہتے ہیں Insists معاشرہ۔۔۔ Insists معاشرے سے خدا کی قسم صرف طارق کی دعا کی جا سکتی ہے۔ آپ کو اندازہ ہی نہیں ہے کہ اس معاشرے میں کیا غلاظت آ چکی ہے۔ وہ غلیظ جن کو ہم سمجھتے تھے نا، اب وہ عزت دار ہیں، ہم کن کو غلیظ سمجھتے تھے؟ امراء جان ادا کو، وہ تو بڑی عزت والی عورت تھی، زبان ، لہجہ سلجھا ہوا تھا، غیرت مند تھی، لباس ٹھیک تھا، ہم کیا لوگ ہیں، ہم تو طوائفوں کے معیار پہ بھی اب پورے نہیں اترتے، اس لئے اتنی اتنی بڑی باتیں جو ہیں نا، یہ بہت دور کی باتیں ہیں، میرا دل چھلنی ہو چکا ہے خدا کی قسم ۔ یہ کتنی عجیب بات ہے، کتنی عجیب بات ہے کہ ہم نے اپنے دین کو گروی رکھ دیا ہوا ہے ۔نالائق لوگوں کے ہاں۔ مجھ سے کم تعلیم یافتہ شخص مجھے بتاتا ہے کہ میری زندگی کا محورِ دین کیا ہو گا، یہ میری اور آپ کی غلطی ہے۔ آج یہ فیصلہ کر لو کہ اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کے دِین کا ذِمہ ہم نے لینا ہے۔ میری بیٹی کو کوئی سکول میں بتائے گا کہ سیکس ایجوکیشن (Sex Education) کیا ہوتی ہے، میں مر نہ جاؤں ، میری بیٹی کو باہرسڑک پہ بتائے گا، پان کی دکان پہ کہ لڑکیوں کے ساتھ تعلقاتکیسے بنانے ہیں؟ میں مر چکا ہوں، میں ڈرامے دیکھ دیکھ کر مر چکا ہوں۔ اس لئے اندراگاندھی نے کیا خوبصورت بات کی تھی اوریہ1983-1984کی بات ہے، اس نے کہا تھا کہ پاکستان کے ساتھ جنگ کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ بھائی میں جب اس عمر میں تھا نا، تو دو دفعہ گیا تھامیں وہ اُس محلے میں ، دونوں دفعہ میں گیا تھا سری پائے(پھجے) کھانے اورکمبل لپیٹ کر گیا تھا گرمیوں میں کہ کوئی ہمارا معصوم چہرہ نا دیکھ لے اور تین دن بخار رہا تھا کہ کسی نے دیکھ نالیا ہو، کھانے کیا گیا تھا دو کلچے اور ایک پلیٹ۔ یار میں اب اس وقت پہ نادم ہوں کہ وہی چیز اب میں اپنے گھر میں، ڈرائنگ روم میں اپنی ماں ، بہن، بیٹی، بہوکے ساتھ بیٹھ کردیکھ کر(Enjoy) کر رہا ہوں۔مجھے موت پڑی تھی کہ مجھے تین دن بخار رہا، اب وہ جو حرام زدگی تھی نا اب وہ حلال زدگی بن کرہمارے گھروں میں موجود ہے تو مریں گے نہیں تو کیا ہو گا۔آپ ان لوگوں کے بارے میں بات نہیں کر رہے جو زندہ ہیں، ہم سانس لے رہے ہیں لیکن ہم مر چکے ہیں۔

.

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -