روزِ قیامت……کیا واقعی؟

روزِ قیامت……کیا واقعی؟
روزِ قیامت……کیا واقعی؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

یہ اُن دِنوں کی بات ہے جب میں مسلمان کے گھر میں پیدا ہونے کے باوجود دین ِ اسلام سے مکمل لاتعلق تھا۔ میٹرک کے بعد 15سال کی عمر میں پاکستان ائیر فورس میں بطور Apprentice ریڈار مکینک کی تربیت کے لئے 3 سال کے لئے برطانیہ بھیج دیا گیا۔ ہم 26 لڑکے تھے۔ اُن میں سے صرف 5-6 لڑکے جو دیہاتی پس منظر رکھتے تھے، نماز ادا کرتے تھے۔

ایک سال بعد وہ بھی ہمارے ساتھ کے ہو گئے، یعنی بے نمازی ہوگئے۔ گوروں کے ساتھ رہنے سہنے سے اسلامی لحاظ سے ہم میں بُری عادتیں بھی آ گئی تھیں۔ ہم 3 سال میں Technician تو اعلیٰ بن گئے تھے، لیکن ہماری مسلمانی غائب ہو چکی تھی۔ نماز،روزہ ہم سے چھوٹ گیا تھا۔3 سال بعد پاکستان واپس آئے تواُس وقت پاکستان کی ائیر فورس میں 25فیصد کے قریب گورے خدمات انجام دے رہے تھے۔

ائیر فورس کے کیمپوں کا کلچر اُس وقت بالکل Secular تھا۔ کوئی ریگولر مسجد بھی نہ تھی،رمضان کے احترام میں کینٹین بھی بند نہیں ہوتی تھی۔ اس ماحول میں میری مزید 6 سالہ نوکری کے روز و شب بغیر دین ِ اسلام کی قربت کے گذر گئے۔اُن دِنوں مذہبی لٹریچر رکھنے اور پڑھنے کی ممانعت تھی خاص طور پر جماعت اسلامی کی کتابیں۔ صرف قرآن شریف جو ہم اپنی بیرک میں پڑھ سکتے تھے اور وہ بھی آواز سے پڑھنے کے لئے نہیں،بلکہ خاموشی سے پڑھنے کے لئے۔PAF کے کمانڈراِن چیف 1956ء تک گورے ہی تھے۔ ائیر فورس میں رہتے ہوئے ہی میَں نے F.A.،B.A. اور M.A. انگریزی ادب میں کیا۔ اکنامکس میں M.A. کر ڈالا اور 1959ء میں CSS کا اِمتحان دیا۔ اُن دِنوں مقابلے کے اِمتحان میں مذہبی اِمتحان کا الگ پرچہ نہیں ہوتا تھا۔ میَں کامیاب ہو کر اعلیٰ سروس میں چلا گیا۔ 1961ء کی سول سروس اکیڈمی میں ہماری باقاعدہ تربیت میں مذہب اسلام شامل نہیں تھا۔
اوپر دی ہوئی تفصیل بتانے کی ضرورت یوں پڑی کہ قارئین کو بتا سکوں کہ میں اپنی عمر کے زیادہ حصے میں دین ِ اسلام سے دُور رہا۔ سمجھ لیں کہ نادانستہ میَں الحاد کے قریب تھا۔ وہ تو میری قسمت اچھی تھی کہ 2003ء سے 2006ء تک میرا رابطہ حکومت ِ پنجاب کی طرف سے سکھوں کی اُن تنظیموں سے ہو گیا،جو پاکستان میں سکھوں کے مقدس مقامات کی Upgrading کے لئے حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتی تھیں۔ میرا سکھ تنظیموں سے منسلک ہونے کا تجربہ دلچسپ بھی تھا اور مجھے اپنے دینِ اسلام کو سمجھنے اور اُس پر عمل کرنے کی توفیق بھی ہوئی۔

سکھوں والی کہانی کسی اور مضمون کے لئے اُٹھا رکھتے ہیں، چونکہ مجھے حکومتِ پنجاب نے ننکانہ صاحب ڈویلپمنٹ پروگرام کا کنونیئر بنایا تھا اِس لئے سکھوں کے گرنتھیوں سے بات چیت کرنے کے لئے اور اُن کو یہ بتانے کے لئے کہ مَیں سکھ دھرم کے بارے میں کم علم نہیں ہوں، مَیں نے اپنی زندگی میں سب سے پہلے سکھوں کے دھرم اور اُن کی تاریخ کو سمجھ کر پڑھا۔ سکھ د ھرم کو پڑھتے پڑھتے مجھے دوسرے مذاہب کو پڑھنے کا بھی شوق ہوا۔ زرتشتزم، ہندو اِزم، مسیحی اور یہودی مذہب، بدھ مذہب، بہائی مذہب، تاؤ اِزم، اور شنتواِزم کو پڑھنے کے بعد میَں نے اپنے دین ِ اسلام کو آخر میں پڑھا۔

نمایاں سکالرز میں مولانا مودودیؒ، علامہ عبداللہ یوسف، پیر کرم علی شاہ، جسٹس سرا میر علی، کِرن آرم سٹرونگ، علامہ مشرقی، غلام احمد پرویز اور حمزہ یوسف شامل ہیں۔ مجھے چار آتھرز نے متاثر کیا،جن میں علامہ عبداللہ یوسف، علامہ مشرقی، مولانا مودودیؒ، اور حمزہ یوسف شامل ہیں۔ Historian سکالز میں جسٹس سرامیر علی اور کِرن آرم سٹرونگ شامل ہیں۔ سکھوں کے دھرم کی معلومات حا صل کرتے کرتے میں دین ِ اسلام کی صحیح روح کو سمجھ سکا اور اُس کے بعد میَں بڑی عاجزی سے عرض کر سکتا ہوں کہ میَں صرف پیدائشی اور تقلیدی مسلمان نہیں ہوں،بلکہ اسلام کے حقیقی فلسفے کو سمجھ کر میَں نے اپنی مسلمانی کو تازہ کیا ہے۔ اسلام کے عقیدے کا ایک رُکن یومِ اخرہ یعنی روزِ حساب یعنی قیامت کا دن ہے۔ مذہبوں کی Self study کے دوران مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ سوائے ادیانِ ابراہیمی (مسیحیّت، یہودیت اور اسلام کے)، کسی اور مذہب میں روزِقیامت کا وہ تصوّر نہیں ہے،جو ہم مسلمانوں میں ہے۔

ہندوؤں میں سورگ اور نرک کا تصور تو ہے، لیکن وہ آواگون (Reincarnation) کے عقیدے سے جُڑا ہوا ہے۔ جب کہ اسلام کے حوالے سے روزِ قیامت حساب کتاب کا روز ہے۔ میَں سمجھتا ہوں کہ ہم مسلمانوں کے پانچ عقائد بالغیب میں سب سے زیادہ اہم اور عملی عقیدہ روزِقیامت کا ہی ہے۔

اس دنیا میں ہم جو کچھ کرتے ہیں، جس طرح زندگی گذارتے ہیں، ہمیں یہ احساس رہتا ہے کہ قیامت کے روز ہماری پوچھ گچھ ہو گی اور ہمارے اعمال کے مطابق جزا اور سزا ملے گی، لیکن ہم آج کے مسلمان کیا روزِ قیامت کی حقیقت کو واقعی سمجھتے ہیں؟بالکل بھی نہیں سمجھتے!جو جو اخلاقی گراوٹیں اس دنیا کے مسلمانوں میں آ چکی ہیں، میَں نہیں سمجھتا کہ اُنہیں اس روز کی اہمیت کا احساس ہے۔ ہم بے دریغ جھوٹ بولتے ہیں۔ڈٹ کر ریاکاری اور غیبت کرتے ہیں۔

سُود کسی نہ کسی شکل میں ضرور لیتے ہیں اور سُود لینے کی سپورٹ میں مختلف تاویلیں دیتے ہیں۔ ہمارا تاجر طبقہ ذخیرہ اندوزی، منافع خوری، ملاوٹ اور نقلی مال بنانے میں مہارت رکھتا ہے۔ حکومت کے ٹیکس اور بجلی کی چوری میں یہ طبقہ آگے آگے ہے، لیکن یہ ہی طبقہ حج اور عمرے بھی بہتات سے کرتا ہے۔ سیون سٹار اور فائیو سٹار حج اور عمرے پر رقم بہا دے گا،لیکن حکومت کا ٹیکس چوری کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھے گا۔
مسجدوں کی تعداد کے ساتھ ساتھ نمازیوں کی تعداد بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ تاجر اور دوسرے طبقات کے مسلمان روزِ قیامت کو بھی کبھی دل میں لاتے ہیں یا نہیں۔ اگر یہ یومِ حساب کو واقعی اہمیت دیں تو یہ لوگ سماجی اخلاقیات اور اسلامی معاشریات کو کبھی نہ بھولیں۔

روزِ قیامت کا احساس انسان کو ہر گناہ، بدی اور قانون شکنی سے روکتا ہے۔ میَں جب سے عملی مسلمان ہوا ہوں، مجھے تو روزِ قیامت کا احساس بہت سی برایؤں سے روکتا ہے۔ ہمارے مولوی حضرات کی کثرت یومِ حساب کو بالکل ہی بھُلا بیٹھی ہے۔ جتنا خون خرابہ مسلمانوں میں اِنہوں نے مسلک کے نام پر کروایا ہے، میرا یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ روزِ قیامت اِن سے سوال جواب زیادہ کرے گا، کیونکہ اِس دُنیا میں اِنہوں نے اسلام رائج کرنے کی ذمہ داری لی ہوئی ہے اور یہ جو دینی علماء ہیں یہ تو ریاکاری کے سر چشمے ہیں۔

کیا واقعی یہ روزِ قیامت پر یقین رکھتے ہیں؟ ہماری چھوٹی بڑی عدالتوں میں جھوٹی گواہیاں عام ہیں۔ ہمارے وُکلا کا اکثر طبقہ اپنے موّکل کی رہائی کے لئے جھوٹ کا سہارا لیتا ہے۔ ہمارے تمام سیاسی لیڈر اپنے عوام سے جھوٹ بولتے ہیں۔ اِن سب طبقات کا غالباً روزِ قیامت پر یقین نہیں ہے۔گناہ اور اِخلاقی جرائم جس کثرت سے ہمارے ملک میں بڑھ رہے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ عوام کا اکثر طبقہ روزِ قیامت کو بھول چکا ہے۔

مزید :

رائے -کالم -