خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں
حکمت عقل و فہم ہے۔ بصیرت ہے۔ ودیعت کیا ہوا علم ہے یا اللہ کریم کی جانب سے سینوں میں رکھے گئے دانش کے خزانے؟
میں سمجھتا ہوں خدا نے کچھ مخصوص لوگوں کے دلوں کو کسی خاص نور سے منورکررکھا ہوتا ہے جس کی روشنی میں انکا وجدان جو ادراک کرتاہے وہی حکمت ہے۔ حضرت حکیم لقمان کو اللہ رب العزت نے نیند کی حالت میں اچانک حکمت عطا فرمادی تھی قرآن کریم میں سورۃ لقمان ہے، جس میں حضرت لقمان کی نصائح اور حکیمانہ معقولات کا تذکرہ ہے حضرت حکیم لقمان کے بعد تاریخ کئی حکماء کو یاد کرتی ہے، جنہوں نے اپنے نفس کے کمالات لٹائے۔میڈیکل سائنس کتنی ہی ترقی کرجائے، لیکن دیسی طریقہ علاج آج بھی اپنی سحر انگیزیاں لئے ہوئے ہے یہ بے ضرر علاج نہ صرف سستا،بلکہ فطرت کے قریب بھی ہے ہم کسی حکیم صاحب کے دواخانے یا پنساری کی دکان پر جائیں تو کتنی ہی جڑی بوٹیوں کی خوشبوئیں ہمارا استقبال کرتی ہیں میٹھے شربت۔
میٹھی گولیاں۔ میٹھی معجون اور میٹھے طبیب ایسے میٹھے کہ ان کی میٹھی گفتتگو کا رس بیماریوں کی تلخیوں میں رس گھول دے بعض کڑوی ادویات بھی ہوتی ہیں، لیکن ان کے اثرات میٹھے ہی ہوتے ہیں۔ایسے ایسے حکیم بھی تھے کہ نبض پر ہاتھ رکھتے ہی سب بتا دیں کیا کھایا۔ کیا پیا۔کیا ہوا۔کیوں ہوا۔دو پڑیاں اور پرہیز بتا کر مریض کو فارغ کر دیا اور مریض کا مرض تو حکیم صاحب کے اپنائیت کے احساس سے ہی جاتا رہتا جب حکیم صاحب فرماتے کہ بھئی ایسا نہ کرتے تو ایسا کیوں ہوتا لو یہ دو خورا کیں لو مرض نہ رہے گا ’اِن شاء اللہ‘ساتھ دعائیں بھی دیتے اور اہل خانہ کے احوال بھی دریافت کرتے اگر کوئی کہہ دیتا کہ فلاں کی طبیعت اس وجہ سے ناساز ہے تو حکیم صاحب کہتے اسے کہنا فلاں چیز فلاں طریقے سے کھائے شفایابی ہوگی اور ایسا ہی ہوتا، یعنی حکیم صاحب خود دوا نہ دیتے کہ پیسے بٹورے جائیں، بلکہ دُعادیتے اور استعمال کے لئے کوئی نسخہ بتا دیتے۔
ایسے ہی ایک حکم صاحب ’حکیم یونس بیگ‘’کرتا رپور‘سے کچھ آگے بستان سٹاپ کے قریب ’ساتووال‘ گاؤ ں میں جلوہ افروز تھے خدا نے انہیں علم وحکمت کے خزانوں سے نواز رکھا تھادوردراز سے مریض ان کے پاس آتے اور اللہ کے فضل و کرم سے صحت یاب ہوتے، میں چھوٹا تھا شائد آٹھ دس سال کا مجھے یاد ہے میرے والد ماجد مرحوم و مغفور سانس کے مرض میں مبتلا تھے بیرون ممالک سے بھی علاج کرایا ملک کے مختلف ہسپتالوں میں گئے۔ معروف ڈاکٹرز سے دوائیاں لیں، لیکن آرام ندارد۔ والد ماجد حکیم یونس بیگ کے پاس گئے دواخانے تک کا جو تھوڑا پیدل راستہ تھا وہ والد ماجد نے چند قدم چلنے کے بعد بیٹھ بیٹھ کر طے کیا اور مشکل سے وہاں پہنچے حکیم صاحب جن خوبیوں کے مالک تھے ان میں ایک یہ بھی تھی کہ تیار دوا میں شامل اجزاء سے اگر کوئی ایک رہ جاتا تو کہہ دیتے ابھی دوا میں فلاں شے کی کمی ہے بعد میں لے لیجئے گاحکیم صاحب ہمارے والد ماجد کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے حکیم صاحب نے ایک چھوٹی معجون کی ڈبیہ دی، جس کی پہلی خوراک لیتے ہی والد ماجد کو اللہ نے شفا دی اور اس ایک ڈبیہ کے استعمال کے بعد تادم مرگ اللہ مغفرت فرمائے والد ماجد کو کبھی ایسا مسئلہ نہ ہوا۔
میں نے بارہا دیکھا کہ کوئی مریض ان کے پاس گیا کوئی مرض بتایا تو دوا دینے کی بجائے کہا آپ فلاں چیز کی کھیر کھائیے یا قہوہ پیجئے یا فلاں فلاں اشیاء لے کر انہیں کوٹ کر ایسے استعمال کیجئے فوری ٹھیک ہوجائیں گے اگر کسی کو دوا دیتے تودوا کے معقول پیسوں کے ساتھ ایک مخصوص ’پھکی‘ فری میں دیتے جو معدہ کے متعدی امراض کے لئے اکیسر تھی اور اتنی مقدرا میں دیتے کہ کوئی پندرہ بیس روز تو استعمال ہو خواتین بچوں کو لے کر آتیں تو کہتے بچہ فلاں چیز کھاتا تو بیمار نہ ہوتا اور آپ فلاں شے کھلاتے تو میرے پاس نہ آتے احتیاط کرتے نہیں اور بھاگتے ہیں ڈاکٹروں حکیموں کی طرف۔کوئی خاتون راولپنڈی سے اشکبار آنکھیں لئے آئی پوچھا بیٹی کیوں روتی ہووہ گویا ہوئی حکیم صاحب آنے کا کرایہ تھا جانے کا نہیں نہ ہی دوا کے پیسے ہیں حکیم صاحب نے نہ صرف دوا دی بلکہ اتنے پیسے دئیے کہ گھر کے کوئی ایک ماہ کے اخراجات اٹھائے جا سکتے تھے او رآئندہ بھی بلا تامل آنے کا کہہ دیا ایک بچی کسی موذی مرض میں مبتلا تھی ہسپتال والوں نے جواب دیا کہ گھر لے جائیں وہ حکیم صاحب کے پاس لے گئے جہاں سے صرف تین پڑیاں ملیں، جن میں سے ایک فوری استعمال کرائی گئی دو کو ہفتہ کے وقفہ سے استعمال کا بتایا خدا نے شفا دی ایک صاحب تو معدے کی اتنی تکلیف میں تھے کہ کچھ بھی کیا نکال دیا کمزور اس قدر ہوئے کہ خون لگنا شروع ہوا حکیم صاحب نے دوا نہ دی صرف بتایا کہ فلاں فلاں اشیاء سے چٹنی تیار کر کے اس سے کھانا کھاؤ اللہ نے اسے بھی شفا دی۔
حکیم صاحب نے کبھی اپنے منہ سے نہیں کہا کہ وہ بڑے دانا ہیں اور انہیں حکمت میں مہارت تامہ حاصل ہے،بلکہ انکساری سے کام لیتے میں نے ایسے نام نہاد حکیم بھی دیکھے ہیں جن کا حکمت سے دور نزدیک کا تعلق نہیں، جنہیں حکمت کے ابتدائی اصولوں سے بھی واقفیت نہیں، لیکن اپنی حکمت کے کرتب دکھاتے جھوٹے قصے سناتے تھکتے نہیں،ہمارے ’خان‘ صاحبان یعنی موسیقی سے تعلق رکھنے والے گھرانوں کے بڑے افراد کو میں نے اپنے بچوں کے لئے کہتے سنا ہے کہ صاحب کبھی میرے فلاں بیٹے کو گاتے سنا ہے؟ ہیرا ہے ہیرا۔ ایسے گاتا ہے کہ آپ سنتے رہ جائیں اور وہ تو واقعی گانے میں کوئی مہارت بھی رکھتے فن کی موشگافیوں کو سمجھتے، لیکن آج میں ایسے نام نہاد حکیمو ں کو بھی جانتا ہوں جنہیں حکمت کے ابتدائی طریقوں سے بھی واقفیت نہیں بس میڈیکل سٹور پر گئے ایلوپیتھک کی ادویات کو کسی چورن یا شربت معجون میں ملا کردیا یا مرض گیا یا پھر مریض،اب حکیم سے کون پوچھے؟ ایسے حکیموں کے لئے ایک معروف شاعر نے نظم بھی کہہ رکھی ہے، جس کی کسی ٹی وی مشاعرے کی ریکارڈنگ سوشل میڈیا پر وائرل بھی ہوئی، جس میں حکیم کی دوا سے کسی ماں کی جان جاتی ہے تو لواحقین حکیم کو دھر لیتے ہیں اور حکیم صاحب اپنی دوا کی جو خوبیاں بیان فرماتے ہیں ان میں ایک یہ بھی تھی کہ یہ دوا تو اتنی اچھی ہے کہ اسے کھا کر ہی اس کی اپنی ماں بھی انتقال کر گئی تھی۔
آج کل زیادہ حکیموں کا کام صرف زبانی جمع خرچ پر ہی چل رہا ہے مجھے کل ہی ایک صاحب کوئی بات بتاتے کہنے لگے میں حکیم یونس بیگ کے پاس گیا تو معلوم ہوا کہ وہ تو ملک عدم سدھار چکے حکیم صاحب کے سانحہ ارتحال کا سن کر مجھے صدمہ ہوا کہ ایساعلم و دانش رکھنے والا جہانِ فانی سے کوچ کر گیا اور ہمیں علم تک نہ ہوا خدا مغفرت فرمائے حکیم یونس بیگ واقعی حکیم تھے انہیں حکمت آتی تھی میں کوئی دو تین ماہ قبل ہی تو گیا تھا ان کے ہاں ماشاء اللہ بالکل ٹھیک تھے چند سال پہلے ان کا ایک جوان بیٹا اللہ کو پیارا ہو گیا تھا شائد اس کا دُکھ انہیں اندر سے کاٹ رہا تھا عید کے روز میں فاتحہ کے لئے گیا تو ان کے بیٹے نے بتایا کہ والد ماجد کوئی بیس پچیس روز قبل مجھے لے کر بیٹھے کچھ نصیحتیں فرمائیں اور اپنے انتقال کا اشارہ بھی دے دیا۔ حکیم صاحب اللہ والے تھے حکمت کے ساتھ اللہ اللہ بھی کرتے ایک صحافی دوست نے بتایا کہ حکیم صاحب کا سلسلہئ نسب مغل حکمرانوں سے ملتا ہے اور حکیم صاحب کے پاس شجرہ محفوظ تھا۔اللہ مغفرت فرمائے۔ خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں۔