افغانستان کا آتش فشاں
کسی آتش فشاں کا دہانہ جب آگ اگلنے لگتا ہے تو اس کے سرخ انگارہ شعلے تو دور سے نظر آتے ہیں لیکن جو لاوا اس دہانے سے نکل کر ڈھلوانوں سے لڑھکتا ہوا دامنِ کوہ تک جاتا ہے وہ اول اول تو سرخ رنگ کا ہوتا ہے لیکن بہت جلد بظاہر منجمد اور سفید ہو جاتا ہے لیکن اس کی تپش اور حدتِ آتش زنی کم نہیں ہوتی۔ اس کے راستے میں جو چیز آتی ہے وہ یا تو مکمل طور پر بھڑک کر جل اٹھتی ہے یا نیم سوز ہوکر سلگنے لگتی ہے۔ یہ کیفیت ایک دم جل اٹھنے سے بھی زیادہ خوفناک نتائج کی حامل ہوتی ہے۔
آج افغانستان کا آتش فشاں بھی جل رہا ہے…… اس کے فارسی، دری اور پشتو کے میڈیا چینل اور اخبارات کا مشاہدہ و مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ جوں جوں غیر ملکی ٹروپس وہاں سے نکل رہے ہیں اس آتش فشاں کے اندرونی شعلے دہانے کی طرف لپک رہے ہیں …… خامہ پریس، طلوع اور افغانستان سن (Sun) جیسے چینل اور روزنامے انگریزی، فارسی اور پشتو زبانوں میں جو خبریں دے رہے ہیں وہ نہ صرف افغانستان کے لئے حد درجہ تکلیف دہ ہیں بلکہ پاکستان کے لئے بھی خطرے کا گھڑیال ہیں۔ افغانستان کے کئی صوبوں میں فارسی بولنے والے ہزارہ قبائل پر عرصہ ء حیات تنگ کیا جا رہا ہے اور دوسری طرف افغانستان کی پشتو بولنے والی اکثریت گزشتہ دو عشروں سے ان ہزارہ قبائل کے ظاہرا اور پوشیدہ مظالم کا شکار ہو رہی ہے۔
افغانستان کا میڈیا زیادہ تر فارسی بولنے والے انہی ہزارہ لوگوں کے تصرف میں ہے۔ کابل سے مغرب اور جنوب مغرب میں جائیں تو ہرات کا صوبہ ان کا گڑھ ہے۔ وہاں کے تعلیمی اداروں (سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں) میں طالبات کی اکثریت ہے۔ جس چینل کو سنو وہاں فارسی بولنے والی یہی طالبات آپ کو نظر آئیں اور سنائی دیں گی۔ پشتو بولنے والوں کی اکثریت سنی العقیدہ ہے جبکہ ہزارہ اقلیت اہل تشیع ہے اور اس کی زبان فارسی ہے۔ یہ اقلیت زیادہ لکھی پڑھی تو ہے لیکن اپنی قلیل تعداد کا خوف اسے ہر آن لاحق رہتا ہے۔ حکومتی عمال اور عہدیداروں کی اکثریت بھی فارسی بولنے والوں پر مشتمل ہے۔ اس کا مماثل اگر پاکستان میں ڈھونڈنا ہو تو آپ کو کوئٹہ اور اس کے گردونواح کے علاقوں میں مل جائے گا۔ ہزارہ ٹاؤن کوئٹہ کے ساتھ ماضیء قریب میں جو مسلکی بغض یا عداوت روا رکھی گئی، اس سے ہم سب پاکستانی واقف ہیں۔ کوئٹہ سے مستونگ، قلات، خضدار اور کراچی آنے جانے والی بسوں کے مسافروں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جاتا رہا ہے اور نوشکی اور تفتان کے درمیان 600کلومیٹر کے سفر میں بھی اس اقلیت پر جو مظالم ڈھائے جاتے رہے ہیں وہی کچھ آج کل افغانستان کے ان اضلاع میں ہو رہا ہے جودل سے طالبان کے ساتھ نہیں بلکہ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے ساتھ ہیں۔
تادم تحریر 45فیصد امریکی ٹروپس افغانستان سے نکل چکے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ جولائی کے پہلے عشرے تک آخری امریکی سولجر بھی افغانستان چھوڑ جائے گا۔ ان کے ساتھ سات ہزار ناٹو ٹروپس کا انخلاء بھی تقریباً مکمل ہو جائے گا۔ طالبان بڑی بے تابی اور بے قراری سے اس دن کے منتظر ہیں جب سارے غیر ملکی 20برسوں کے بعد بے نیل مرام اپنے اپنے ’ٹھکانوں‘ پر واپس چلے جائیں گے…… افغان نیشنل آرمی (ANA) اور افغان نیشنل پولیس (ANP) پر جو تکیہ بچی کھچی امریکی اور ناٹو فورسز نے کر رکھا ہے ان کا غبارہ بھی روز بروز پنکچر ہو رہا ہے۔ ہر روز درجنوں اور سینکڑوں افغان سیکیورٹی پرسانل، طالبان سے مل رہے ہیں۔ اپنے ہتھیار اور گولہ بارود طالبان کے حوالے کر رہے ہیں اور ’جان کی امان‘ مانگ رہے ہیں۔ اشرف غنی کی حکومت، طالبان کے دو مطالبے ابھی تک پورے نہیں کر سکی حالانکہ دوحہ (قطر) میں جو معاہدہ ہوا تھا اس کی رو سے طالبان نے آج تک کسی غیر ملکی وردی پوش یا سویلین کنٹریکٹر پر کوئی حملہ نہیں کیا۔
لیکن کابل حکومت نے ان طالبان کو ابھی تک اپنی تحویل میں رکھا ہوا ہے جو گزشتہ دو عشروں سے کسی نہ کسی ’جرم‘ کی پاداش میں انہوں نے پکڑے ہوئے ہیں …… طالبان کا دوسرا مطالبہ ان کا وہ اصرار ہے کہ وہ افغانستان کو ’ری پبلک‘ کے طور پر تسلیم کرنے کو تیار نہیں بلکہ اس کو ایک ’امارتِ اسلامی‘ بنانا چاہتے ہیں۔ اس امارت میں خواتین کو بھی وہ سارے حقوق حاصل ہوں گے جو اسلامی دورِ خلافت میں حاصل تھے۔ شاید ایک وجہ یہ بھی ہو کہ ترکی (استنبول) میں طالبان اور کابل حکومت اور امریکہ کے درمیان جو سہ گانہ ملاقات / کانفرنس منعقد کی جانی تھی ابھی تک نہیں ہوئی۔ طالبان کا مطالبہ ہے کہ وہ اس وقت تک اس کانفرنس میں شریک نہیں ہوں گے جب تک ان کو یہ یقین نہ ہو جائے کہ کابل حکومت ان کے درج بالا اساسی مطالبات تسلیم کر لے گی۔
پاکستان اپنے ہمسائے میں وہ صورتِ حال دیکھنے کا خواہش مند نہیں جو ماضی میں وہ ایک سے زیادہ بار دیکھ چکا ہے۔ وہ افغانستان میں امن کا دور دورہ دیکھنا چاہتا ہے۔ لیکن کیا ایسا ممکن ہے؟ کیا طالبان اشرف غنی کی حکومت کی غلامی تسلیم کر لیں گے؟…… اگر انہوں نے گزشتہ 20برس تک امریکہ اور ناٹو دستوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے اور ان کو واپس جانے پر مجبور کر دیا ہے تو ان کی نظر میں اشرف غنی کی لولی لنگڑی حکومت کیا حیثیت رکھتی ہے؟ امریکہ کب تک اپنی مالی بیساکھیاں ”اشرف غنی اینڈ کو‘ کی بغلوں میں رکھنے کا بوجھ اٹھا سکے گا؟ اور کیا محض مالی بیساکھیوں کے سہارے کابل کی موجودہ انتظامیہ کا وجود برقرار رہ سکے گا؟…… ہمارے خیال میں یہ زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ دو برس کا معاملہ ہے۔
اس میں کیا شک ہے کہ افغانستان کے آگ اگلتے دہانے کا لاوا اور آتشیں راکھ براہِ راست پاکستان پر گرے گی۔ اور اس کا ذمہ دار بھارت بھی ہوگا جو اشرف غنی حکومت کو ہلا شیری دے رہا ہے۔ بظاہر تو شائد ایک دو برس تک یہ ہلہ شیری اور بالواسطہ دہلوی سپورٹ کام آ سکے یا امریکی ڈالر کابل حکومت کو کچھ تسلسل دے سکیں لیکن یہ تسلسل محض عارضی ہو گا۔ ان شاء اللہ اس سال کے اواخر تک پاک۔ افغان سرحد اور پاک۔ ایران سرحد پر جنگلہ بندی کا عمل مکمل ہو جائے گا اور وہ چور اور پورس (Porus) بارڈرز بند ہو جائیں گے جن کا استعمال بلوچستان کو بڑی حد تک آتش زیرِ پا رکھتا ہے۔
آج افغانستان کی گراؤنڈ صورتِ حال یہ ہے کہ طالبان، ملک کے شمال مغربی صوبوں میں تشدد کی کارروائیاں جاری رکھ رہے ہیں۔ دوحہ کانفرنس میں جو انٹرا افغان مذاکرات کے وعدے کئے گئے تھے وہ پورے نہیں کئے جا رہے۔ پاکستان کے آرمی چیف نے مئی 2021ء میں کابل میں جاکر اشرف غنی سے جو ملاقات کی تھی اور انہوں نے اس مسئلہ کے حل کو آگے بڑھانے کا جو وعدہ کیا تھا، وہ جلد ہی اس سے صاف مکر گئے۔ اشرف غنی نے Der Spiegel کو جنرل باجوہ سے ملاقات کے بعد جو انٹرویو دیا اور اس میں پاکستان کے خلاف جو لب و لہجہ اور زبان استعمال کی وہ حد درجہ غیر اخلاقی تھی اور اس کے بعد کابل کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر حمد اللہ محب نے پاکستان کے خلاف جو زہر اگلا وہ اسلام آباد کو اور بھی حیران و پریشان کر گیا!…… اتنے بلند اور بڑے عہدوں پر فائز شخصیات اتنی نیچ اور چھوٹی باتیں بھی کر جاتی ہیں اس کی خبر پاکستان کی وزارتِ خارجہ اور وزارتِ دفاع میں کسی بھی صاحبِ کردار عہدیدار کو نہ تھی!!
پاکستان کے اندرونی سیاسی اشاریئے جو آج کل طرح طرح کی بے تُکی باتوں کی طرف بڑھ رہے ہیں …… اپوزیشن اور حکومت کے درمیان تناؤ اور کشاکش کی جو طنابیں کھینچی جا رہی ہیں …… کووڈ۔19نے ملک کی ہمہ گیر ترقی کی راہ میں جو روڈ بریکرز لگا رکھے ہیں …… آئے روز کے بعض حادثات نے اور روز افزوں مہنگائی نے عوام کا جو ناک میں دم کر رکھا ہے…… اور لوگ ابھی سے اگلے الیکشنوں پر جو امیدیں مرکوز کر رہے ہیں، ان کے ہوتے ہوئے اگر ملک کے ہمسائے میں ایسی صورتِ حال پیدا ہو جائے جو اس اندرونی دھماکہ خیز سچوایشن کو بیرونی دھماکہ خیزی کا شکار بھی کر دے تو ہمیں وطنِ عزیز کے کسی روشن مستقبل کے لئے زیادہ دعائیں مانگنی پڑیں گی۔