گورنمنٹ گریجوایٹ کالج برائے خواتین ساہیوال طالبات کی مثالی تربیت گاہ!
تعلیم انسان کو زمین سے اٹھا کر آسمان تک پہنچا دیتی ہے۔ اگر خاندان خصوصاً خواتین تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوں تو معاشرہ ترقی، نشوونما اور آسانیوں میں کمال حاصل کر لیتا ہے۔ عورت کا تعلیم یافتہ ہونا یقینا قومی سطح پر کامیابی و کامرانی مہیا کرتا ہے۔ گورنمنٹ گریجوایٹ کالج برائے خواتین ساہیوال ایک ایسی ہی مثالی تربیت گاہ ہے جو طالبات کی علمی، ثقافتی، سائنسی، معاشرتی اور فکری پیاس بجھانے کے لئے برسوں سے تگ و دُو جاری رکھے ہوئے ہے۔
ساہیوال ایک مردم خیز علاقہ ہے جہاں کی کئی ایک نادر ہستیوں نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر شہرت حاصل کی ہے۔ گورنمنٹ گریجوایٹ کالج برائے خواتین ساہیوال موجودہ پرنسپل محترمہ پروفیسر ارمغانہ زین کی سرپرستی میں بہترین کارکردگی دکھا رہا ہے۔ انہوں نے 27جولائی 2018ء کو بحیثیت پرنسپل انتظامی ذمہ داریاں سنبھالی تھیں۔ محترمہ پروفیسر نغمانہ صدیق وائس پرنسپل ان کی مددگار اور بے حد متحرک ہیں۔ محنتی اساتذہ کی شبانہ روز کاوشوں سے ہر شعبہ میں طالبات اعلیٰ پوزیشن حاصل کر رہی ہیں۔ کھیل کا میدان ہو ثقافتی، تقریری یا تعلیمی مقابلہ ہو کئی ایک طالبات نے کالج اور ساہیوال کا نام روشن کیا ہے۔ ساہیوال ڈویژن کا یہ واحد تعلیمی ادارہ ہے۔ جہا ں دور دراز سے طالبات تعلیم حاصل کرنے آتی ہیں۔ لیکن ستر سال قبل قائم کئے گئے اس اہم تعلیمی ادارہ کی طرف محکمہ تعلیم پنجاب اور مقامی سول انتظامیہ نے کوئی توجہ نہیں دی جس وجہ سے اسے کئی ایک مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ گزشتہ سال جنوری میں وزیرِ اعلیٰ پنجاب نے ساہیوال کو 18۔ ارب روپے ترقی و نشوونما کے لئے دئیے تھے۔ جس کی وضاحت سابق وزیراعظم پاکستان عمران خان نے ساہیوال میں ایک خصوصی اجلاس میں کی تھی۔ اس میں سے کچھ حصہ تعلیمی اداروں کے لئے بھی مختص کرنا چاہیے۔
طالبا ت کے اس اہم تعلیمی ادارہ کا اجراء 1951ء میں ڈگری کلاسز کے ساتھ کیا گیا تھا۔ کالج کی ابتدا اس عمارت میں ہوئی تھی جہاں ضلع کچہری کے قریب گورنمنٹ کامرس کالج ساہیوال ہے۔ 1963ء میں سرسید روڈ سول لائنز کی موجودہ عمارت میں گورنمنٹ کالج برائے خواتین ساہیوال منتقل ہوگیا ابھی تک وہی عمارت ہے سوائے معمولی اضافہ کے۔ سابقہ پرنسپل محترمہ پروفیسر تسنیم حسن شاہ نے ساہیوال کے مخیر حضرات سے چند اکٹھا کر کے 1971ء میں سائنس بلاک تعمیر کر ایا تھا جس کے لئے چندہ دینے والوں کے ناموں کی تختی اس بلاک میں نسب ہے۔ انٹرمیڈیٹ کی سطح پر سائنس مضامین کی کلاسز 1959ء اور بی ایس سی 1964ء میں متعارف کرائی گئیں۔ ایم اے اردو 1986ء جبکہ بی ایس چار سالہ کے آٹھ پروگرام کی ابتدا 2010ء میں ہوئی جو ابھی تک کامیابی سے جاری ہے۔حال ہی میں ایک سائنس لیبارٹری بنائی گئی ہے طالبات کے پینے کے لئے ٹھنڈے پانی کا کولر کا عوامی ڈائریکٹر کالجز ساہیوال ڈویژن پروفیسر مسعودفریدی نے افتتاح کیا تھا۔
گورنمنٹ گریجوایٹ کالج برائے خواتین ساہیوال میں اس وقت چار ہزار سے زیادہ طالبات علم کی روشنی سے مستفید ہو رہی ہیں۔ لیکن موجودہ عمارت کی تنگ دامنی کی وجہ سے طالبات لیبارٹریز، لائبریری، کرش ہال اور کھلی فضا میں چھوٹی کیاریوں میں بیٹھ کر شدید موسم میں یہ روشنی حاصل کر رہی ہیں۔ جس تعلیمی ادارہ اور خصوصاً طالبات کے کالج میں کمرہ جماعت ہی مکمل طور پر دستیاب نہ ہوں وہاں قیام پاکستان سے قبل کی جھلک نظر آتی ہے۔
اس اہم کالج میں نہ تو تقریبات منعقد کرنے کے لئے کوئی آڈیٹوریم یا بڑا ہال ہے نہ ہی باقاعدہ سٹاف روم، میٹنگ روم اور نہ ہی کوئی جدید کمپیوٹر سائنس لیبارٹریز ہیں مجبوری کے تحت دو کلاس رومز کو ملا کر سٹاف روم بنایا گیا ہے۔ پرانی لیبارٹریز کو ہی ہر بار رنگ و روغن کرا کر استعمال کیا جا رہا ہے۔ حیاتیاتی تعلیم کے لئے کوئی بہتر انتظام نہیں ہے۔
انیس (19) ایکڑ اور چھ کینال کے احاطہ میں قائم گورنمنٹ گریجوایٹ کالج برائے خواتین ساہیوال میں اساتذہ، دیگر ملازمین حتیٰ کہ پرنسپل کے لئے بھی کوئی رہائش گاہ نہیں ہے۔ ہوسٹل وارڈن کے لئے تقریباً ساٹھ سال قبل تعمیر کی گئی رہائش گاہ بھی اب بوسیدہ ہوگئی ہے۔دور دراز سے آنے والی طالبات کے لئے دو قدیم ہوسٹل ہیں لیکن تمام کمروں کی حالت خستہ ہے۔ عمارت کے سامنے موجود لان کی مرمت اور دیکھ بھال کے لئے بھی عملہ اور فنڈز نہیں ہیں۔ گورنمنٹ گریجوایٹ کالج برائے خواتین ساہیوال میں تدریسی فرائض انجام دینے کے لئے -66اساتذہ اور دس جز وقتی اعزازی لیکچرار کام کر رہی ہیں۔ سائنس مضامین کی اساتذہ کی شدید کمی سے تدریسی نظام میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ ایم اے اردو سمیت بی ایس چار سالہ آٹھ پروگرام رائج ہیں لیکن چار ہزار سے زائد طالبات کے اس اہم اور مثالی درس گاہ میں کمرہ جماعت بہت ہی کم تعداد میں ہیں۔ کم از کم تیس کمروں پر مشتمل تدریسی بلاک خصوصی طو ر پرتعمیر کیا جائے۔
کالج لائبریری میں تقریباً ستائیس ہزار مفید مطلب کتب دستیاب ہیں۔ میگزین، اخبارات اور دیگر رسالہ جات ان کے علاوہ ہیں۔ کرش ہال کی سیڑھیاں چڑھ کر اوپر جائیں تو ایک بڑے کمرہ کو لائبریری کی شکل دی گئی ہے۔ موجودہ عمارت میں لائبریری کے لئے کوئی باقاعدہ کمرے نہیں ہیں۔ نہ ہی اس میں کوئی اضافہ کیا گیا ہے اس لئے وقت کی اہم ضرورت ہے کہ نیا تدریسی بلاک تعمیر کیا جائے تو ساتھ ایک جدید لائبریری بھی بنائی جائے جسے علامہ اقبال کے نام سے منسوب کیا جائے۔
ڈائریکٹر تعلیمات ساہیوال ڈویژین پروفیسر مسعود فریدی دیگر کالجوں کی طرح یہاں کا دورہ بھی کرتے رہتے ہیں انہوں نے بتایا کہ ایک جدید سائنس لیبارٹری تعمیر کی ہے۔ مزید بہتری کی کوشش کر رہے ہیں لیکن فنڈز کی کمی کے باعث وہ بھی ایک حد تک ہی مدد کر سکتے ہیں۔ڈائریکٹر یٹ کا لجز میں بھی اوپر سے آنے والے احکامات کی بھر مار ہوتی ہے جس وجہ سے وہ آزادی سے کام نہیں کر سکتے ہرروز بے شمار خطوط کا جواب دینے میں گزر جاتا ہے۔
کالج میں متعدد مضامین کی و دیگر انجمنیں و تنظیمیں فعال ہیں۔ اردو لیٹریری سوسائٹی انچارج ڈاکٹر رانی صابر علی، انگلش لیٹریری سوسائٹی انچارج مسز پروفیسر طلعت، نظریہ پاکستان سوسائٹی انچارج ڈاکٹر ذکیہ بانو، ہسٹری سوسائٹی انچارج سمیرا فاروق، فوٹوگرافی سوسائٹی انچارج مسز فرحت، اکنامکس سوسائٹی انچارج پروفیسر نغمانہ صدیق اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر طالبات کی قابلیتوں، اہلیتوں اور صلاحیتوں کو عملی طور پر اجاگر کرنے میں ہمہ وقت کوشاں رہتی ہیں۔
گزشتہ ماہ تین شعبہ جات کی آٹھ طالبات پنجاب پبلک سروس کمیشن لاہور کے امتحانات اور انٹرویو میں کامیاب ہو کر لیکچرار منتخب ہوئی ہیں یہ یقینا اساتذہ اور خصوصاً پرنسپل محترمہ ارمغانہ زین کی محنتوں کا ثمر ہے۔ شعبہ انگریزی میں اقرا، سدرہ، اور سمیرا شعبہ علم التعلیم میں حنا خاں اور شمائلہ ناز جبکہ شعبہ اسلامیات میں عفیفہ، فائزہ اور مقدس لیکچرار منتخب ہوئی ہیں۔ طالبات کی عملی اور فکری صلاحیتوں میں نکھار پیدا کر نے کے لئے میگزین بھی شائع کیا جاتا ہے جس کا پہلے نام ”صبا“ اور اب ”شہر گل“ ہے۔ باقاعدہ ایڈیٹوریل بورڈ طالبات کی تخلیقات شائع کرنے کے لئے محنت کرتاہے اور ان کی فکری میدان میں بہترین تربیت ہوتی ہے انہی میں سے مستقبل میں کوئی ادیبہ، شاعرہ یا لکھاری بنیں گی۔ فنڈز کی یہاں بھی کمی ہے جس وجہ سے میگزین با قاعدگی سے شا ئع نہیں کیا جا سکتا۔
یہاں سے فارغ التحصیل طالبات مزید اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے قومی اور بین الاقوامی اداروں میں بہترین انداز میں خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔ کینیڈا، امریکہ، برطانیہ، کویت، سعودیہ، اور دیگر متعدد ممالک میں مختلف شعبوں میں یہاں کی طالبات کامیابی سے فعا ل زندگی گزار رہی ہیں۔
٭٭٭
وہ اپنی اس مادرِ علمی کو نہیں بھولیں اس لئے سابق طالبات پر مشتمل ایلومینائی ایسوسی ایشن قائم کی جائے۔
گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج ساہیوال اپنی شاندار تاریخی روایت کا حامل تعلیمی مثالی ادارہ ہے۔ یہاں مزید جدید علوم کی تعلیم کا اہتمام کرناچاہیے۔ کیونکہ یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی۔طلبہ کے تعلیمی اداروں کی طرح طا لبات کے تعلیمی اداروں خصوصاََ کالجز کی طرف بہترین توجہ دینی چاہیے کہ قوم بننے کے لئے انہی کی خدمات مددگار ثابت ہوں گی۔