آج بجٹ، نئے ٹیکس، بوجھ عوام پر!

  آج بجٹ، نئے ٹیکس، بوجھ عوام پر!
  آج بجٹ، نئے ٹیکس، بوجھ عوام پر!

  


آج (جمعہ) وزیر خزانہ اسحاق ڈار نئے مالی سال کا میزانیہ پیش کریں گے۔ اس کے بارے میں چیدہ چیدہ اعداد و شمار سامنے آ چکے ہوئے ہیں اس کے باوجود نگاہیں ایوان میں ہونے والی تقریر پر ہوں گی کہ امیدوبیم کی حالت جاری ہے یہ امر تو یقینی ہے کہ یہ بجٹ خسارے کا ہے اور اس میں ٹیکسوں میں اضافہ ناگزیر ہے۔ کہا تو یہ جا رہا ہے کہ سامان تعیش پر ٹیکس بڑھا دیا جائے گا۔ لیکن صورت حال اس سے بھی الگ ہے کہ یہ تو سیاسی بیانیہ بھی ہے اگرچہ اس سامان تعیش میں خوراک کی ایسی اشیاء بھی شامل کر لی گئی ہیں جو ناگزیر ہیں اور بچوں کی نشوونما کے لئے علاج کے طور پر دی جاتی ہیں، اس سے مراد بچوں کے لئے دودھ ہے جو ڈاکٹر حضرات تجویز کرتے ہیں تو ماں باپ کو لینا پڑتا ہے اور ٹیکس میں اضافے کے بعد بھی یہ مجبوری ہو گی اور یوں بوجھ میں اضافہ ہوگا حکومت یہ سب معیشت کی بحالی کے نام پر کر رہی ہے۔ اگرچہ یہ بجٹ آئی ایم ایف سے سٹاف لیول معاہدہ ہوئے بغیر پیش کیا جا رہا ہے تاہم اس (فنڈ) کی طرف سے عائد کی گئی شرائط کو مد نظر رکھا گیا ہے۔ خود وزیر اعظم نے کہہ دیا کہ آئی ایم ایف کی تمام شرائط مان لی گئی ہیں، بہر حال آج جب فنانس بل کی تفصیلات سامنے آئیں گی تو سب پتہ چل جائے گا سرکاری ملازمین اور پنشنر بھی منتظر ہیں کہ ان کو کیا ریلیف دی جاتی ہے۔ ان میں ای او بی آئی والے بزرگ بھی ہیں جن کی پنشن کا سرکاری خزانے سے کوئی تعلق نہیں۔ صرف منظوری پھنسا کر رکھی ہوئی ہے۔ اگرچہ اضافہ سنا جا رہا ہے لیکن محترم اسحاق  ڈار کے رویے سے مایوسی بھی ہے کہ وہ ای او بی آئی کا سوال بھی نہیں سنتے بہر حال آج یہ بھی علم ہو جائے گا کہ قطرے کے گہر ہونے تک کیا بیتے گی اور عوام کو کون سے نئے مسائل کا سامنا ہوگا۔


اس سلسلے میں یہ گزارش بے جا نہیں ہو گی کہ تا حال حکومت کو بجٹ کے لئے دی جانے والی تجاویز بھی خواہشات پر مبنی ہیں۔ ہمارے تاجر بھائیوں نے نہ صرف نئے ٹیکس کی مخالفت کی بلکہ مزید مراعات مانگی ہیں۔ یہی حالات صنعت کار حضرات کے ہیں وہ بھی پلے سے کچھ دینے کی بجائے مراعات ہی کا تقاضا کر رہے ہیں اور حوصلہ افزائی کے لئے ہمارے سیاسی قائدین موجود ہیں ذرا غور کریں کہ ”مفاہمت کے جادوگر آصف علی زرداری کیا کہتے ہیں، عوام کے دل کو جلانے والی بات کی کہ پہلے عوام کو امیر بناؤ اور پھر ٹیکس لگاؤ ان کا کہا سر آنکھوں پر مگر ان کی اپنی جماعت اتحادی حکومت کا حصہ ہے اور یہ بجٹ بھی اسی اتحاد کی طرف سے پیش کیا جا رہا ہے۔ ویسے سابق صدر مملکت نے اس امر کا بھی کریڈٹ لیا ہے کہ گوادر کسی کو نظر نہیں آیا یہ وہ ہیں جنہوں نے چین کے ساتھ معاہدہ کیا تھا انہوں نے یہ بڑا دعویٰ بھی کیا کہ وہ (شرط اقتدار) سرمایہ کاری حاصل کر سکتے اور زر مبادلہ کے ذخائر ایک ہزار ارب ڈالر تک پہنچا سکتے ہیں۔ ان کے دعوے سے تو یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ حکومت کا حصہ ہوتے ہوئے بھی اپنا جماعتی منشور ہی پیش نظر رکھ رہے ہیں بہر حال وہ لاہور میں ہوتے ہوئے کئی پنچھی پنجرے میں بند کر چکے ہیں اور اب انہوں نے ملتان بیٹھ کر بھی یہی کچھ کرنا ہے ہمارے سیاسی حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ جہانگیر ترین اور علیم خان کا فسوں کام کر رہا ہے اور تحریک انصاف کے وہ تمام اہم راہنما جنہوں نے 9 مئی کے بعد جماعت چھوڑ دی تھی۔ اب اس چھتری تلے آ گئے۔ فواد حسین چودھری، علی زیدی اور عمران اسماعیل کی آمد اتنی حوصلہ افزا ہوئی ہے کہ نئی جماعت کا نام بھی بتا دیا گیا اور سب اندازے غلط ثابت کر دیئے جماعت کا نام استحکام پاکستان پارٹی تجویز کیا گیا اور اب رجسٹریشن کے لئے کارروائی ہو گی۔ جہانگیر ترین کے لئے طمانیت کہ ہاشم ڈوگر کا ڈیموکریٹ گروپ ختم کر دیا گیا کہ اکثر حضرات اسے چھوڑ کر استحکام پاکستان کے لئے کمربستہ ہو گئے۔میاں محمد نوازشریف اور جہانگیر ترین تا حال سیاسی عمل کے لئے نا اہل ہیں نئے قانون کے تحت ان کو اپیل کا حق مل گیا لیکن دونوں کی طرف سے تا حال ایسی کوشش نہیں کی گئی۔


اس دوران تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم کا مستقبل بھی زیر بحث ہے اور ہر کوئی فارمیشن کمانڈر اجلاس کی بات کر رہا ہے جس میں قطعی اور متفقہ طور پر جلاؤ گھیراؤ کرنے والوں کا محاسبہ کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے اور اس کی تشہیر بھی کی گئی ہے اس اجلاس اور اعلامیہ کے باعث زمان پارک میں اچھا تاثر نہیں لیا گیا گزشتہ روز رہائی پانے والے مخدوم شاہ محمود قریشی انپے اعلان کے مطابق زمان پارک گئے اور کافی وقت اپنے چیئرمین کے ساتھ گزارا، عمران خان نے پہلے ہی سے یہ اعلان کر دیا ہوا تھا کہ مخدوم ان کے جانشین ہوں گے لیکن ہمارے میڈیا والے بھائیوں نے گزشتہ روز کی ملاقات کا دوسرا ہی تاثر لیا ہے کہ یہ ملاقات کچھ خوشگوار نہیں رہی غالباً کپتان دباؤ میں ہیں اور اس بارے میں ان کو منفی تاثر دے دیا گیا شاہ محمود زمان پارک جاتے ہشاش بشاش اور واپسی پر دلگیر تھے انہوں نے وعدے کے مطابق میڈیا سے بات بھی نہیں کی۔بتانے والے کہہ رہے ہیں کہ چودھری پرویز الٰہی زیادہ قابل اعتبار ٹھہرے ہیں یہ تو دل ناتواں کے مقابلے والی بات ہے ہم تو منتظر ہیں کہ مخدوم صاحب اپنے وعدے کے مطابق میڈیا سے کہا کہتے ہیں بہر حال وہ ثابت قدم رہ کر جماعت کی قیادت کے لئے ریلیف کی بات کر رہے ہیں دیکھیں آئندہ ہوتا کیا ہے؟


پاکستان ہی شاید دنیا کا واحد ملک ہے جو معاشی گرداب میں پھنسا ہوا ہے اور حالات کی روشنی میں تو ذمہ داری لینے سے  توبہ کرنا چاہئے لیکن ہمارے سیاسی اکابرین اقتدار کے لئے مرے جاتے ہیں اور اس کے لئے جوڑ توڑ جاری ہیں۔ ویسے جو حضرات جہانگیر ترین کے ساتھ گئے یا جنہوں نے زرداری کیمپ میں پناہ لی وہ پاک صاف ہو چکے اور ان کے گناہ دھل گئے ہیں اگرچہ عالمی سطح پر یہ منظر صاف نظر آتا ہے کہ امریکہ پاکستان کو بھی سوویت یونین کی طرح معاشی طور پر غیر مستحکم رکھنے میں ہی دلچسپی لے رہا ہے۔ ایسے میں چاہئے تو یہ کہ جو کام اب تک نہیں کیا وہ اب کر لیں کہ کسی کے ختم کرنے سے کوئی جماعت ختم نہیں ہوتی اس لئے اب بھی ڈائیلاگ کی گنجائش موجود بلکہ پہلے سے بہتر ہے اور ایسا ہونا چاہئے۔شاہ محمود شاید یہی چاہتے ہیں لیکن پذیرائی نہ ہوئی، کپتان کو حماداظہر زیادہ پسند آ گئے ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -