عاق نامہ

ریاست نے عمران خان کے ہاتھ میں عاق نامہ تھمادیا ہے،اشتہار تو خیر پہلے ہی جاری ہو چکا تھا، اب انہیں اپنے حق کے لئے لڑائی لڑنا پڑے گی اور اگر زیادہ چوں چراں کی تو الطاف حسین کی طرح پاکستان میں ا ن کا نام لینے پر بھی پابندی لگ سکتی ہے کیونکہ ان کی جماعت کی خطا یہ ہے کہ انہوں نے ریاست سے بغاوت کے جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ اب ریاست جوابی کاروائی پر اتر آئی ہے، اب ریاست کسی سے بھی ان کے لین دین کی ذمہ دار نہ ہوگی۔
ریاست اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھی ہے اور فیصلہ ہوا ہے کہ 9مئی کا یوم سیاہ برپا کرنے والوں کے پیچھے کارفرما ماسٹر مائنڈ اور سہولت کاروں کے خلاف گھیرا تنگ کیا جائے گا۔ ان کالموں میں تواتر سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ عمران خان کے نام پر ان کے پیچھے کارفرما قوتوں نے فوج، عدلیہ، میڈیا اور عوام کو تقسیم کیا اور تحریک انصاف کے علاوہ عمران خان کی مخالفت کرنے والوں کا ٹھٹھہ لگایا گیا، کھلے بندوں سیاسی مخالفین کے خلاف اختیار اور قانون کا ناجائز استعمال کیاگیا، عمران خان کے خلاف بات کرنے والوں کو عدلیہ میں کھڈے لائن لگادیا گیا اور میڈیا سے تو بالکل ہی فارغ کردیا گیا، گویا کہ ریاست کے اندر ایک ریاست قائم کر لی گئی اور عمران خان کا نام سکہ رائج الوقت ٹھہرا۔ ان کو ٹھیک نہ جاننے والوں کو بہت صبر کرنا پڑا، بہت کچھ برداشت کرنا پڑا اور بالآخر پانسہ پلٹ گیا اور ماسٹر مائنڈوں اور سہولت کاروں کی اپنی چال ہی ان پر الٹی پڑگئی۔
بظاہر لگتا تھا کہ جس روز چیف جسٹس نے عمران خان کو گڈ ٹو سی یو اور وش یو گڈ لگ کہا اور گھڑی کی سوئیاں دوبارہ گھما کر اسلام آباد ہائیکورٹ کے اس مقام پر لے گئے جہاں سے عمران خان کی گرفتاری ہوئی تھی تو ایک لمحے کو تو یوں لگا کہ سپریم کورٹ نے عمران خان کی گرفتاری پر ان کے کارکنوں کے ناقابل یقین ردعمل کو جواز بخش دیا ہے مگر بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی کے بقول آئی ایس پی آر کی جانب سے حالیہ پریس ریلیز نے سب واضح کردیا کہ ریاست کسی طور بھی شہداء اور ان کے خاندانوں کی بے حرمتی نہیں ہونے دے گی اور پاکستان کی علاقائی سالمیت اور خودمختاری کی حفاظت کرتی رہے گی۔ گویا کہ اندرونی عناصر کے ساتھ ساتھ بیرونی عناصر کو بھی واضح پیغام دے دیا گیا ہے۔
لمحہ بھر کو اگر عمرا ن خان فرض کرلیں عوام ان کے ساتھ نہیں ہیں، ان کی سیاسی جدوجہدجعلی تھی، ریاست انہیں سبق سکھا کر رہے گی، ان کا سلیکٹڈ رول ختم ہوگیا ہے، اب وہ مہمان اداکار نہیں رہے ہیں، جنوبی پنجاب کے الیکٹ ایبلز کبھی ان کے تھے ہی نہیں، وہ سنٹرل پنجاب میں نواز شریف کا زور نہیں توڑ سکے، کراچی سے ان کی پارٹی نے 14نشستیں جیتی ہی نہیں تھیں، جی ڈی اے ان کے ساتھ نہیں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تھی، پرویز خٹک تھے ہی پیپلز پارٹی کے، وہ عوام میں مقبول تو تھے مگر ناقابل قبول ٹھہرے، پاکستان کے نوجوان نہیں بلکہ نوجوانوں کے نام پر محض ایک ٹولہ ان کے ہمرکاب تھا، اصل نوجوان تو انہیں گولی لگنے پر بھی باہر نہیں نکلے تھے، خدیجہ شاہ اور دیگر ایلیٹ خواتین ان کے گلیمر کی گرویدہ تھیں، ڈاکٹر یاسمین راشدنواز شریف کی نفرت میں ان کے ساتھ تھیں، میڈیامیں لوگ اپنے اپنے ایجنڈے پر ان کے ساتھ تھے اور انہیں ووٹ بچوں اورگھریلو خواتین کے اصرار پر پڑاتو انہیں یہ نوشتہ دیوار پڑھنے میں مشکل نہیں ہونی چاہئے کہ ان کا کھیل ختم ہو چکا، فوجی عدالتوں سے انہیں، ان کے سہولت کاروں اور کارکنوں کو سزائیں ملنے کا وقت آگیا، اب امریکہ سے اٹھنے والی کوئی آواز ان کے حق میں کارگر ثابت نہیں ہوگی، چین اور سعودی عرب ان کے معاملے پر اسی طرح دم سادھے رہیں گے اور انہیں اپنے کئے کی سزا بھگتنی پڑے گی۔
ریاست کا تصور بیان کرنے والے بیان کرتے ہیں کہ ریاست کا وجود کسی ایک قوت نافذہ پر منحصر ہوتا ہے۔ وہ قوت نافذہ کامل اختیار کی حامل ہوتی ہے اور اس کا کہا اٹل مانا جاتا ہے۔ اگرایسا نہ ہو تو پاکستان میں سپریم کورٹ بھی اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کے لئے آخری حل کے طور پر فوج کو طلب نہ کرے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت عمران خان کے خلاف کاروائی کی بات پاکستان کی اصل قوت نافذہ کی جانب سے کی جا رہی ہے اور یہ واضح کردیاگیا ہے کہ مختلف اداروں میں طرح طرح کے روپ دھارے ان کے ماسٹر مائنڈوں اور سہولت کاروں کی سرکوبی بھی کی جائے گی۔ پاکستان تحریک انصاف کو بحیثیت سیاسی جماعت کے تو پہلے ہی ختم کردیا گیا ہے اور جہانگیر ترین کے ساتھ ساتھ آصف زرداری مال غنیمت کی لوٹ مار میں لگے ہوئے ہیں، اب عمران خان کو بطور سیاسی لیڈر بھی غلام مصطفےٰ کھر بنانے کا عمل شروع ہوگیا ہے۔
اب بجائے اس کے عمران خان بونگیاں مارنے میں مگن رہیں اورہوا میں تیر چلاتے رہیں، انہیں چاہئے کہ اپنے اور اپنی پارٹی کے سیاسی وجود کو قائم رکھنے کا سامان کریں۔ سیاست میں اختیار عود آیا کرتاہے مگراس کے لئے جس حوصلے، برداشت اور صبر کا مظاہرہ کرناپڑتا ہے وہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی، حالات حاضرہ کے قرائن بتاتے ہیں کہ اگلے دو ماہ میں انتخابات کا انعقادغیر یقینی کا شکار ہے، اگر شہباز شریف کو مزید ایک ڈیڑھ سال کام کرنے کا موقع مل گیا تو پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو بھی تب تک سفارت کاری کی آگ میں پک کر کندن بن جائیں گے اور ان کے پیچھے پیچھے مریم نواز باری لینے کے لئے تیار کھڑی ہوں گی، عمران خان کے سر پر اقتدار کا ہما نہیں بیٹھنے کا۔