پرانے چہرے نیا کھیل

سیاسی جماعتوں کے نام ایسے رکھے جاتے ہیں کہ جیسا دیس ویسا بھیس والی بات ہوتی ہے۔ مثلاً اب پاکستان استحکام پارٹی بنا دی گئی ہے۔ اس سے پاکستان میں سیاسی استحکام آتا ہے یا نہیں، اس کا فیصلہ تو بعد میں ہوگا تاہم نام رکھتے ہوئے نظریہ ضرورت کے تحت استحکام کا لفظ ڈال دیا گیا ہے، استحکام پاکستان کی اشد ضرورت ہے، آج سے نہیں عرصہ دراز سے، بالکل اسی طرح جیسے انصاف پاکستان کی ضرورت ہے، اس کے لئے تحریک انصاف معرضِ وجود میں آئی تھی اور عمران خان کہتے ہیں کہ انہوں نے 25 سال اس انصاف کے لئے کوششیں کی ہیں۔ آج وہ اس سفر میں کہاں تک پہنچے ہیں اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ لمحہ موجود میں وہ خود انصاف کے لئے عدالتوں میں پھر رہے ہیں، ابھی نجانے انہیں اور کتنے مقدمات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پیپلزپارٹی کا نام رکھتے ہوئے بھی ذوالفقار علی بھٹو کے ذہن میں یہی رہا ہوگا کہ کوئی جماعت عوام کے لئے بنائی جائے۔ یہ عوام کی جماعت بنی یا نہیں اس بارے میں متضاد آراء ہیں تاہم یہ حقیقت ہے کہ اس جماعت نے بھی وڈیروں، جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور سرداروں کی سیاست کی۔ کرپشن کے سب سے زیادہ الزامات بھی پہلے پہل اسی جماعت پر لگے۔ مسلم لیگ (ن) ایک واحد جماعت ہے جس نے تاریخی تناظر میں فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ پاکستان کی خالق جماعت سے اپنا تعلق جوڑا لیکن اس کی سیاست بھی مسلم لیگ کے تاریخی کردار جیسی نہیں بن سکی۔ اس لئے کوئی عجب نہیں کہ استحکام پارٹی بھی ایک ایسا ہی ڈرامہ ثابت ہو جیسا تاریخ میں بار بار ہوتا رہا ہے۔ ایسی پلانٹڈ جماعتوں سے استحکام آتا ہے یا رہا سہا استحکام بھی ختم ہو جاتا ہے، یہ ایک بہت اہم سوال ہے اور پاکستان میں ایک ہی طرح کے ڈرامے بار بار دہرانے کے باوجود اس کا جواب نہیں مل سکا عوام دیکھ رہے ہیں کہ ایک ہی سکرپٹ بار بار دہرایا جاتا ہے، یہ سمجھا جاتا ہے کہ ایسے اقدامات سے عوام کو بے وقوف بنایا جا سکتا ہے، عوام خاموش رہتے ہیں مگر ان کی اس خاموشی کو یہ نہ سمجھا جائے کہ انہیں ایسے ڈراموں کی سمجھ نہیں آتی۔
ایک سادہ سا سوال یہ ہے کہ وہ لوگ جو تحریک انصاف چھوڑ گئے ہیں اور جوق در جوق جہانگیر خان ترین کی جماعت میں شامل ہو رہے ہیں کیا ملک میں استحکام لا سکتے ہیں؟ میرے رائے میں تو یہی لوگ ہیں جو پاکستان میں سیاسی استحکام نہیں آنے دیتے۔ ابھی چند روز پہلے ان میں سے اکثر پریس کانفرسیں کر کے سیاست چھوڑنے کا اعلان کر رہے تھے۔ اب کس منہ سے سیاست کر رہے ہیں۔ کیا یہ چابی والے کھلونے ہیں جنہیں جس قسم کی چابی دی جاتی ہے یہ اسی قسم کی حرکتیں کرنے لگتے ہیں پکا یہی لوگ پاکستانی عوام کا مقدر رہ گئے ہیں؟ ایک جماعت پر برا وقت آئے تو اس سے نکلیں اور کسی دوسری نئی جماعت میں شامل ہو جائیں۔ یعنی ان کی ہر وقت پانچوں گھی میں رہیں اور یہ عوام کے نام پر سیاست سیاست کھلتے رہیں کیا ایسے لوگوں سے کسی نظریئے کسی تبدیلی کی توقع کی جا سکتی ہے؟ یہ تو ایسا ہی ہے کہ گوبھی کا پھول اگا کے گلاب کی توقع رکھی جائے۔ یہ سیاسی تماشے پاکستان میں 75 برسوں سے ہو رہے ہیں عوام کی اجتماعی ذہانت اور سیاسی شعور کا مذاق اڑایا جاتا ہے، کیا اس ملک میں دو چار سو لوگ پچیس کروڑ عوام کی تقدیر کا فیصلہ کرتے ہیں کیا یہی چہرے ہیں جو سیاست کے ماتھے پر عرصہ دراز سے چپکے ہوئے ہیں اور دوسروں کو راستہ نہیں دے رہے، جو لوگ جہانگیر ترین کی جماعت میں شامل ہو رہے ہیں وہ 9 مئی سے پہلے کیسی کیسی بڑھکیں نہیں مارتے تھے، کیسے کیسے نعرے نہیں لگاتے تھے۔ حقیقی آزادی کے لئے جان لڑانے اور کٹ مرنے کی باتیں کرتے ان کی زبان خشک نہیں ہوتی تھی، عمران خان کو پاکستان کا نجات دہندہ قرار دیتے تھے اور ان کے بغیر پاکستان میں سیاست کا تصور بھی ان کے نزدیک گناہ تھا۔ کئی ایک نے تو تحریک انصاف اور سیاست چھوڑنے کے لئے کی گئی پریس کانفرنس میں مگر مچھ کے آنسو بھی بہائے لیکن کل وہی جہانگیر ترین خان کی جماعت میں شامل ہوتے ہوئے قہقہے لگا رہے تھے۔ یہ قہقہے اصل میں عوام کی بے وقوفی کا مذاق اُڑانے کے لئے تھے کہ دیکھو ہم کیسے اڑان بھرتے ہیں بے وفائی کرتے ہیں، ہم ڈھیٹ بھی ہیں اور سیاسی مسخرے بھی کہ جو اسٹیج پر کوئی نیا کردار ادا کرنے لئے پہنچ جاتے ہیں۔
پاکستانی سیاست ایسے گدلے پانی کی مانند ہو چکی ہے، جس میں شفافیت دور دور تک نظر نہیں آتی۔
سب کچھ کسی غیبی اشارے پر ہوتا ہے۔ راتوں رات نئی جماعتیں بھی بن جاتی ہیں اور ان میں فصلی بٹیرے بھی اڑان بھر کے پہنچ جاتے ہیں یہ دائرے کا سفر نجانے کب تک چلتا رہے گا، سوال یہ ہے کہ پاکستان کیا ایسے تجربوں کی لیبارٹری ہے۔ ہر چار پانچ سال بعد کولہو کے بیل کی طرح ہم وہیں آکھڑے ہوتے ہیں جہاں سے چلے ہوتے ہیں۔ آج عمران خان کا قصہ ختم کرنے کے لئے سارے جتن ہو رہے ہیں، جبکہ صرف پانچ سال پہلے انہیں سیاست میں بڑا مقام دلانے کے لئے جتن کئے جا رہے تھے۔ یہی جہانگیر ترین اور علیم خان تحریک انصاف کے بندے اکھٹے کر رہے تھے۔ چہرے وہی ہیں، جو آج اپنا قبلہ تبدیل کر رہے ہیں اور ہدف بھی یہی تھا جو آج ہے یعنی کوئی سیاسی راہ نکالنا پہلے سے موجود سیاسی جماعتوں میں ایک نئی جماعت کھڑی کرنا، اور پھر عوام سے کہنا کہ ہم نے آپ کے لئے نجات دہندہ کا بندوبست کر دیا ہے اب حالات بدلنے والے ہیں، سب تیار ہو جائیں جو لوگ ہوا کا ایک تھپڑا برداشت نہ کر سکتے ہوں، جن کے پریس کانفرنس کرتے ہوئے نا معلوم وجوہات کی بنا پر آنسو نکل جاتے ہوں۔ جو سیاست میں نام نہاد بہادری کا نام دیتے ہوں، کیا وہ اس ملک میں کوئی تبدیلی لا سکتے ہیں؟ یہ شخصیات ہیں بس شخصیات ان کے اندر ایک لالچ ہے، اقتدار کی ہوس ہے، یہ عوام کے نام پر اپنے مفادات کی ہنڈیا چڑھاتے ہیں۔ دو چار سال مفادات اٹھاتے ہیں جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو سب سے پہلے چھلانگ لگا دیتے ہیں۔ مظلومیت کا رونا روتے ہیں، ٹسوے بہاتے ہیں، اپنے ماضی پر ندامت کا چھڑکاؤ کرتے ہیں اور پھر نیا لبادہ اوڑھ کر نئی واردات کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ یہ کھیل عوام بار بار دیکھ چکے ہیں، پرانے کھلاڑی پھر نیا جال لا رہے ہیں نئے دعوؤں کے ساتھ کیا یہی چند چہرے، چند الیکٹیبلز اور چند گھسے پٹے سیاستدان عوام کا مقدر ہیں کیا دوسرے جمہوری ملکوں میں بھی ایسا ہوتا ہے کیا ایسے وفاداریاں بدلنے والے چہروں کو وہاں بھی لوگ اسی طرح برداشت کرتے ہیں جیسے ہمارے لائی لگ عوام برداشت کر لیتے ہیں؟