پاکستان آرڈننس فیکٹریز کا قیام   (1)

 پاکستان آرڈننس فیکٹریز کا قیام   (1)
 پاکستان آرڈننس فیکٹریز کا قیام   (1)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 جب ہم اس نقطہء نظر سے پاکستان کے 75 سالہ ماضی کو دیکھتے ہیں کہ اس ملک کی ابتداء کیا تھی اور آج ہم کس مقام پر کھڑے ہیں تو دو جیوملٹری حقیقتیں اظہر من الشمس نظر آتی ہیں …… ایک یہ پاکستان اپنی تخلیق کے تصور سے قیامِ پاکستان تک اور پھر قیام پاکستان سے لے کر آج تک لاتعداد بحرانوں کا شکار رہا ہے۔ کسی نے سچ کہا تھا کہ پاکستان دراصل ”بحرانستان“ تھا، ہے اور رہے گا…… دوسری حقیقت یہ ہے کہ نعوذ باللہ پاکستان کو کوئی بھی بیرونی طاقت مٹا نہیں سکتی۔ اگر اس کو کوئی خطرہ ہے تو وہ اس کے اندر سے ہے، باہر سے نہیں۔ 1971ء کا سانحہ ہمارے اندر کا سانحہ تھا۔ ہم جب 1971ء کی پاک بھارت جنگ کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بھول جاتے ہیں کہ پاکستان یہ جنگ کبھی جیت نہیں سکتا تھا کیونکہ یہ پاکستان کے اندر کی جنگ تھی۔ مکتی باہنی کا وجود اور اس کی تشکیل باہر سے نہیں، اندر سے ہوئی تھی۔ باہر سے اس کو سپورٹ ضرور ملی لیکن اس کا مرکزہ (Nucleus) اس کے اندر کے پاکستانی لوگ تھے۔
1971ء کے مشرقی پاکستان کے چاروں طرف بھارت تھا۔ پاکستان کی عسکری قوت کا 95% مغربی پاکستان میں تھا، مشرقی پاکستان میں ہماری کوئی نیوی نہیں تھی، ائر فورس نہیں تھی، آرمر نہیں تھا اور آرٹلری نہیں تھی۔ ایسے میں اگر خود مشرقی پاکستان کے مسلمان بھی ہمارے خلاف ہو گئے تھے توبھارت کی جھولی میں یہ پکا پکایا آم توگرنے کے لئے تیار تھا۔ہمارے چار ”خالی خولی“ ڈویژن، بھارت کی چار ”بھری بھرائی“ کوروں کا مقابلہ کہاں کر سکتے تھے؟


اس شکست کے بعد پاکستان کا جو حصہ بچ گیا تھا اس کے لیڈروں کی یہ سوچ کہ پاکستان کو جوہری بم بنانا چاہیے،ایک دیوانے کا خواب ہی تو تھی۔ اس خواب کو دیکھا ذوالفقار علی بھٹو نے ضرور تھا  لیکن اس کو تعبیر افواجِ پاکستان کے ہاتھوں ملی۔ ہاں وہی افواج جس کو حال ہی میں انڈیا نے شکست سے دوچار اور پاکستان کو دولخت کر دیا تھا۔ اگر جوہری خواب ایک سیاسی لیڈر نے دیکھاتو اس کی تکمیل ایک عسکری قیادت نے کی۔ جس عسکری قیادت کو انڈیا نے مشرقی پاکستان میں شکست دی تھی اس عسکری قیادت نے پاکستان کو جوہری طاقت بنانے کی طرف لگایا۔ ڈاکٹر قدیر خان کے پاس جوہری بم کا بلیو پرنٹ ضرور تھا۔ لیکن کاغذ کے یہ چند پرزے کس طرح جوہری بم میں ڈھل گئے اس کی تفصیل عام نہیں کی جا سکتی۔ البتہ ڈنکے کی چوٹ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس بلیو پرنٹ کو تجسیمی ڈھانچے میں ڈھال کر جس قوت نے ایٹمی دھماکے کئے وہ ”پاک فوج“ تھی…… ضیاء الحق اور غلام اسحاق خان کے نام تاابد پاکستان کی سلامتی کے ضامن رہیں گے۔ باقی لوگ ڈینگیں مارتے رہیں، ان کو کون روک سکتا ہے؟


16دسمبر 1971ء کی شکست کا بدلہ 28مئی 1998ء کو لیا گیا۔ علامہ اقبال نے پاکستان کا خواب ضرور دیکھا تھا لیکن اس خواب کو حقیقت بنانے کے لئے جس عسکری قوت کی ضرورت تھی وہ انگریز کے زیرِ کمانڈ تھی۔ انگریز سے یہ قوت چھین کر برصغیر کی آبادی کو دو حصوں میں تقسیم کر دینا، برصغیر کی سرزمین کو دو حصوں میں بانٹ دینا اور برصغیر کی واحد برٹش انڈین آرمی کو دو حصوں میں الگ الگ کر دینا ایک سیاسی معجزہ تھا۔ اس موضوع پر پاکستان کے دانشوروں نے کوئی زیادہ دھیان نہیں دیا۔ ہم صرف ”دو قومی نظریئے“ کے پیچھے پڑے رہے اور آج تک پڑے ہوئے ہیں، ”دوفوجی نظریئے“ کی طرف کسی کا دھیان نہیں جاتا۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ اس موضوع پر بھی بحث و مباحثے کا ڈول ڈالا جائے۔ چلو 75برس بعد ہی سہی، ہمارے قبلے کی سمت تو سیدھی ہو جائے گی۔امیر خسرو نے اس شعر میں جس ”کج کلاہ“ کا ذکر کیا تھا۔ وہ آج کی پاکستانی قوم کا ”عسکری قبلہ“ کہا جانا چاہیے:
ہر قوم راست راہے، دینے و قبلہ گاہے
من قبلہ راست کردم، برطرفِ کج کلا ہے


ہر قوم کا ایک سیدھا راستہ ہوتا ہے، ایک دین ہوتا ہے اور ایک قبلہ ہوتا ہے۔ میں نے بھی آج ایک ”کج کلاہ“ کی طرف اپنا قبلہ ’راست‘ کر لیا ہے۔
کج اور راست معانی کے اعتبار سے دومتضاد  الفاظ ہیں اور ہم پاکستانیوں کو اس استعارے کا مفہوم جاننا چاہیے۔
میں اگلے روز ایک کتاب میں ایک رپورٹ دیکھ رہا تھا۔ یہ رپورٹ قیامِ پاکستان سے پہلے تیار کی گئی تھی۔ ابھی فیصلہ نہیں ہو رہا تھا کہ برصغیر کو دو حصوں میں تقسیم کیا جائے یا نہ کیا جائے۔ سب سے بڑی پرابلم فوج کی تقسیم تھی۔ تمام اسلحہ ساز کار خانے انڈیا میں تھے اور اس حصے میں تھے جو بھارت بننے والا تھا۔ پاکستان (مشرقی اور مغربی پاکستان) کے پاس ایک بھی اسلحہ ساز فیکٹری یا گولہ بارود (Munitions) بنانے کا کارخانہ نہیں تھا۔
غیر منقسم انڈیا کے کمانڈر انچیف نے یہ سوال اٹھایا کہ اگر برصغیر کو دو حصوں میں تقسیم بھی کر دیا جائے تو مسلمان سولجرز کیسے تقسیم ہوں گے؟ بھاری اور ہلکے اسلحہ جات اور ان کے گولہ بارود کے سارے کارخانے تو اس بھارت میں تھے جو ہندوانڈیا بننے والا تھا۔ فیلڈ مارشل آکنلک (کمانڈر انچیف) نے سوال اٹھایا کہ مسلمان سولجرز خالی ہاتھ پاکستان جا کر کیا کریں گے؟ کل کلاں اگر لڑنا پڑ جائے تو پاکستان آرمی کے یہ سولجرز بغیر اسلحہ کے کیسے لڑ سکیں گے؟اس نے تجویز پیش کی کہ ایک کمیٹی بنائی جائے جس میں بھارت اور انڈیا کے نمائندے شامل ہوں اور وہ یہ تجزیہ مرتب کر لیں کہ اگر پاکستان بن بھی جائے تو اس کے سولجر محض ”ٹین کے سولجرز“ (Tin Soldiers) نہ ہوں۔


دوسری عالمی جنگ ستمبر 1945ء میں ختم ہوئی تھی اور آخری بڑا زمینی معرکہ برما میں لڑا گیا تھا۔ ”برما کی جنگ“ بذاتِ خود ایک اہم اور طویل موضوع ہے۔ یہ جنگ 1942ء میں اُس وقت شروع ہوئی تھی جب جاپانیوں نے رنگون پر قبضہ کر لیا تھا جو برما کا دارالحکومت تھا۔ مارچ 1942ء سے اگست 1945ء تک برما کے طول و عرض میں گھمسان کے رن پڑتے رہے۔ ان معرکوں کو لڑنے کے لئے اتحادی افواج نے برصغیر کے جن علاقوں میں ہوائی اڈے، آرڈننس ڈپو، اسلحہ ساز فیکٹریاں، ورکشاپیں، ملٹری ہسپتال اور بندرگاہی تنصیبات منظم و مضبوط کیں، وہ سب کے سب ان علاقوں میں تھے جو برما کے نزدیک تھے اور جو برصغیر کی تقسیم کے بعد بھارت بننے والے تھے!
قائداعظم نے جب ان فیکٹریوں اور کارخانوں میں پاکستان کا حصہ مانگا تو انگریز نے جواب دیا کہ کوئی اسلحہ ساز فیکٹری زمین سے اٹھا کر آدھی آدھی تقسیم نہیں کی جا سکتی۔اس کا حل ڈھونڈنے کے لئے اس وقت کے کمانڈرانچیف جنرل آکنلک نے ڈائریکٹر EME (M.H.COX) کی سربراہی میں ایک ٹیکنیکل کمیٹی قائم کر دی جس نے یہ نتیجہ نکالا کہ پاکستان کو کوئی بھی اسلحہ اور گولہ بارود فیکٹری شفٹ نہیں کی جا سکتی۔ ہاں وہ اپنے حصے کا معاوضہ پونڈز میں طلب کرنے کا حق دار ہوگا۔
جی چاہتا ہے کہ اس تجزیاتی رپورٹ کا اردو ترجمہ من و عن قارئین کے سامنے رکھوں تاکہ معلوم ہو کہ پاکستان کو روزِاول ہی سے جن عسکری بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا ان کی نوعیت کیا تھی اور پاکستان نے آرڈننس فیکٹریز واہ قائم کرکے جو کارنامہ سرانجام دیا اور جتنی عجلت سے دیا وہ برطانوی جرنیلوں کے لئے بھی باعثِ حیرت تھا…… اگلے کالم کی دو تین قسطوں کو پڑھ کر اندازہ لگا لیجئے کہ افواجِ پاکستان کو کس حجم اور کس ٹیکنیکل نوعیت کے چیلنج کا سامناتھا (جاری ہے)

مزید :

رائے -کالم -