رئیل اسٹیٹ، بلڈر اینڈ ڈویلپرز بجٹ میں ریلیف کے منتظر

 رئیل اسٹیٹ، بلڈر اینڈ ڈویلپرز بجٹ میں ریلیف کے منتظر
 رئیل اسٹیٹ، بلڈر اینڈ ڈویلپرز بجٹ میں ریلیف کے منتظر

  


وفاقی بجٹ اور صوبوں کے بجٹ سے عوام ہمیشہ امیدیں وابستہ کر لیتے ہیں بجٹ آئے گا تو ریلیف ملے گا، بجٹ میں عوام کے لئے اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں کمی، سرکاری اور نجی اداروں کے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ عرصہ تک معمول رہا ہے۔ گزشتہ ایک دہائی سے یہ خوبصورت روایت عوام کو بجٹ میں خوشیاں دینے کی ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف نے چھین لی ہے، طاغوتی قوتوں کی طرف سے معیشت کو کنٹرول کرنے اور بے دریغ قرضے دینے کے بعد اب ہمیں اس حال تک پہنچا دیا گیا ہے اب ہماری قسمت کے فیصلے آئی ایم ایف کی ٹیم آتی ہے بات جہاں تک نہیں رکی، ہمارے جیسے ممالک کو اِس حد تک بلیک میل کیا جا رہا ہے، ہماری اکانومی کا اتار چڑھاؤ بھی ان کے زیر کنٹرول آ چکا ہے اس کے ساتھ بیشتر ممالک جن میں ہمارا ملک شامل ہے سٹیٹ بینک کے گورنر تک ان کی مرضی سے آتے ہیں ہماری حکومتیں اپنی مراعات اور عیاشیاں برقرار رکھنے کے چکر میں ہمارا سب کچھ امریکہ بہادر اور اس کے اداروں کے پاس گروی رکھوا چکے ہیں۔یہی وجہ ہے اب ہماری حکومتیں پی ڈی ایم کی ہوں یا مسلم لیگ(ن) کی یا تحریک کی حتیٰ کہ نگران حکومتوں کے بس میں بھی نہیں رہا کہ وہ عوام کو ریلیف دینے کی بات تک کر سکیں،موجودہ حالات میں جب پاکستان کا ہر بچہ قرضے میں جکڑا جا چکا ہے،عام تو عام خواص کے لئے بھی ماہانہ بجٹ بنانا مشکل ہو گیا ہے،غریب غربت کی لکیر کراس کر چکا ہے، کروڑوں افراد کو زندگی بچانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں،ورلڈ بینک، آئی ایم ایف و دیگر اداروں نے ہمیں اس حال تک پہنچا دیا ہے ہماری حکومت آئی ایم ایف کی تمام کی تمام شرائط غیر مشروط تسلیم کر کے بھی ان کی آشیر باد حاصل کرنے میں ناکام نظر آ رہی ہیں۔اب سوال اُٹھ رہا ہے سیاسی عدم استحکام کے دور میں جب2023ء کو الیکشن کا سال بھی قرار دیا جا رہا ہے۔عمران خان کو مائنس کرنے سمیت بلاول کو وزیراعظم بنانے کی سرگرمیاں شروع ہو چکی ہیں۔ پی ٹی آئی کو خیر آباد کہنے والوں کو کوئی گھاس ڈالنے کے لئے تیار نہیں ہے اس کے باوجود جیل سے رہا ہو کر پارٹی سے لاتعلقی کا اعلان کرنے والوں کی ملاقاتیں عام بات ہیں۔

واقفانِ حال کا کہنا ہے ایک وقت میں کئی پتے کھیلے جا رہے ہیں بجٹ کے اعلان کے ساتھ ہی پی ڈی ایم کا شیرازہ بکھرنے اور نئی سیاسی صف بندی شروع ہو گی ان حالات میں وفاقی بجٹ مسلم لیگ (ن) کے مستقبل کا فیصلہ کرے گا۔بات دوسری طرف چلی گئی اِس وقت سب سے بڑا بحران ملکی معیشت کی ہر آنے والے دن میں خراب ہوتی صورتحال ہے اسحاق ڈار کے غبارے سے ہوا نکالنے کی مہم بھی جاری ہے لیکن اس کے باوجود اسحاق ڈار اپنے قائد  میاں نواز شریف کی ہدایت پر ہر صورت وفاقی بجٹ کو عوامی بجٹ بنا کر مسلم لیگ(ن) کی مقبولیت آگے بڑھانے کے لئے سرگرم عمل ہیں۔واقفانِ حال کا کہنا ہے پی ڈی ایم کی حکومت کے آنے کے بعد سب سے بڑا جرم جو ان سے سرزد ہوا ہے وہ ہے اوورسیز پاکستانیوں سے ووٹ کا حق واپس لینے کا،اس بات میں بھی دو رائے نہیں ہیں کہ اوورسیز پاکستانی جو کسی بھی ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں ہم سے ناراض ہیں، دنیا بھر میں بسنے والے پاکستانی پی ڈی ایم کے حامی نہیں ہیں اور نہ میاں برادران کو پسند کرتے ہیں۔ اوورسیز پاکستانیوں نے اپنی ناراضگی کا غصہ زرمبادلہ روک کر کیا ہے جس کا خمیازہ پاکستانی قوم کو بھگتنا پڑ رہا ہے، پوری دنیا میں یہ شور مچا ہوا ہے اسحاق ڈار جب بھی وزیر خزانہ بنا پاکستان کی رئیل اسٹیٹ آگے جانے کی بجائے پیچھے گئی ہے ان کا وطیرہ رہا ہے انہوں نے کبھی سٹیک ہولڈر کو اعتماد میں  نہیں لیا اپنی مرضی کی ہے فیصلے مسلط کیے ہیں۔ یہی وجہ ہے ڈیڑھ سال سے رئیل اسٹیٹ سیکٹر بحران کا شکار ہے،ہزاروں دفاتر بند ہو چکے ہیں، حکومت کی عدم دلچسپی کی وجہ سے بلڈر اور ڈویلپرز شدید مشکلات کا شکار ہو کر رہ گئے ہیں، بے جا ٹیکسز کی وجہ سے پراپرٹی کی سیلز پرچیز نہیں ہو رہی، بلڈنگ میٹریل کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے نے غریب کو چھت بنانے کے خواب کو بھی شرمندہ تعبیر ہونے کے آگے پُل باندھ دیا ہے۔ سریا، سیمنٹ، بجری کسی چیز کا بھی نام لے لیں کئی کئی گنا بڑھ چکی ہے۔


ڈی اییچ اے، ایل ڈی اے، ایف ڈی اے اور کے ڈی اے جیسے اداروں نے ٹرانسفر فیسوں میں بے پناہ اضافہ کر کے شدید مشکلات پیدا کر دی ہیں،حکومتی اداروں میں کرپٹ مافیا نے ڈیرے جما رکھے ہیں اچھا اور ایمانداری سے کام کرنے والوں کے لئے دروازے بند ہو چکے ہیں۔ رئیل اسٹیٹ بلڈر اور ڈویلپرز کے کاروبار کے ساتھ کروڑوں خاندان وابستہ ہیں۔گزشتہ حکومت کی طرف سے غریبوں کو چھت کی فراہمی اور سستے گھر دینے کے منصوبے کا جو حال ہوا ہے اس پر کتاب لکھی جا سکتی ہے، نیا پاکستان منصوبہ کا شکار لاکھوں خاندان ابتری کا شکار ہو کر رہ گئے ہیں،حکومتی حلقوں سمیت ملک کے سنجیدہ حلقے اس بات پر بھی یکسو ہیں رئیل اسٹیٹ سیکٹر ہی ایسا شعبہ ہے جو سب سے زیادہ ٹیکس دینے والا ہے اور اس سے جڑے ہوئے درجنوں ادارے بھی ٹیکس دینے والوں میں کسی سے کم نہیں ہیں اس کے باوجود حکومت توجہ دینے کے لئے تیار نہیں ہے،لاکھوں گھر بلڈنگ میٹریل مہنگا ہونے کی و جہ سے مکمل نہیں ہو پا رہے جس سے بھی بات کریں ایک ہی مطالبہ کرتا نظر آتا ہے جب تک اوورسیز پاکستانی زرمبادلہ نہیں بھیجیں گے کاروبار نہیں چلے گا۔ ڈی ایچ اے لاہور کے صدر میاں طلعت احمد، سابق صدور میجر وسیم انور، ابوبکر بھٹی، میجر رفیق حسرت، فیڈریشن آف پاکستان کے رہنما خالد چودھری و دیگر رہنما بار بار مطالبہ کر رہے ہیں ملکی معیشت کو بچانا ہے تو رئیل اسٹیٹ سیکٹر اور اس سے وابستہ اداروں کو ٹارگٹ کریں،ان کو اعتماد میں لیں اور بجٹ کو ٹیکس فری بنائیں، اوورسیز پاکستانیوں کی طرف سے پاکستان میں گھر بنانے کے لئے رقم لانے والوں کے لئے سہولیات کا اعلان کریں، ان کی ٹرانسفر فیس مفت کریں،ایمنسٹی سکیم کا اعلان کریں، ملکی معیشت کا پہیہ بھی چلے گا اور درجنوں صنعتیں جو بند ہو رہی ہیں چل پڑیں گی اس کے لئے وزیر خزانہ کو چاہئے فیڈریشن اور ملک بھر کی ایسوسی ایشن کو اعتماد میں لیں اور بجٹ میں سی وی ٹی، اشٹام ڈیوٹی، ٹرانسفر فیس اور دیگر ٹیکسوں کے حوالے سے مضبوط لائحہ عمل تشکیل دیں۔ اگر اسحاق ڈار اپنی ضد پر قائم رہے ریلیف نہ دیا تو مہنگائی سے تنگ افراد کا معاشی قتل یقینی ہے،لاکھوں خاندانوں کے بیروزگار ہونے کا بھی خدشہ ہے،ملک بھر کی ہاؤسنگ سوسائٹیوں، ڈی ایچ اے اور بلڈرز و ڈویلپرز کی نظریں وفاقی بجٹ پر ہیں سب ریلیف کے منتظر ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -