کیا آپ کاروباری طبقے کو ملک سے بھگانا چاہتے ہیں؟آف شور کمپنی بنانا جرم نہیں لیکن بنی کیسے یہ اہم ہے، جسٹس طارق مسعود کے ریمارکس

اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)جماعت اسلامی کی پاناماپیپرز میں 436 پاکستانیوں کیخلاف تحقیقات کیلئے دائر درخواست پر جسٹس طارق مسعود نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ پاناما پیپرز میں کاروباری طبقے کے نام بھی تھے،کیا آپ کاروباری طبقے کو ملک سے بھگانا چاہتے ہیں؟ یہ تو قدرتی انصاف کے خلاف ہے،آف شور کمپنی بنانا جرم نہیں لیکن بنی کیسے یہ اہم ہے۔
نجی ٹی وی چینل ایکسپریس نیوز کے مطابق سپریم کورٹ میں جماعت اسلامی کی پاناماپیپرز میں 436 پاکستانیوں کیخلاف تحقیقات کیلئے دائر درخواست پر سماعت ہوئی،جسٹس سردار طارق مسعود نے استفسار کیاآپ کو پاناما پیپرز میں نامزد افراد کیخلاف تحقیقات میں کیا دلچسپی ہے؟وکیل سراج الحق نے کہاکہ پاناما پیپرز میں عوامی پیسہ کا معاملہ ہے،عدالت نے کہاکہ عوام کے پیسے کا خیال تب کیوں نہیں آیا جب 24 سماعتوں کے بعد آپ نے کہاکہ ہمارا کیس الگ کردیں،اس وقت آپ نے ایک ہی خاندان کیخلاف کیس چلنے دیا،کیا آپ کامقصد ایک ہی خاندان کیخلاف کیس چلانا تھا؟جب آپ کو معلوم تھا یہ عوامی پیسے کا معاملہ ہے تو کیس بلاتفرق چلانے کو کیوں نہیں کیا؟7 سال بعد آپ کو مفاد عامہ کیوں یاد آگیا؟
جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ 436 نام بھی پاناماسکینڈل کا حصہ تھے ،پاناماکیس میں 5 رکنی لارجر بنچ آپ کو اتنا بڑا ریلیف دے رہا تھا تو کیس الگ کیوں کیا؟میں کچھ کہنانہیں چاہتا لیکن یہ کچھ اور ہی معاملہ تھا،بنچ خود436 افراد کیخلاف تحقیقات کا معاملہ الگ کرتا تو اور بات ہوتی،ایسی کون سی وجہ تھی کہ آپ نے اپنی درخواست کو الگ کرنے کاکہا،ایف بی آر، ایف آئی اے ، نیب اور اسٹیٹ بینک موجود ہیں، آپ قانون کو بائی پاس نہیں کرسکتے،کیا ریاستی اداروں کو بند کرکے سارے کام سپریم کورٹ سے ہی کرالیں؟کیا آپ نے اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے 7 سال میں تحقیقاتی اداروں کودرخواست دی؟
وکیل اشتیاق راجہ نے کہاکہ میرے پاس فی الوقت ریکارڈ موجود نہیں،جسٹس طارق مسعود نے کہاکہ پاناما کیس میں ایک فرد کی نااہلی کیلئے اس وقت درخواست دائر کی گئی،قانون کو اپنے راستہ اختیار کرنے دیں،7 سال میں آپ نے کسی کو نہیں کہا جنہوں نے ملک لوٹا ان کیخلاف کارروائی کریں،کیا پاناما کے 436 افراد کو بغیر نوٹس جاری کئے فیصلہ کر سکتے ہیں؟پاناما پیپرز میں کاروباری طبقے کے نام بھی تھے،کیا آپ کاروباری طبقے کو ملک سے بھگانا چاہتے ہیں؟ یہ تو قدرتی انصاف کے خلاف ہے،آف شور کمپنی بنانا جرم نہیں لیکن بنی کیسے یہ اہم ہے۔
جسٹس امین الدین خان نے کہاکہ یہاں بیٹھ کر بہت سی باتیں کرنے کو دل چاہتا ہے نہیں کہہ سکتے،عدالت نے کہاکہ پہلے قانونی طریقے سے بیرون ملک رقم ٹرانسفر کی جاتی ہے، پھر بدنام کرنے کیلئے مہم چلائی جاتی ہے۔
جسٹس طارق مسعود نے کہاکہ سپریم کورٹ کو استعمال نہ کریں،وکیل جماعت اسلامی نے کہاکہ ایک مثال تو پہلے ہی موجود ہے،عدالت نے کہاکہ مثال تو یہ بھی موجود ہے پاناما میں 436 افراد میں سے ایک خاندان کو الگ کرکے کیس چلایاگیا،وکیل نے کہاکہ تحقیقاتی اداروں کا حال یہ ہے 3 سال سے نوٹس ہو اور اب تک جواب جمع نہیں کرایا،عدالت نے کہا کہ جب آپ نے 2016 میں کیس الگ کیا تھا تب تمام ادارے اپنے جوابات جمع کرا چکے تھے۔
جسٹس طارق مسعود نے کہاکہ ایسا بھی کیا ہوا تھا کیس میں 24 سماعتوں کے بعد ایک خاندان کے علاوہ تمام کیسز الگ کئے گئے؟دیکھنا ہوگا آرٹیکل 184 تھری میں یہ کیس کیسے سنا جائے،اب تو آرٹیکل 184 تھری کے بارے مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔