حتابارڈرپرویزہ لگنےکاانتظار
السفروسیلہ الظفر، یہ ایک معروف عربی مقولہ ہے جس کا مطلب ہے کہ سفرکامیابی کا وسیلہ ہے۔۔۔زندگی ایک ہی بارملتی ہےاوراس دوران اگردنیا دیکھنےکی لگن اورموقع میسرہوتوزندگی کا لطف دوبالہ ہوجاتا ہے۔ یہ حقیقت ہےکہ سفرانسان کی فکرمیں انقلاب پربا کرنےکا باعث بنتاہے۔
گزشتہ ایک سوبرس کےدوران دوعالمی جنگوں اورانکےنتیجےمیں وجود میں آنے والے نظام میں قومی ریاستوں کا وجود آزادانہ سفرکی راہ میں بہت سے رکاوٹیں لایا ہے۔۔۔ویزوں کا حصول وقت گزرنےکیساتھ ساتھ مشکل ہوتا جارہا ہےاوراس میں بدلتےعالمی وسیاسی حالات بھی ذمہ دارہیں۔۔۔
میری نظرمیں دنیا ایک کتاب کی مانند ہےاورہم اس ایک کتاب کےمختلف باب ہیں۔۔۔اوریہ کتاب صرف ایک کہانی بیان کرتی ہے اوروہ ہےانسانی ارتقا کی کہانی۔۔۔ دنیا کےان گنت انسانوں کی طرح میں بھی یہ کہانی پڑھنےکی خواہش لیےبڑی ہوئی۔۔۔پھرزندگی کےایک موڑ پر دبئی منتقل ہوئی۔۔۔متحدہ عرب امارات کا چپہ چپہ دیکھنےکے بعد خلیج کے دیگرممالک دیکھنےکی خواہش نےانگڑائی لی۔۔۔متحدہ عرب امارات میں جشن آزادی کےموقع پرتعطیلات کااعلان ہوا توہم نےعمان کیلئے رخت سفرباندھا جہاں میرےچچا مقیم ہیں۔۔۔
سفرسے پہلےکی رات بہت بے چینی اورانتظارکا ایک نہ ختم ہونےوالا سلسلہ لےکرآئی۔۔۔اس بارہم نے ہوائی جہاز کےبجائے بذریعہ سڑک سفرکا فیصلہ کیا تھا۔۔۔توقع تھی کہ موٹرکارکے ذریعےسفرکرکےنا صرف راستے میں قدرتی مناظرسے لطف اندوزہوں گے بلکہ نئےعلاقےبھی دیکھنےکاموقع ملےگا۔۔۔
وہ رات کسی طرح گزرہی گئی۔۔۔ناشنےکےبعد قریبا دس بجے بیگ، پاسپورٹ اوردیگرضروری دستاویزات ہمراہ لیے ہم جانب منزل روانہ ہوئے۔۔۔راستےمیں صحراکےبدلتےبدلتےرنگ،نخلستان،بل کھاتے پتھریلے پہاڑاورگہرے نیلگوں سمندرمیں آسمان کاعکس دیکھ کرخدا کی قدرت پررشک آیا۔۔۔
ڈیڑھ گھنٹےکی مسافت خوشگواراندازمیں گزری لیکن حتا بارڈرپراپنی باری کی منتظرگاڑیوں کی لمبی قطاروں سے جب واسطہ پڑاتواحساس ہوا کہ ہمیں کچھ دن پہلےآن لائن ویزہ لیناچاہیےتھا۔۔۔کیونکہ بارڈرپرمتحدہ عرب امارت سےہزاروں کی تعداد میں لوگ چھٹیاں منانےجا رہےتھے۔۔۔
مرتا کیا نہ کرتا جیسی صورتحال تھی۔۔۔ایک جانب کچھوے کی چال چلتی گاڑیاں تودوسری جانب دفترمیں ویزہ ہاتھ میں لئےاپنی باری کے منتظرہزاروں افراددیکھ کردل بیٹھ سا گیا۔۔۔کئی گھنٹوں کےانتظار کےبعدبھی جب ہماری باری نہیں آئی توآپس میں مشورہ کیا کہ بارڈر سے ہی واپس گھرچلتےہیں لیکن شرم کے باعث ارادہ ترک کرنا پڑا کیونکہ ایک جانب صبح سےعمان والے چچافون پرسفری حالات اور بارڈرپارکرنےکا پوچھتےتھےاوردوسری جانب پاکستان میں میکا اورسسرال کوبھی واپسی کاجواب دینا تھا۔۔۔اس دن وقت جیسےتھم گیا تھا۔۔۔انتظارتھا کہ ختم ہی نہیں ہورہا تھا، بارہا ویزہ دفترکےاندرباہرجا کرجب بھی قطارپرنظرپڑتی تولگتاجیسےٹس سےمس نہیں ہوئی اوروجاہت تین گھنٹوں سے وہیں کےوہیں کھڑےرہے۔۔۔میں ایک بار پھربچےکولئے باہر آ کربیٹھ گئی جبکہ وجاہت اپنی باری کا انتظارکرتےرہے۔۔۔دوپہر،عصراورپھرمغرب بھی گزرگئی۔۔۔دن کی روشنی آہستہ آہستہ رات کی تاریکی میں تبدیل ہوگئی۔۔۔اس دوران نہ کچھ کھایا نہ کچھ پیا۔۔۔بس انتظارتھا توصرف اورصرف ویزہ لگنےاورانشورنس کا۔۔۔گھنٹوں گزرنے کےبعدبلاخررات دس بجےکہیں ہماری باری آہی گئی ۔۔۔پندرہ عمانی ریال پرتینوں ویزےجبکہ سات عمانی ریال پرگاڑی کی انشورنس کردی گئی ۔۔۔کوفت زدہ مرحلوں سے گزرنے کے بعد کہیں کھانے کا خیال آیا تو وجاہت انشورنس سے واپسی پربرگراورجوس لےآئے۔۔۔کھانا کھانےکے بعد اگلا مرحلہ کسٹم سیکشن کا تھا جو خیروعافیت سےگزرا تو بارڈرپار کرکےعمان میں داخل ہوہی گئے۔۔۔انتطارہوتا کیاہے، یہ تب معلوم ہواجب حتا بارڈرپرویزہ لگنےکیلئےلائن میں کھڑے ہوکرکوفت زدہ حالات میں گزرے ، یہ آٹھ گھنٹے،میں زندگی بھرنہیں بھول پاوں گی۔
االلہ اللہ خیرسےاللہ۔۔۔حتا بارڈرپارکے بعد سب سے پہلے موبائل سم اورنیٹ کا بندوبست کرنا تھا۔۔۔۔پیٹرول پمپ پرگاڑی میں پیٹرول بھرااورساتھ ہی موبائل سم دکان سے سم خریدی۔۔۔ڈیٹاآن کرتےہی چچا سے رابطہ کیا اورساتھ ہی ساس والدہ اوروالدکوبارڈرپارکرنےکاپیغام دیا۔
عمان کی سرزمین پررات کی تاریکی اورکھلا آسمان۔۔۔دوردورتک کہیں سڑک کنارے لگےمصنوعی روشنی والےلائٹس خوبصورت منظر پیش کررہے تھے۔۔۔صبح سےچچافون پرسفری صورتحال کےمتعلق آگاہی لےرہےتھےاورساتھ ہی عمان کےراستوں سےواقفیت بھی کرارہے تھے۔۔۔زرارپورے راستےہرڈیڑھ،دوگھنٹے بعد دودھ پی کرکھیلتا اور پھرسوجاتاجبکہ ہم رات کی تاریکی میں نظرانے والی سڑکوں،مارکیٹوں،عمارتوں سمیت مختلف اشیا سے متعلق باتیں کرتےرہے۔۔۔گوگل میپ اورچچا کےفون پربتائے ہوئے راستوں پرہوتے ہوئے چارگھنٹوں کے بعد رات دو بجےبالآخرچچا کے فلیٹ پر جا پہنچے جہاں پہلے سے ہی چچا منتظر تھے۔۔۔دعا سلام کےبعدچچا نےسب سے پہلے کارسیٹ سے زرارکولیاجبکہ ہم بیگزاٹھا کرچلتے بنے ۔۔۔کھانےکےدوران چچا کوساری سفری روداد سنا ڈالی اورساتھ ہی توبہ کی کہ آئندہ اس قسم کےایام پربارڈرپارملکوں کا رخ نہیں کرینگے۔۔۔بہرحال کھانےاورتھوڑی گپ شپ کےبعداگلےدن کا پروگرام بنا کرسوگئے۔۔۔
صبح ناشتے کےبعد سب سے پہلے ہم نےگھر کی سفائی ستھرائی کی اورگھرمیں پڑاڈھیروں غیرضروری سامان باہرپھینک دیا۔گھرکی حالت درست کرنے کے بعدچچا کی گاڑی میں عمان کی سیرکونکلے،عمان کی خوبصورتی رات کی تاریکی میں الگ جبکہ دن کی روشنی میں الگ نظرآرہی تھی۔۔۔سب سے پہلےانکل شاپنگ مال لےگئےجہاں انہوں نے نواسےکیلئےتحفہ میں بگی لی۔۔۔اوربعدازاں شہرکی سیرکونکلے۔۔۔سرسبزوشاداب پہاڑ۔۔۔خوبصورت عمارتیں۔۔۔کہیں عمارتوں میں چھوٹے چھوٹے دروازے،کھڑکیاں اوربرآمدے۔۔۔دل کر رہا تھا جیسے یہی کی ہو کر رہ جاوں۔۔۔
تاریخی عمارتیں۔۔۔پہاڑکی چوٹی پرصدیوں پرانی چوکیاں دیکھ کراندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عمان خود میں صدیوں کی داستانیں سموئے بیٹھا ہے۔
میری عادت ہےکہ میں کسی شہریا پھرملک چلی جاوں تو وہاں کی کوئی خاص چیزیادگارکےطورپر ساتھ ضرور رکھتی ہوں تاہم ثقافتی گلےکے ہاروں کا مجھےبےحدشوق ہیں۔۔۔شام کے وقت ہم بازارگئے۔۔۔۔عمان سمیت دنیا بھرکی تہزیب وثقافت سےمزین بازارمیں سجےخوبصورت پتھروں،ہڈیوں،موتیوں سمیت دیگرہارمیری توجہ کا مرکزبن گئے۔۔۔ایک ایک کرکےمیں ہاردیکھ رہی تھی بالآخرعمانی ثقافت کاایک ہارپسندآگیا۔
چچانےفیصلہ کیا کہ رات کا کھاناترکش ہوٹل میں کھائیں گے۔۔۔ترکش کھانا کھانےکے بعد رات گیارہ بجے ہم گھرواپس آئے۔۔۔گاڑی سےاترنےکےبعداحساس ہوا کہ مجھ سےمیرا موبائل فون کہیں گرگیا ہے۔۔۔گاڑی میں، بیگزمیں دیکھا، نہیں ملا۔۔۔۔کافی ڈھونڈنے کے بعدچچا اوروجاہت اسی ہوٹل گئےجہاں ہم نےکھانا کھایا تھا۔ہوٹل میں داخل ہوتےہی منیجرنےموبائل فون شوہر کے حوالے کردیا۔ہم نےمتفقہ طورپررات گپ شپ کےدوران فیصلہ کیا کہ کل ہی دبئی کیلئےنکلیں گےتاکہ واپسی میں بارڈرپررش کے باعث پہلے جیسی پریشانی کا سامنا نہ ہو۔۔۔
صبح ناشتہ کےبعد قریبا بارہ بجےواپسی کیلئےنکلے۔۔۔راستےمیں سلطان قبوس نیول بیس کے قریب ساحل سمندرپرگئے جہاں صرف دوردورتک نیلہ پانی تھا اورساحل پرچمکدارریت جس پر سورج کی کرنیں پڑتی توآنکھیں چھندائےبغیرنہ رہتی۔۔۔زرارکو ساحل پربٹھاکرتصویریں بنائیں۔۔۔۔شورکرتاہچکولےکھاتاسمندرکا کھاراپانی جب پاوں سےٹکراتا توٹھنڈک کااحساس دیتا۔۔۔سورج اپنے زوال کی طرف آہستہ آہستہ بڑھ رہا تھا تو ہم نے روشنی میں واپسی اختیارکرنےمیں عافیت سمجھی کہ اس بہانےعمان کے گاوں خبط نوافل کودیکھاجائے۔۔۔خوبصورت گاوں۔۔۔مہذب اندازمیں قطاردرقطارگھر۔۔۔صاف وشفاف گلیاں جہاں بزرگ ٹولیوں کی شکل میں بیٹھ کرخوش گپیوں میں مصروف تھے، سرمئی روشنی میں گاوں کےخوبصورت منظرنےمجھےاپنےگاوں،گھر،بچپن اوربزرگوں کی یاد دلادی۔
راستے میں فیصلہ کیا کہ واپسی حتا بارڈر کے بجائے۔۔۔ختمت ملاحا بارڈر فوجیرہ سے کی جائےتوبہترہوگا۔۔۔بارڈرپارکرنےسے پہلے گاڑی کی صفائی شروع کی تو میں بچےکولیکرگاڑی سےباہرآئی۔۔۔ہرپیدل یا گاڑی میں گزرتا شخص رک کرپوچھتا کہ کوئی مسلئہ تونہیں تاکہ مدد فراہم کی جائے۔
بارڈرکےقریب پہنچتےہی پریشانی میں اضافہ ہورہا تھا کہ ایسا نہ ہو ، یہاں بھی حتا بارڈرجیسامسئلہ پیش آئے۔۔۔دورسے بارڈر کوسنسا ن پایا توخوشی کی انتہا نہیں تھی اوریوں ہم تقریبا دس منٹ میں بارڈرپار کرکےساڑھےدس بجےمتحدہ عرب امارات میں داخل ہوگئے۔۔۔
فوجیرہ میں رات کا کھانا کھانےکے بعد گھرکیطرف نکلےاوریوں رات بارہ خیروعافیت سےتھک ہارکرگھرپہنچے۔۔۔میں نےاپنےاس سفرسےیہ سبق سیکھا کہ آئندہ جب بھی۔۔۔یوم آزادی،عیدین یا اس قسم کےتہواروں پرآپ نے بارڈرپارجانا ہوتوآن لائن ویزہ حاصل کرنے کے بعد اور ایک دن پہلے نکلیں۔۔۔نہیں توبارڈرپرہماری طرح آپ بھی پاسپورٹ ہاتھ میں لئےاپنی باری کا انتظارکرتےرہیں گے۔۔۔
۔
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔