مرول ٹاپ سے آگے کا راستہ تو بہت ہی کٹھن تھا، 1971ء کی جنگ میں ہم نے بہت سے علاقے کھوئے جیسے ترتک، لاتو، بنڈونگ،خاکسار،ہندرمن وغیرہ

 مرول ٹاپ سے آگے کا راستہ تو بہت ہی کٹھن تھا، 1971ء کی جنگ میں ہم نے بہت سے علاقے ...
 مرول ٹاپ سے آگے کا راستہ تو بہت ہی کٹھن تھا، 1971ء کی جنگ میں ہم نے بہت سے علاقے کھوئے جیسے ترتک، لاتو، بنڈونگ،خاکسار،ہندرمن وغیرہ

  

 مصنف:شہزاد احمد حمید
 قسط:41
کرنل (آر)شہباز 7سا ل ڈائریکٹر جنرل بلدیات پنجاب رہے۔ نفیس، خوش پوش، خوش گفتار، کام کے دھنی، ماتحتوں سے محبت کرنے والے لیکن کام چوروں کو سخت ناپسند کرتے تھے۔ میری ان سے ہمیشہ ہی اچھی نیاز مندی رہی۔میں نے ان سے شہباز پوسٹ اور ان کی تعیناتی کے حوالے سے پوچھا؛”تو کہنے لگے کل جمخانہ کلب لاہور چلے آنا۔ کافی بھی پئیں گے اور گپ شپ بھی لگائیں گے۔“ میں اگلے روز بتائی جگہ پہنچ گیا وہ میرے انتظار میں تھے۔ کافی اور سینڈ وچ بھی آ گئے اور گپ شپ بھی شروع ہوگئی۔ کچھ دیر مقامی حکومتوں کے قانون مجریہ  2019ء پر بات ہوئی اور پھر انہوں نے اولڈنگ تعیناتی کی بات کرتے بتایا؛”میں 1978ء سے1980ء تک2این ایل آئی (2NLI) کا کمانڈر رہا۔ یہ وہ وقت تھا جب سکردو سے اولڈنگ تک کا راستہ تنگ، دشوار تھااور اس مسافت طے کرنے میں سات(7) گھنٹے لگتے تھے۔ مرول ٹاپ سے آگے کا راستہ تو بہت ہی کٹھن تھا۔ 1971ء کی جنگ میں ہم نے بہت سے علاقے کھوئے جیسے ترتک، لاتو، بنڈونگ،خاکسار،ہندرمن وغیرہ۔ یہ بھارت کے قبضے میں چلے گئے اور نئی لائن آف کنٹرول کھینچ دی گئی۔ یہ سبھی گاؤں فوجی اہمیت کے حامل ہیں۔1965ء کی جنگ میں بھی بھارت نے ان مقامات پر قبضہ کیا تھا لیکن پھر جنگ بندی اور معائدہ تاشقند کے تحت یہ علاقے پاکستان کو واپس مل گئے تھے۔1971ء کی جنگ کے بعد ایسا نہ ہوا کہ بھارت جانتا تھا کہ ان علاقوں پر قبضے کا مطلب اس سیکٹر ز میں فوجی نقطہ نگاہ سے برتری ہے۔اب اس محاذ پر فوجی نقطہ نگاہ کے لحاظ سے بھارتی فوج زیادہ اہمیت والی جگہ پر ہے اور ہماری پوسٹوں پر انہیں سٹریٹجک برتری حاصل ہے۔ہاں اگر ہم17 ہزار500 فٹ بلند ”امونی ریج“ amoni ridgeکے آگے اپنے مورچے قائم کرتے تو کارگل کو جاتی مرکزی شاہراہ ہماری زد میں رہتی اور بھارت کے لئے اس سیکٹر میں نقل و حمل آسان نہ ہوتی یوں واضح فوجی برتری ہمیں حاصل ہوتی۔ میں نے اس حوالے سے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کو خط بھی لکھا تھا اور جواب میں میری تجویز سے اتفاق بھی کیا گیا تھا۔ شہباز پوسٹ امونی ریج کے نیچے سولہ ہزار پانچ (16500) کی بلندی پر میں نے ہی قائم کی اور میرے نام سے ہی منسوب ہے۔اب تو ہمزی گونڈ میں بریگیڈ ہیڈ کوارٹر ہے اس دور میں بٹالین ہیڈ کواٹر تھا۔ ”کنگنی پوسٹ“ پر پاک بھارت فلیگ میٹنگ ہوتی ہے۔“ میں نے پوچھا؛”سر! بلتی جوان کتنے بہادر ہیں“؟ کہنے لگے؛”وہ بہادر ہی نہیں جفاکش اور محب وطن بھی ہیں۔ بڑے تگڑے اور پہاڑ پر یوں چڑھتے ہیں جیسے بکری۔ محنتی اور ملک سے مخلص۔ افسر کے وفادار۔ ایسے بہت سے واقعات ہیں جب انہوں نے اپنی بہادری سے مشکلات پر قابو پانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ آج بھی اس دور کے چند جوانوں سے میرا رابطہ ہے۔“ میں نے سوال کیا؛”سر کچھ انڈس ویلی اور جمنا ویلی کی تہذیب کے بارے بتائیں گے۔“ کہنے لگے؛”شہزاد!یہ ایک دوسرے سے بہت مختلف تھیں۔انڈس ویلی تہذیب زیادہ ایڈوانس تھی جبکہ گنگا ویلی کی تہذیب اس کے بعد کی ہے۔“ میں نے پوچھا؛ ”سر!کچھ اپنی ہمزی گونڈ میں تعیناتی کی کوئی یادگار بات بتائیں۔“ بتانے لگے؛”یار! میں عید ہمیشہ اپنے جوانوں کے ساتھ کرتا تھا۔ کل5عیدیں آئیں میں ان کے ساتھ رہا۔ مشکل مہم پر بھی ان کے ساتھ ہوتا تھا۔ سرد موسم انتہائی شدید ہوتا تھا۔ یاد آیاسردی کے موسم میں پانی برف بن جاتا تو زندگی اور بھی مشکل ہو جاتی تھی۔ میری فیملی بھی میرے ساتھ رہتی تھی۔ ایک بار تو میں نے فیملی کے ہمراہ’ زخ‘ پر انڈس کی سیر بھی کی شاید بڑی غلطی تھی لیکن وہ جوانی کے دن تھے اور انسان بے وقوفی کی حد تک دلیر ہوتا ہے۔ میں بھی ایسا ہی تھا۔! اولڈنگ کے قریب ”رافٹنگ“ بھی ہوتی تھی اور آج بھی ہوتی ہے۔ اس دور میں زیادہ تر فوجی ہی اس کھیل سے لطف اندوز ہوتے تھے۔اس دلچسپ کھیل کو دل گردے والے لوگ ہی کھیل سکتے ہیں۔ کھیل ان سنسان اور مشکل مقامات پر تفریح کا بہترین سامان ہوتے ہیں۔“ 
ہماری کافی اور سینڈوچ کب کے ختم ہو چکے تھے۔میں نے ان سے اجازت لی اور یہ سطریں لکھنے بیٹھ گیا ہوں۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)

مزید :

ادب وثقافت -