یہ معجزہ ہے کہ سفید فاموں کی جنت میں صدیوں سے جہنم کا عذاب بھگتتے ہوئے امریکی سیاہ فام امن و سکون سے رہ رہے ہیں

مصنف: میلکم ایکس(آپ بیتی)
ترجمہ:عمران الحق چوہان
قسط:109
جب بھی میں ”علیٰحدگی“ کی بات کرتا تو بعض لوگ چلانے لگتے کہ ہم مسلمان بھی اسی بات کا تقاضہ کر رہے ہیں جس کا تقاضہ سفید فام نسل پرست اور عوامی معلم کر رہے ہیں۔ میں اس کی وضاحت بھی کرتا۔
”ہم ”قطع رحمی“ کی بات نہیں کر رہے ہم ”علیٰحدگی“ کی بات کر رہے ہیں۔ یہ دونوں ایک نہیں ہیں۔ ایلیا محمد کا فرمان ہے کہ سیگریگیشن“ کا مطلب ہے آپ کی زندگی اور آزادی پر کسی اور کا اختیار سیگریگیٹ کا مطلب ہے اختیار، کم تر پر برتر کا تسلط سیگریگیشن کہلاتا ہے۔ جبکہ دو ہم مرتبہ لوگوں کا باہمی فائدے کے لیے رضاکارانہ طور پر الگ ہونا ”علیٰحدگی“ کہلاتا ہے۔ عزت مآب ایلیا محمد کا فرمان ہے کہ جب تک امریکہ میں ہمارے لوگ سفید فاموں کے ماتحت رہیں گے انہیں نوکری، خوراک، لباس اور رہائش کے لیے بھیک مانگنا پڑے گی۔ وہ ہمیشہ ہماری زندگیوں پر اختیار کے حامل رہیں گے، ہماری زندگیوں پر حکمران رہیں گے، امریکہ میں سیاہ فاموں کے ساتھ ہمیشہ بچوں کا سلوک کیا گیا ہے۔ بچہ پیدائش کے وقت تک ماں کے پیٹ میں رہتا ہے۔ جب پیدائش کا وقت آتا ہے تو بچے کو ماں سے ”الگ“ ہونا پڑتا ہے ورنہ ماں اور بچہ دونوں کو خطرہ لاحق ہوتا ہے وقت مقررہ کے بعد ماں بچے کو پیٹ میں نہیں رکھ سکتی۔ بچہ اپنی دنیا اور اس کی ضرورتوں کا متقاضی ہوتا ہے۔“
جس شخص نے بھی مجھے سنا ہے وہ اتفاق کرے گا کہ میں سو فیصد ایلیا محمد کی نمائندگی کرتا تھا۔ میں نے خود کبھی کریڈٹ لینے کی کوشش نہیں کی۔ اس طرح کے اجتماعی مذاکروں میں کوئی نہ کوئی اس انتظار میں رہتا کہ موقع ملتے ہی مجھ پر ”نیگروز کو مشتعل کرنے“ کا الزام لگا سکے۔ اس کے جواب کے لیے مجھے کسی خاص تیاری کی ضرورت نہیں تھی۔ میں جواب دیتا کہ:
”امریکہ میں عیسائیت کا سب سے بڑا معجزہ یہ ہے کہ سفید فام کے ہاتھوں سیاہ فام اشتعال پسند نہیں بنا۔۔۔ یہ معجزہ ہے کہ 22 ملین سیاہ فام ان جابروں کے خلاف نہیں اٹھ کھڑے ہوئے۔ حالانکہ اخلاقی اعتبار سے اور جمہوری روایات کے پیش نظر اس کا حق رکھتے تھے۔ یہ ایک معجزہ ہے کہ سیاہ فام قوم بڑی شدومد سے ”دوسرا گال پیش کرنے“ اور ”جنت بعداز مرگ“ کے فلسفہ پر یقین کیے ہوئے ہے۔ یہ ایک معجزہ ہے کہ سفید فاموں کی جنت میں صدیوں سے جہنم کا عذاب بھگتتے ہوئے امریکی سیاہ فام امن و سکون سے رہ رہے ہیں۔ معجزہ یہ ہے کہ سفید فاموں کے کٹھ پتلی نیگرو”راہ نماؤں“ ان کے مبلغین اور ڈگریوں سے لدے تعلیم یافتہ نیگروز نے اپنے غریب سیاہ فام بھائیوں کا خون چوسنے کے ساتھ ساتھ انہیں قابو میں بھی رکھا۔“
الغرض جب تک سٹوڈیو میں ”آن دی ایئر“ کی سرخ بتی جلتی رہتی میں ایلیا محمد اور قومِ اسلام کی نمائندگی بھرپور طریقے سے کرنے کی کوشش کرتا۔
جن دنوں مسلمانوں کے متعلق اختلاف بڑھ رہا تھا اور ہم بڑی اجتماعی ریلیوں کا آغاز کرنے والے تھے انہی دنوں ڈاکٹر سی ایرک لنکن کی کتاب شائع ہوئی۔ جس کا عنوان تھا”امریکہ میں سیاہ مسلمان“(The Black Muslims in America) پریس والے”سیاہ مسلمان“ کی ترکیب لے اُڑے۔ ہر تبصرے، ہر حوالے میں اس کتاب کے منتخب اقتباسات چھاپے جاتے۔ خصوصاً ہمارے متعلق منفی باتیں اور ڈاکٹر لنکن کی تحریر کو بہت سراہا جاتا۔ عوام کا ذہن ”سیاہ مسلمان“ کی ترکیب سے چپک کر رہ گیا تھا لیکن ایلیا محمد سے لیکر ”قوم اسلام“ کا ہر فرد اس لفظ سے مضطرب تھا۔ مجھے اس لفظ سے جان چھڑوانے میں لگ بھگ دو سال کوشش کرنا پڑی۔ میں ہر جگہ کہتا ”ہم امریکی سیاہ فام ہیں ہمارا مذہب اسلام ہے اور ہمیں صرف مسلمان پکارا جانا چاہیے“ لیکن اس لفظ نے کبھی ہمار پیچھا نہیں چھوڑا۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔