کراچی پہنچنے والے میمن تاجروں نے بڑی تیزی سے وہ خلاء پُر کیا جو ہندوؤں کے چلے جانے کی وجہ سے کارو باری حلقوں میں پیدا ہوا تھا

 کراچی پہنچنے والے میمن تاجروں نے بڑی تیزی سے وہ خلاء پُر کیا جو ہندوؤں کے ...
 کراچی پہنچنے والے میمن تاجروں نے بڑی تیزی سے وہ خلاء پُر کیا جو ہندوؤں کے چلے جانے کی وجہ سے کارو باری حلقوں میں پیدا ہوا تھا

  

 مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:132
میمن 
کراچی میں ایک بڑی تعداد میمن برادری کی بھی تھی۔کچھ تو قیام پاکستان سے قبل اپنے آبائی علاقے یعنی ہندوستان کی ریاست کچھ اور گجرات سے آگئے تھے اوریہاں کاروباری سرگرمیوں میں مصروف ہو گئے تھے۔ تاہم تقسیم ہند کے بعد میمنوں کی ایک بڑی تعداد ہندوستان کے علاقوں گجرات، راجکوٹ اورکاٹھیاواڑ سے کراچی چلی آئی تھی۔کراچی پہنچنے والے میمن تاجروں نے بڑی تیزی سے وہ خلاء پُر کیا جو ہندوؤں کے چلے جانے کی وجہ سے کارو باری حلقوں میں پیدا ہوا تھا۔
انہوں نے سب سے پہلے تو ہندو تاجروں کی تقلید میں غیر ملکوں سے کپڑوں کی درآمد کا وسیع و عریض کاروبار سنبھالا۔ اس کے بعد انہوں نے ہرقسم کے کپڑوں کی پاکستان بھر میں مقامی طور پر صنعتیں لگانا شروع کیں اور جلد ہی اس کارو بار میں چھاگئے۔ یہی وہ وقت تھا جب پاکستان میں کپڑے کی بڑی بڑی ملوں کا آغاز ہوا۔ جب انہوں نے اس میدان میں اپنے قدم جما لیے تو ان کا دھیان بینکنگ، انشورنس اور امپورٹ ایکسپورٹ کے شعبوں کی طرف ہو گیا۔یوں پاکستان میں بڑے بڑے بینک، شپنگ اور انشورنس کمپنیاں وجود میں آئیں۔ 
 میمن زیادہ تر سنی مسلمان تھے۔ ان کا رہن سہن بھی کراچی کے عام باشندوں ہی کی طرح تھا، گو ان کا لباس دوسرے لوگوں سے تھوڑا مختلف تھا۔ وہ زیادہ تر میمنی یا گجراتی زبان میں ہی گفتگو کرتے تھے۔ کراچی میں ان کی ایک معقول تعداد تھی، یہاں تک کہ اردو اور انگریزی کے بعد سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان گجراتی ہی تھی۔ اس وقت انگلش اور اردو کے ساتھ کئی سرکاری اسکول گجراتی میڈیم کے بھی ہوتے تھے جہاں ساری تعلیم گجراتی زبان میں ہی دی جاتی تھی اور ان کے امتحانات بھی گجراتی زبان میں لیے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ کراچی سے گجراتی زبان کے دو تین اعلیٰ پائے کے روزنامہ اخبار بھی نکلتے تھے جن میں ”ملت“ اور”ڈان گجراتی“ بڑے جانے پہچانے تھے اور ان کی اشاعت اچھی خاصی ہوتی تھی۔ تقریباً ہر پڑھے لکھے میمن گھرانے یا دکان پر یہ پرچہ ضرور پہنچتا تھا۔ چونکہ کراچی کے زیادہ تر چھوٹے اورمتوسط دکاندار گجراتی بولنے والے ہی تھے اس لیے صبح ہی صبح دکانوں کے باہر ہر کوئی یہی اخبار لیے بیٹھا ہوتا تھا۔ 
میمن درمیانے یا بہت ہی اونچے درجے کی تجارت کیا کرتے اور کراچی کے بازاروں میں زیادہ تر تھوک کی دکانیں ان ہی کی ہوتی تھیں۔ ان کے کاروبار کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کراچی کی بعض تھوک مارکیٹیں مکمل طور پر ان ہی کے زیر اثرہوتی تھیں، جہاں وہ روزانہ کی بنیاد پر خود ہی اشیاء کی قیمتیں مقرر کیا کرتے۔
متوسط اور غریب طبقے کے زیادہ تر لوگ عموماً پرانے کراچی شہر اور صدر میں چھوٹے، تنگ اور اندھیرے فلیٹوں میں رہتے تھے۔ عام میمنوں کا رہن سہن بھی انتہائی سادہ  تھا حالانکہ وہ مالی طور پر بہت مضبوط ہوتے تھے۔ ان میں بعض لوگوں کے پاس اتنا پیسہ ہوتا تھا کہ وہ جس چیز پر ہاتھ رکھ لیتے، اسے کھڑے کھڑے حاصل کرسکتے تھے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ اپنی لا ابالی فطرت کی بدولت اپنی ذات پر پیسہ خرچ کرنے سے کتراتے تھے۔ اس وقت کے عام میمن اپنے سادے اور عام سے لباس میں بھی لکھ پتی ہوتے تھے۔ پھر وہ اتنے کفایت شعار تھے کہ کنجوسی کی آخری حدوں کو چھو لیتے تھے۔ ان میں کہیں کہیں بہت غربت بھی تھی، لو گ محنت مزدوری بھی کرتے تھے۔ ان کے بچے تعلیم کے ساتھ کوئی ہلکی پھلکی ملازمت بھی کرلیتے تھے۔پڑھے لکھے میمن لڑکے عموماً بینکوں یا بڑی کمپنیوں وغیرہ میں اکاؤنٹنٹ یا منیجر وغیرہ کی ملازمت کر لیتے تھے حالانکہ ان کا رجحان ہمیشہ کاروبار کی طرف ہی رہتا تھا۔بہت ہی صابر و شاکر اور اللہ کی رضا پر خوش رہنے والے لوگ تھے۔ (جاری ہے) 
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)

مزید :

ادب وثقافت -