ہمدمِ دیرینہ کیسا ہے جہانِ رنگ و بُو۔۔۔سوز و ساز و درد و داغ و جستجو و آرزو۔۔۔ ایک قدم اور آگے بڑھیے اور جہدِ حیات کے مبلغ اقبال کا جوش و خروش دیکھیں 

 ہمدمِ دیرینہ کیسا ہے جہانِ رنگ و بُو۔۔۔سوز و ساز و درد و داغ و جستجو و ...
 ہمدمِ دیرینہ کیسا ہے جہانِ رنگ و بُو۔۔۔سوز و ساز و درد و داغ و جستجو و آرزو۔۔۔ ایک قدم اور آگے بڑھیے اور جہدِ حیات کے مبلغ اقبال کا جوش و خروش دیکھیں 

  

 مصنف: جمیل اطہر قاضی
 قسط:43
 اب ایک قدم اور آگے بڑھیے اور جہدِ حیات کے مبلغ اقبال کے جوش و خروش اور سرفروشی و جفاطلبی کو مدِّنظر رکھتے ہوئے دیکھئے کہ انہیں عام طور پر ایسے حروف کی آوازیں پسند ہیں جوشور انگیز اور ولولہ خیز ہوں۔ جو طوفان وغوغا پیدا کرنے والی ہوں تاکہ ان کے بلند آہنگ اور جوشیلے خیالات کے ابلاغ میں مدد گار ہوسکیں۔ چنانچہ اقبال کی تمام کتابوں کا بنظر ِغائر مطالعہ کریں تو آپ کو ’گ‘، ’نے‘ اور’ق‘ کے حروف کا استعمال سب سے زیادہ ملے گا۔ ان کے لہجے کی ہیبت انگیزی اور بلند آہنگی بیشتر انہی حروف کے بروئے کار لانے سے ظاہر ہوتی ہے۔ انہی آوازوں سے ان کا قاہرانہ اور جابرانہ لب و لہجہ تشکیل پاتا ہے۔ لیکن اس قاہری میں دلبری پیدا کرنے کے لئے ایک اور حرف کا استعمال بھی ان کے ہاں اکثر ہوا ہے یہ ہے ”ش“ کا حرف جس کا دھیما پن ملائمت اور سکون پرور آواز ان کی تندو تیز آوازوں کو قدرے معتدل اور خوش گوار بنا دیتی ہے۔
اسی طرح اقبال کے ہاں حروفِ اتصال میں سے واؤ کا استعمال اکثر ہوا ہے۔ اس حرف کے اتصال میں سے واؤ کا استعمال کثرت ہا ہے۔ اس حرف کے اتصال سے جب وہ مختلف الفاظ کو ملا دیتے ہیں تو خود بخود ان کے لہجہ میں صوتی شکوہ اور بلند آہنگی پیدا ہو جاتی ہے۔ ایسی مثالیں آپ کو کلام اقبال میں اکثر نظر آئیں گی بلکہ بعض اوقات اس حرفِ اتصال کا استعمال اس قدر ہوتا ہے کہ اُردو کا مصرعہ یا شعر بھی فارسی زبان کا شعر معلوم ہوتا ہے۔ ان اشعار کو ملاحظہ فرمائیے۔
ہمدمِ دیرینہ کیسا ہے جہانِ رنگ و بُو
سوز و ساز و درد و داغ و جستجو و آرزو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خود گیری و خود داری وگلبانگِ انا الحق
آزاد ہو سالک تو ہیں یہ اس کے مقامات
محکوم ہو سالک تو یہی اس کا ہمہ اوست
خود مردہ و خود مرقد و خود مرگِ مفاجات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آہ یہ قومِ نجیب و چرب دست و تر دماغ
ہے کہاں روزے مکافات اے خدائے دیر گیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طلسمِ بے خبری، کافری و دینداری
حدیثِ شیخ و برہمن، فسون و افسانہ
( جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)

مزید :

ادب وثقافت -