نواب صادق پنجم ،دھرتی سے محبت اور وفا داری کی مثال

تحریر: عبدالرافع افضال
جاہ و جلال خلوص دھرتی سے محبت اور وفا داری کا اگر ذکر ہو تو ایک شخصیت آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے نواب صادق پنجم صرف بہاولپور کی عظمت رفتہ کا روشن علامت نہیں تھے ۔انہوں نے پاکستان سے الحاق کرکے مسلمانوں کے عظیم مقصد کو بھی دوام بخشا۔بہاولپور، وہ نام جو تاریخ کا ایک دلکش باب اور آج کے دور میں جنوبی پنجاب کی شان کی حثیت سے جانا جاتا ہے۔ جہاں شان و شوکت کی عزم وقوت کے نغموں نے لوگوں کے دلوں میں گھر کیا۔نواب صاحب کی دریا دلی اور خدا ترسی کے سبب ریاست بہاولپور ایک حقیقی خوشحال معاشرے کی عظیم داستان بنا، مملکتِ خدادادِ بہاولپور، بھارت کی تقسیم کے بعد، ایک بڑی دیسی ریاست تھی کہ جس نے اپنی تقدیر پاکستان کے ساتھ لکھنےمیں بہتر سمجھی اور اپنا حصہ اس مملکت خداداد میں ڈالا، ہے بات قابل غور ہے کہ یہ ریاست برصغیر بلکہ ایشیا کی آسودہ اور امیر ترین ریاستوں میں سے ایک تھی۔ نواب بہاول خان نے 1609 میں اس ریاست کی بنیاد رکھی جبکہ 1833 میں باقاعدہ طور پر برطانوی راج کے اندر ایک دیسی ریاست کی حیثیت سے شامل ہوگئی جو بعدازاں تقسیم کے وقت پاکستان میں شامل ہوئی۔قیام کے وقت سے ہی پاکستان کو شدید معاشی چیلنجوں کا سامنا رہا ایک وقت ایسا بھی تھا جب مملکت کے پاس تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے پیسے نہ تھے اس موقع پر نواب بہاولپور نے عظیم کردار ادا کیا اور اپنے خزانے سے حکومت کی مدد کی۔
بہاولپور کے نوابوں نے پاکستان کے لئے مخلصانہ کوششوں نے مملکت کے تعمیر و ترقی کیلئے بہت بڑا کردار ادا کیا۔ اُن کی یہ خدمات اور کوششوں نے ہمیشہ لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائی جو آج تک زندہ ہے۔
نوابِ بہاولپور نے ریاست میں ترقی کے لئے انتھک کوششیں کیں،انہوں نے علاقے میں آمد و رفت اور معاشی ترقی کے لئے ریلوے لائنوں کا جال بچھا دیا۔۔ آج بھی بہاولپور کا ریلوے اسٹیشن اپنی خوبصورتی اور عظمت رفتہ کی جھلک پیش کرتا نظر آتا ہے اسکی تعمیر اور عمارت آج بھی دیکھنے کے لائق ہے۔ سخاوت میں اپنا ثانی نہ رکھنے والے نوابین نے اپنی ریاست سے نکل کر بھی انسانی خدمات میں اپنا سکہ جمایا، انکی تعلیم سے محبت کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے انہونے برصغیر کی عظیم درس گاہ پنجاب یونیورسٹی کو زمین کا تحفہ دیا، کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کا بہاول بلاک بھی نوابوں کا ہی ایک دیا ہوا تحفہ ہے، جو آج بھی ملک کی ایک عظیم درس گاہ کے طور پر اپنی خدمات انجام دے رہا ہے۔
بہاولپور ریاست کا جائزہ لیں تو اس میں جدید ریاست کے خدو خال نظر آتے پیں۔ ریاست نے کاروبار کو وسعت دینے کیلئے ہمسایہ ممالک کے علاؤہ کا عرب ممالک ، ترکی، ایران اور دیگر ممالک سے ایک اچھا رشتہ بنایا جس سے بہاولپور نہ صرف پاک و ہند بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اپنی ایک شناخت بنائے رکھی ۔بہاولپور پاکستان کا ایک ورثہ ہے ایک شان ہے، ساتھ ہی نواب صادق اور اُنکی پاکستان سے محبت کا ایک منہ بولتا ثبوت سے جو مملکت کی تاریخ کو ہمیشہ زندہ رکھے گا۔ نواب صاحب کی شاندار خدمات نے پاکستان کی ترقی کو پرواز دینےمیں اپنا کلیدی کردار ادا کیا۔
بہاولپور کا تاریخی ورثہ ہمیشہ ایک دلچسپ دستان رہے گا۔ آج بھی، بہاولپور کا نام روشنیوں کا ایک حسین باغ ہے، جو قدیم تاریخ کو روشن کرتا ہے اور آئندہ کی تجدیدِ وضع کا امیدوار ہے۔ اللہ ہمیں اپنے ملک کے محسنوں کو یاد رکھنے اور اُنکی اقدار اُنکی جہد کو زندہ رکھنے کی توفیق دے اور اس ملک پاکستان کو ہمیشہ شاد اور اندرونی اور بیرونی دشمنان سے محفوظ رکھے۔
آخر میں نواب صادق پنجم کا ایک فرمان قابل غور کہ
"پاکستان ہماری عشق و وفا کی نشانی ہے،
ملک کی ترقی اور فلاح میں ہمارا اپنا حصہ ہے۔
اپنے دیار کی سرمایہ کاری کریں،
علم و ادب کی فروغ کے لئے اقدامات اٹھائیں۔
ہم پاکستان کو ایک مملکتِ نور بنانے کی جدوجہد کریں گے۔"
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں