دہشت گردی کے مقابلے کے لئے امریکہ کی طرح اقدامات کریں
مکرمی! نائن الیون کے بعد امریکہ میں ہوم لینڈ سیکیورٹی کے نام سے ایک ادارہ تشکیل دیا گیا۔ اس ادارے کو تمام ایجنسیوں کے اوپر درجہ دیا گیا۔ سی آئی اے،ایف بی آئی اور تمام انٹیلی جنس ادارے اس کو رپورٹ کرتے تھے۔ ہوم لینڈ سیکیورٹی نے ایک تھنک ٹینک کی خدمات حاصل کیں۔ آپ کو یاد ہو گا کہ نائن الیون کے بعد امریکہ میں کسی جگہ پر ہڑتال، ہنگامہ بازی، جلوس، جلسہ نہ ہوا، بلکہ سب لوگ سر جوڑ کر بیٹھ گئے کہ کیا لائحہ عمل اختیار کیا جائے کہ ایسے واقعات دوبارہ نہ ہوں۔ تھنک ٹینک نے چند ہفتوں کے اندر مندرجہ ذیل سفارشات دیں۔
٭.... ہوم لینڈ سیکیورٹی تمام انٹیلی جنس اداروں کے ساتھ رابطہ رکھے گی اور ان سے حاصل شدہ اطلاعات پر ایک مربوط حکمت عملی ترتیب دے گی۔
٭.... ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو تعلیم دی جائے گی۔
٭.... آئی ٹی کی مدد سے ایس ایم ایس کر کے تمام لوگوں کو سیکیورٹی اقدامات کے بارے میں آگاہی دی جائے گی۔
٭.... یہ اعداد و شمار جمع کئے جائیں کہ کون کہاں رہتا ہے اور کیوں رہتا ہے، کیا کرتا ہے، کب سے رہتا ہے، اس میں تمام غیر ملکیوں کا ڈیٹا اکٹھا کیا گیا:
٭.... اور آخر میں ایک سلوگن دیا گیا
If Yor See Some Thing. ''Say Some Thing''
اس کا مطلب یہ تھا کہ اگر آپ اپنے اردگرد، قرب و جوار، بازار میں، ریلوے سٹیشن پر، ایئر پورٹ پر کوئی مشکوک شخص یا چیز دیکھیں تو اس کی اطلاع فوراً اپنے قریبی پولیس سٹیشن یا ایمرجنسی سنٹر کو بذریعہ فون، ایس ایم ایس یا ای میل کریں۔ اب ہوا یوں کہ شروع شروع میں پولیس اور تمام ایمرجنسی سنٹر پر بے تحاشہ کالیں وصول ہونے لگیں، لیکن کسی کالر یا پیغام کرنے والے کی حوصلہ شکنی نہ کی گئی، بلکہ اس کی بتائی ہوئی اطلاع کو سنا گیا۔ کال کرنے والے کا شکریہ ادا کیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تمام لوگ جلد آن بورڈ ہو گئے اور انہوں نے اِن اداروں کے لئے کانوں اور آنکھوں کا کردار ادا کیا۔
ہمارے ہاں حالات مختلف ہیں۔ جب بھی کوئی واقعہ ہوتا ہے، چند گھنٹوں اور دِنوں کے لئے یا یوں کہیں کہ ایک دن کے لئے تمام ادارے چوکس ہو جاتے ہیں اور پھر وہی پرانی روٹین چل پڑتی ہے۔ ہمیں اس کا تدارک کرنا پڑے گا۔ معاشرے کے ہر فرد کو آن بورڈ کرنا پڑے گا۔ اگر آپ غور کریں تو پتہ چلے گا کہ پورے ملک میں، چھوٹے بازاروں میں، بڑی مارکیٹوں میں، انجمن تاجران تو موجود ہیں، مگر ان کا کردار صرف ہڑتالوں تک ہی محدود ہے۔ اسی طرح گلی، محلے، علاقے میں کمیٹیاں تو موجود ہیں، مگر اُن کی رہنمائی کرنے والا کوئی نہیں ہے۔
ہمیں ہر واقعہ کے بعد رونا، پیٹنا چھوڑ کر عملی اقدامات کرنا ہوں گے، لیکن اس کے لئے ایک سنجیدہ کوشش کی ضرورت ہے۔ یوم سیاہ منانے سے بہتر ہے کہ ٹھوس اقدامات کئے جائیں۔ کوئی بار کونسل سے یہ تو پوچھے کہ اگر اسلام آباد کی کچہری میں سی سی ٹی وی یا واک تھرو گیٹ کام نہیں کر رہے تھے، تو پھر اس کی اطلاع کِس کو دی گئی؟
یہ آفت جو ہم پر نازل ہوئی ہے، اس کو ختم کرنے کے لئے دن، مہینے یا سال نہیں، اس کے لئے ہمیں کم از کم 5/6سال تک ایک مربوط حکمت عملی اپنانا ہو گی، لیکن یہ کام صرف قانون نافذ کرنے والے ادارے یا انٹیلی جنس ایجنسیاں اکیلے نہیں کر سکتیں، معاشرے کے ہر فرد کو اس میں اپنا حصہ ڈالنا ہو گا۔ آخر میں تمام لوگو ں کو:
If Yor See Some Thing. ''Say Some Thing''
پر عمل کرنا ہو گا۔
(میجر(ر) وسیم چودھری، لاہور)
محترم و مکرم مجیب الرحمن شامی صاحب،
چیف ایڈیٹر روزنامہ ”پاکستان“ لاہور
مکرمی! دو مارچ2014ءکے روزنامہ ”پاکستان“ اور ”دُنیا“ میں آپ کا کالم بعنوان ”فوج کا ٹیک اوور“ پڑھا، جس میں آپ نے لکھا ہے کہ ”آج جس دہشت گردی کی لپیٹ میں پاکستان آ چکا ہے اور جن طالبان سے لڑنے کے لئے الطاف حسین پاکستانی فوج کو یہاں تک ہلہ شیری دے رہے ہیں کہ وہ حکومت کو ٹیک اوور کر لے، یہ طالبان انہی پرویز مشرف کے فوجی دور میں ہی جوان ہوئے ہیں، انہی کے اقدامات کی بدولت ان کو شہ ملی ہے....“
محترم شامی صاحب! آپ ایسا سینئر صحافی حقائق کو یکسر نظر انداز کر کے اس قدر تکلیف دہ اور جانبدارانہ تجزیہ پیش کرے تو سر پیٹنے کو جی چاہتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کی حکومت میں متحدہ مجلس عمل کی چھ دینی جماعتیں، مسلم لیگ(ق)، ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی (شیر پاﺅ گروپ) آٹھ سال تک شامل رہیں، مگر آپ کو تنقید کرنے کے لئے صرف ایک فوجی (جنرل پرویز مشرف) ہی نظر آیا۔ سیاست دانوں اور دینی جماعتوں کو تو آپ مومن اور محب وطن سمجھتے ہیں۔عوام نے سیاست دانوں کو ملک کی ترقی اور استحکام کے لئے اسمبلی میں بھیجا۔ عوام غربت سے تنگ آ کر خود کشیاں کر رہے ہیں اور اسمبلی اراکین رنگ رلیاں کر رہے ہیں۔ قوم فوج کو نہ بلائے تو اوباما کو بلائے یا من موہن سنگھ کو آواز دے؟ آپ الطاف حسین پر خفا ہیں کہ انہوں نے فوج کے ٹیک اوور کی بات کیوں کی۔ دوسرے سینئر بزرگ صحافی نذیر ناجی صاحب جمشید دستی سے ناراض ہیں کہ وہ اسمبلی اراکین کی رنگ رلیوں اور لطف ِ زندگی میں رکاوٹ کیوں پیدا کر ر ہے ہیں۔
محترم شامی صاحب! فوج کو الطاف حسین ٹیک اوور کی دعوت نہیں دے رہے، بلکہ اسمبلی اراکین کی فحاشی، بے حیائی، کرپشن، لوٹ کھسوٹ اور بے حسی مارشل لاءکی راہ ہموار کر رہی ہے۔ نہ فوج آنا چاہتی ہے اور نہ عوام لانا چاہتے ہیں، لیکن اگر آپ سیاست دانوں کی خوشنودی کی خاطر فوج میں کیڑے نکالنے سے اجتناب نہیں کریں گے اور فوج کو مشتعل کریں گے، تو پھر.... فوج آوے ای آوے.... بقول چودھری شجاعت، فوج کو آنے کے لئے صرف دو ٹرک اور دو ٹینکوں کی ضرورت ہوتی ہے، لہٰذا میرا مشورہ ہے کہ لکھنے میں احتیاط کریں اور آخرت کا خیال کریں.... شکریہ،والسلام
الحاج عبدالغفور لودھی
203/12/B-1 ٹاﺅن شپ۔ لاہور0323-4190038
