طالبان مخصوص حالات میں مذاکرات پر آمادہ ہوئے ، امن کی صورت میں پاکستان کا مستحکم ترین ملک بن جائے گا:گراسمین
کیپشن: Grossman
واشنگٹن ( مانیٹرنگ ڈیسک)پاکستان اور افغانستان کے لیے سابق امریکی خصوصی نمائندے مارک گراسمین نے کہا ہے کہ پاکستان نے تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے کوئی پیشگی شرط عائد کرنے کی بجائے، اختتامی شرائط کو اپنے پیش نظر رکھا ہے کہ مذاکرات کی کامیابی کے بعد انہیں قانون کی حکمرانی، آئین کی پاسداری اور خواتین کے حقوق کے تحفظ سمیت دوسری چیزوں کا احترام کرنا ہوگا۔ اور طالبان کو بھی یہ علم ہے کہ مذاکرات کے اختتام پر حکومت ان سے کس چیز کی توقع رکھتی ہے۔انہوں نے یاد دلایا کہ امریکہ نے بھی جب افغانستان کے مستقبل کے سلسلے میں افغان طالبان کے ساتھ بات چیت کا دروازہ کھولا تھا، تو ہم نے بھی مذاکرات میں کوئی پیشگی شرط عائد نہیں کی تھی، بلکہ ہماری شرائط اختتامی نوعیت کی تھیں کہ آخرکار انہیں تشدد کا راستہ ترک کرنا ہوگا اور خود کو القاعدہ سے الگ کرنا ہوگا۔ امریکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیئے کہ پاکستانی طالبان نے صرف اس وقت مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی جب حکومت نے یہ کہا کہ وہ ان کے خلاف ایکشن لے گی اور پاکستان نے ان کے ٹھکانوں کو نشانہ بھی بنایا۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ طالبان ایک ایسے وقت مذاکرات کے لیے تیار ہوئے جب پاکستان کی حکومت نے اپنے عوام، اپنی سرحدوں اور اپنے مفادات کے تحفظ کا فیصلہ کیا۔انہوں نے مذاکرات کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات ڈپلومیسی کی ہی ایک شکل ہے اور بعض اوقات اس کی ضرورت پڑتی ہے۔ مارک گراسمین نے ان خیالات کا اظہار ’وائس آف امریکہ‘ کے ٹیلی ویژن شو میں اردو سروس کے سربراہ فیض رحمٰن کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایک غیرملکی کے طور پر میں یہ محسوس کر سکتا ہوں کہ پاکستانی عوام یہ سوچتے ہیں کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات سے تشدد اور دہشت گردی اور بم دھماکوں جیسے واقعات اور خوف و ہراس کی فضا میں کمی آئے گی، اگر پاکستان میں امن و امان کی صورت حال بہتر ہوجائے تو یہ ملک خطے کا سب سے زیادہ خوشحال، تیز تر ترقی کرتا ہوا ایک مستحکم ملک بن سکتا ہے۔تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے متعلق عمومی سوچ میں تبدیلی کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گذشتہ کچھ عرصے میں، بالخصوص 2012 ءکے بعد سے، پاکستانی عوام اور قیادت میں یہ تبدیلی آتی ہوئی محسوس کی ہے کہ وہ اب طالبان کو پاکستان کے لیے ایک حقیقی خطرے کے طور پر دیکھتے ہیں۔
