امریکی امداد میں مسلسل کمی حکام زیادہ بتا کر پاکستان سے غلط بیانی کرنے لگے
واشنگٹن( خصوصی رپورٹ، اظہر زمان) حقیقت یہ ہے کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں اوبامہ انتظامیہ نے پاکستان کے لئے جو مالی امداد مختص کی ہے وہ ایک بلین یا ایک ارب سے کافی کم ہے، لیکن امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے وزارتِ خارجہ کے بجٹ کے آغاز میں اپنے تعارفی بیان میں یہ مبالغہ آرائی کر دی اور میڈیا نے بجٹ کی تفصیلات پڑھے بغیر یہ سٹوری آگے چلا دی ، اصل میں سویلین اور فوجی امداد ملا کر 882ملین ڈالر سے بھی کچھ کم ہے جو پاکستانی گنتی کے مطابق 88کروڑ 18لاکھ ڈالر بنتی ہے۔ کیری لوگر بل کی پانچ سالہ مدت ختم ہونے کے بعد چونکہ اب امداد کم ہورہی ہے اس لئے وزارتِ خارجہ کے حکام نے اپنے بیانات میں اصل اعداد نہیں بتائے، تاہم یہ اعداد بجٹ کی تفصیلات میں موجود ہیں۔ روزنامہ”پاکستان“ کے واشنگٹن بیورو نے اپنی خبر میں بجٹ کی تفصیلات میں موجود یہی اعداد پیش کئے تھے۔آگے بڑھنے سے قبل 88کروڑ 18لاکھ دالر کی کل سویلین اور فوجی امداد کا بریک ڈاﺅن ملاحظہ کرلیں، اس میں ملٹری فنانسنگ کا حصہ 28کروڑ ڈالر ہے ، ملٹر ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ کے لئے 48لاکھ ڈالر مختص ہوئے ہیں، سویلین شعبوں کے لئے 44کروڑ 60لاکھ ڈالر کے علاوہ ”اکنامک سپورٹ فنڈ“ سے پاکستان کو مزید دس کروڑ ڈالر دئیے گئے ہیں۔ منشیات کے کنٹرول کے لئے چار کروڑ دس لاکھ ڈالر اور ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاﺅ اور دہشت گردی کی روک تھام کے لئے ایک کروڑ ڈالر ملیں گے۔اس بجٹ کا اطلاق آئندہ مالی سال پر ہوگا، جس کا آغاز یکم اکتوبر2014ءسے ہوگا اور اختتام 30ستمبر2015ءکو ہوگا، اب یہ ضروری نہیں کہ انتظامیہ کی یہ بجٹ تجاویز سال رواں میں جو 30ستمبر2014ءمیں ختم ہوگا پاکستان کے لئے امریکی امداد کا حجم ایک ارب 20کروڑ ڈالر تھا، جس میں 28کروڑ 12لاکھ ڈالر کا اوورسیز ہنگامی آپریشن فنڈ شامل تھا۔ موجودہ امریکی وزیرخارجہ جان کیری ،انتظامیہ میں شامل ہونے سے پہلے سینیٹر کے طور پر بھی پاکستان کے بہت بڑے ہمدرد شمار ہوتے تھے، پاکستان کے لئے خصوصی امداد کی تحریک2008ءمیں سینیٹ میں شروع ہوئی ، لیکن ”بیڈن لوگربل“ مدت ختم ہونے کے باعث ختم ہوگیا، سینیٹر جان کیری نے لوگر کے ساتھ مل کر اسے نئی شکل میں 2009ءمیں پیش کیا۔ ”کیری لوگربل“ کے نام سے جانے والے اس بل میں سالانہ ڈیڑھ ارب ڈالر کی اقتصادی امداد کا وعدہ کیا گیا تھا اور اس پیکج کی مدت پانچ سال تھی ، جو گزشتہ سال ختم ہوگئی۔ اس بل کی مزید پانچ سال توسیع ہوسکتی تھی لیکن اس کے مخالف پراپیگنڈے کے باعث اس کی تجدید نہ ہوسکی۔ سابق پاکستانی سفیر حسین تھائی نے دن رات محنت کر کے اس بل کو کامیاب کرادیا،اس دوران اس پر تنقید شروع ہوگئی کہ اس میں فوج پر کچھ پابندیاں لگائی گئی ہیں، اس وقت کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی جائزے لینے کے لئے واشنگٹن آئے، اگر دیکھا جائے تو امریکہ سمیت ہر قسم کی بیرونی امداد میں ہمیشہ کچھ شرائط ہوتی ہیں کیونکہ امداد دینے والے خیال رکھتے ہیں کہ امداد کا مقصد ختم نہ ہو، ایک شرط یہ تھی کہ امریکی امداد کو مشرقی سرحد پر بھارت کے خلاف استعمال نہیں کیا جائے گا، پاکستانی حکومت کا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا، پھر عوامی ناقدین کو بتایا گیا کہ اتنا بڑا امدادی پیکج پاکستان کو کبھی آفر نہیں ہوا، اور ان شرائط کی حیثیت محض علمی ہے کیونکہ سارا انحصار انتظامیہ کے سرٹیفکیٹ پر ہے جو اس نے بہر صورت جاری کرنے کا اشارہ دے رکھا تھا، اس پیکج کے پانچ سال کے عرصے میٰں ایک دفعہ بھی انتظامیہ نے ان شرائط پر غور نہیں کیا اور ہمشیہ بڑے اطمینان سے سرٹیفکیٹ جاری کرتی رہی، لیکن اس وقت ایسا تاثر دیا گیا جیسے پاکستان کی سالمیت کا سودا کر گیا ہے۔اب نوبت یہ آگئی ہے کہ کہاں سالانہ اقتصادی امداد ڈیڑھ ارب ڈالر ملتی ہے اور کہاں اب صرف آدھے ارب سے کچھ ہی زیادہ ہے،کیری لوگر بل کے متنازعے ہونے کے باعث پاکستا ن نے بھی مسئلہ پیدا نہیں کیا کہ اس کے آخری ایک دو سالوں میں ڈیڑھ ارب ڈالر اقتصادی امداد نہیں دی گئی، یہ معاملہ ابھی ختم نہیں ہوا، اس بل میں کئے گئے وعدے کے تحت اس پیکج کی مزید پانچ سال کے لئے توسیع ہوسکتی ہے، اس کے بانی اس وقت امریکی وزیرِ خارجہ ہیں، اس بل سے پچھلے پانچ سال میں پاکستان کو فائدہ ہی فائدہ ہوا، فوج کو کوئی نقصان نہیںہوا۔ تو سیع ہونے پر آئندہ بھی پاکستان کو کسی نقصان کا احتمام نہیں ہے۔
