ایوانِ بالا کا انتخابی دنگل
5مارچ جمعرات کو سینیٹ کی 48نشستوں پر الیکشن ہوا، سندھ سے خواتین اور ٹیکنوکریٹس کی چار نشستوں پر پیپلز پارٹی کے فاروق ایچ نائیک اور سسی پلیجواور ایم کیو ایم کے بیرسٹر سیف اور نگہت مرزا پہلے ہی کا میاب قرار پاچکے تھے۔ فاٹا کی چار نشستوں پر الیکشن رات گئے جاری ہونے والے صدارتی آرڈر کے باعث منعقد نہ ہوسکا۔ صدارتی حکم میں ابہام کی وجہ سے الیکشن کمیشن نے ان چار سیٹوں پرانتخابات روک دیئے۔
2002ء میں جنرل پرویز مشرف نے ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے فاٹا کے ہررکن قومی اسمبلی کو سینیٹ کے لئے چار، چار ووٹوں کا حق دے دیا تھا اور دلچسپ بات یہ کہ پارلیمنٹ سے توثیق کے بغیر بھی یہ آرڈیننس سالہا سال نافذ العمل رہا اور فاٹا ارکان چار ووٹ ڈالتے رہے۔ حالیہ الیکشن میں صورتِ حال یہ تھی کہ فاٹا کے گیارہ ارکانِ قومی اسمبلی نے سینیٹ کے چار ارکان کا انتخاب کرنا تھا۔ اِن میں سے 6ارکان نے اپنا کارٹل بنالیا اور اس پوزیشن میں آگئے کہ چاروں سینیٹرز کا انتخاب کرلیں(باقی 5 ارکان غیر مؤثر ہو کر رہ گئے تھے)۔الیکشن سے ایک رات قبل، نئے صدارتی فرمان نے 2002ء سے پہلے والی پرانی پوزیشن بحال کر دی، جس سے کچھ تکنیکی پیچیدگیاں پیدا ہو گئیں، چنانچہ فاٹا میں الیکشن ملتوی ہوگئے۔
نتائج کے مطابق حالیہ سینیٹ انتخابات میں مسلم لیگ(ن) نے سب سے زیادہ سیٹوں پر کامیابی حاصل کی، پنجاب اور اسلام آباد میں کلین سویپ کرتے ہوئے بلوچستان اور خیبر پختونخوا سمیت 18نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوگئی۔ موجودہ پارٹی پوزیشن کے مطابق ن لیگ کے 26 جبکہ 8نئے سینیٹرز کے ساتھ پیپلز پارٹی کے 27سینیٹرز ہیں۔ دیگر پارٹیوں کی پوزیشن کچھ یوں ہے، ایم کیو ایم 4نئے ارکان کے ساتھ 8، تحریک انصاف6، جے یو آئی (ایف) 2نئے ارکان کے ساتھ 5، اے این پی ایک نئے رکن کے ساتھ 7، قاف لیگ4، پختونخوا میپ 3، نیشنل پارٹی 3، بی این پی(عوامی) 2، بی این پی (مینگل) ایک، مسلم لیگ(فنکشنل) ایک، جماعتِ اسلامی ایک اور آزاد کی تعداد6ہے۔
پنجاب میں نون لیگ کا کلین سویپ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ میاں محمد نوازشریف اور شہباز شریف کا مسلم لیگ(ن) پر کنٹرول مضبوط ہے۔ پیپلز پارٹی کی کوشش تھی کہ ق لیگ اور کچھ ’’ناراض اراکین‘‘ کو ساتھ ملا کر پنجاب میں ندیم افضل چن کو اَپ سیٹ کامیابی دلائی جائے، لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ اگرچہ (ن) لیگ کے آٹھ اراکین صوبائی اسمبلی نے ندیم افضل چن کو ووٹ دیا اور یہ پارٹی ڈسپلن سے انحراف تھا، جس کی باقاعدہ رپورٹ وزیراعلیٰ شہبازشریف صاحب کو پیش کر دی گئی ہے، پنجاب میں صورتِ حال کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب سعودی عرب کا دورہ مختصر کر کے وطن لوٹ آئے تھے۔
سندھ کا انتخابی منظر نامہ بھی پنجاب سے مختلف نہیں تھا۔ وہاں بھی پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی نے آصف علی زرداری کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے ہوئے اپنی جماعت سے وفاداری کاعملی ثبوت پیش کیا۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی نے ایک دوسرے کی سیاسی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے کسی اپ سیٹ کو ناممکن بنا دیا۔
وفاقی دارالحکومت میں حکمران جماعت (ن) لیگ نے اپنے دونوں اُمیدوار اقبال ظفر جھگڑا اور محترمہ راحیلہ مگسی کو بآسانی کامیاب کروا لیا۔ سندھ اور پنجاب کے حوالے سے یہ باتیں ضرور سامنے آئیں کہ آصف علی زرداری پنجاب سے تعلق رکھنے والے فاروق ایچ نائیک اور رحمن ملک کو سندھ سے، جبکہ وزیراعظم نے سندھ سے تعلق رکھنے والے سلیم ضیاء اور نہال ہاشمی کو پنجاب سے منتخب کروایا۔ ایم کیو ایم نے خیبر پختونخوا کے بیرسٹر سیف اور پنجاب کے میاں عتیق کو سندھ سے منتخب کروایا۔ بلوچستان سے حکمران جماعت مسلم لیگ(ن) جو بلوچستان میں کولیشن پارٹنر ہے، کو سردار یعقوب ناصر کی شکست کا اپ سیٹ ہوا۔ بلوچستان میں ٹکٹوں کی تقسیم پر مسلم لیگیوں میں تحفظات بھی تھے۔ یعقوب ناصر جیسے وفادار ساتھی کا جس نے برے حالات میں بھی پارٹی کا ساتھ دیا، ہار جانا صدمے کی بات ہے۔(ن) لیگ کو بلوچستان سے 5نشستیں ملنے کی اُمید تھی لیکن صرف تین حاصل کر پائی۔ خیبر پختونخوا سے بھی مسلم لیگ (ن) کے دو سینیٹرز منتخب ہوئے۔
عمران خاں کی تحریکِ انصاف کو خیبر پختونخوا میں اپنے ارکانِ اسمبلی کے ایک گروپ کی بغاوت کا سنگین خطرہ درپیش تھا، لیکن یہاں عمران خان کی دھمکیاں اور پھر پشاور جا کر بیٹھ جانا کام آگیا اور انتخابی نتیجہ عمران خاں کی خواہشات کے مطابق رہا، لیکن یہاں یہ دلچسپ صورتِ حال بھی ہوئی کہ ایک خاموش مفاہمت کے تحت تحریکِ انصاف نے مسلم لیگ(ن) کے ٹیکنوکریٹ اُمیدوار کو دوسری ترجیح کا ووٹ دیا اور یوں اس کی کامیابی کو یقینی بنایا، جبکہ(ن) لیگ نے اقلیتی اور خواتین کی نشستوں پر تحریکِ انصاف کو دوسری ترجیح بنایا۔ ایک اور اہم بات یہ کہ ’’گلزار خاندان‘‘ اس بار سینیٹ کی کوئی ایک سیٹ بھی حاصل نہ کر سکا۔
اب سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کا مرحلہ درپیش ہے۔ جوڑ توڑ میں مہارت رکھنے والے آصف علی زرداری نے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے لئے صلاح مشورے شروع کر دیئے ہیں۔ سینیٹ میں پیپلز پارٹی کو حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) سے صرف ایک نشست کی برتری حاصل ہے۔ دوسری پارٹیوں کی پوزیشن دیکھتے ہوئے چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے لئے مولانا فضل الرحمن اور ایم کیو ایم بطورِ خاص اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔ حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) بھی سیاسی رابطے شروع کرچکی ہے۔ اخلاقاً تو مولانا فضل الرحمن کو حکومت کا اتحادی ہونے کے ناطے چیئرمین شپ کے لئے (ن) لیگ کے اُمیدوار کو ہی ووٹ دینا چاہئے،جبکہ اگر ایم کیوایم کو وفاق میں وزارتیں دی جاتی ہیں، تو اس کا ووٹ بھی حکمران جماعت کے پلڑے میں آسکتا ہے۔ اے این پی، جماعتِ اسلامی، بی این پی(مینگل) ، پختونخوا میپ اور نیشنل پارٹی اپنے مختصر ووٹوں کے باوجود اہم ہیں۔ چیئرمین شپ کے لئے (ن) لیگ کی طرف سے راجہ ظفرالحق، جبکہ پیپلزپارٹی کی طرف سے رحمن ملک کا نام سننے میں آ رہا ہے۔اب دیکھتے ہیں کہ ملک کے دوسرے بڑے آئینی منصب کا سہرا کِس کے سر سجتا ہے؟ *