معروف صحافی اور محقق ’’شاہد نذیر چوہدری ‘‘ کی اپنے سحر میں جکڑ لینے والی تحقیق پر مبنی سچی داستان ’’جنات کا غلام ‘‘
دوسری قسط پڑھنے کے لئے کلک کریں
”اللہ نے چاہا تو ضرور ہو گی“....فاطمہ میرے گاﺅں کی رہنے والی تھی اس کی شادی کو بارہ برس ہو چکے تھے اور اب تک اس کی گود ہری نہیں ہوئی تھی۔ اس نے کہاں کہاں سے علاج نہیں کرایا ہو گا۔ ڈاکٹر حکیم‘ پیر فقیر جدید میڈیکل ٹیسٹ.... وہ سب تجربات سے گزر چکی تھی مگر اب تک نامراد ہی تھی۔ ڈاکٹروں نے کہہ دیا تھا کہ وہ بانجھ ہے اس کی اولاد نہیں ہو سکتی۔ مگر دکھیاری امیدوں بھری تھی مایوسی کے گرداب میں آسرے تلاش کرتی پھرتی تھی۔ جب سے مجھے بابا جی کی قربت ملی تھی اور مجھ پر انکشاف ہوا تھا کہ باباجی ایک حاذق طبیب بھی ہیں تو میں نے فاطمہ بی بی کا مسئلہ ان کے سامنے رکھ دیا تھا۔ ان سے التجا کی کہ وہ اس کے لئے دوائی بنا دیں۔ ممکن ہے انسانوں کی بنائی دوائی جو کام نہ کرسکی ایک برگزیدہ جن کے ہاتھوں سے اس دکھیاری کے درد کا مداوا پر ہو جاتا۔ بابا جی نے حامی بھر لی اور میں فاطمہ کو لے کر باباجی کے پاس آ گیا‘ پھر باباجی نے اس کی دوائی بنانے کے لئے ہی مجھ سے افیون منگوائی تھی اور میں نے صرف فاطمہ بی بی کی خاطر یہ ثواب آمیز ”گناہ“ کیا تھا۔ حالانکہ جب باباجی نے نسخہ میں شامل کرنے کے لئے افیون لانے کے لئے مجھے کہا تو میں نے بہت تردد بھی کیا تھا اور پیر صاحب ریاض شاہ سے کہا تھا کہ باباجی کے لئے افیون لانا کیا مسئلہ ہو سکتا ہے وہ خود کیوں نہیں لے آتے پیر صاحب ریاض شاہ نے اس پر قدرے خفگی کا اظہار کیا اور کہا تھا
”ایک تو باباجی نے تجھ پر مہربانی کرتے ہوئے ایک قیمتی ترین دوائی بنا کر دینے کا وعدہ کر لیا ہے اوپر سے تم حجت کرتے ہو۔ بابا جی نے یہ سن لیا تو ناراض ہوں گے۔“
”پیر صاحب میرا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ میں نے کبھی یہ کام نہیں کیا۔ اس میں خطرہ ہے....“ میں نے و ضاحت پیش کی۔
”تم بابا جی سے ہی بات کرنا‘ ایک تو تمہارا کام مفت ہو رہا ہے اوپر سے باتیں بھی کرتے ہو....“ میں پیر صاحب کی ناراضگی سے اس قدر خوف زدہ ہو گیا کہ میں نے کہا ”آپ ناراض نہ ہوں سرکار....میں لے آﺅں گا....“
اس شام جب بابا جی سرکار حاضر ہوئے تو پیر صاحب نے انہیں کہا ”شاہد میاں کہتے ہیں کہ بابا جی افیون خود کیوں نہیں لے آتے....“
بابا جی نے نہایت شفیق انداز میں مجھے سمجھایا ”میاں ہم انسانی معاملات میں مداخلت کے اسقدر مجاز نہیں ہیں کہ ایسی اشیاءخریدتے پھریں۔ قانون قدرت اور احکامات جنات کے مطابق تمام نشہ آور اشیاءہم پر ممنوع ہیں۔ جیساکہ تم انسانوں پر....مگر تم لوگ قوانین الیہہ کی خلاف ورزی کرتے رہتے ہو۔ مگر ہم میں یہ تاب نہیں....لانے کو ہم لا سکتے ہیں مگر کوئی مومن جن یہ کام نہیں کر سکتا۔ ہاں....اگر اس کا عامل اسے مجبور کرے تو وہ ایسی قبیح حرکت کرتا ہے مگر اس کی ذمہ داری پھر اس کے عامل کی گردن پر ہوتی ہے۔“ باباجی نے مجھے جنات کے دائرہ عمل میں رہنے والے احکامات سے آگاہ کیا اور میں نے شرمساری سے سر جھکا کر وعدہ کیا تھاکہ یہ کام میں خود کروں گا۔
٭٭٭٭٭
میں نے موٹر سائیکل لیا اور اسی شام ملکوال سے نکلا اور غازی کی راہنمائی میں نہر کی پٹری کے راستے اپنے گاﺅں کی طرف چل دیا۔ غازی انسا نی شکل میں میرے پیچھے بیٹھا ہوا تھا۔ اس وقت وہ ایک نوجوان کی صورت میں متشکل تھا۔ غازی باباجی کا شاگرد تھا اس کی عمر 35 سال تھی اور وہ ابھی ”بچہ“ جن تھا۔ اول درجے کا شرارتی، اس کی پانچ ہاتھ زبان ہو گی یعنی اول درجہ کا باتونی۔ میں اس کی شرارتوں سے بہت محظوظ ہوتا تھا۔ وہ مجھ سے محبت کرنے لگا تھا۔ اس کی و جہ شاید یہ تھی کہ میں اس کی شرارتوں پر اس کے ساتھ شریک ہو جاتا۔ وہ آئس کریم کھانے کا شوقین تھا‘ مجھ سے پیسے لیکر آئس کریم کھانے جاتا تھا‘ بابا جی اس پر ناراض بھی ہوتے تھے۔ اس پر غازی ان سے کہتا ”بابا جی سرکار یہ ہم بھائیوں کا پیار ہے....“
باباجی مجھے کہتے‘’ میاں اسے پیسے نہ دیا کرو.... کسی دن تمہارا بیڑہ غرق کر دے گا....“ اور میں ہنس دیتا۔ مجھے غازی کی باتیں اور اس کی مجلس بہت اچھی لگتی تھی۔
مجھے آج تک یاد ہے‘ اس شام جب وہ انسانی شکل میں میرے پیچھے بیٹھا ہوا تھا‘ اس کی شرارتیں اور شوخیاں قابل دید تھیں۔ حالانکہ بابا جی نے اسے سخت تنبیہ کی تھی کہ وہ ایسی کوئی حرکت نہ کرے جس سے کسی انسان کو نقصان پہنچے یا کوئی شبہ میں مبتلا ہو جائے مگر غازی کہاں باز آنے والا تھا ابھی ہم نہر پر چڑھے ہی تھے کہ مجھ سے ضد کرنے لگا کہ میں اسے موٹر سائیکل چلانے دوں....
”کیا تم موٹر سائیکل چلا سکتے ہو....“ میں نے ہنستے ہوئے کہا
”کیوں نہیں چلا سکتا بھیا میں نے تو ایک بار موت کے گولے میں بھی موٹر سائیکل چلائی تھی۔“ وہ بولا
”کب....“ میں نے پوچھا
”ایک سال پہلے....“ وہ ہنستے ہوئے بولا‘ ”ملک شاہ ولی کے دربار پر میلہ لگا ہوا تھا۔ وہاں سے چاہ جگیاں زیادہ دور نہیں میرا پورا قبیلہ وہاں رہتا تھا۔ میں میلے کی رونقیں دیکھنے جاتا تھا۔ ماں باپ بہت منع کرتے تھے کہ ابھی تمہاری بہت کم عمر ہے باہر نہ جایا کرو....مگر میں ضد کر کے چوری چھپے چلا جاتا۔ ملک شاہ کے دربار پر میرے ماں باپ ڈیوٹی دیتے تھے اور ان کا اپنا اثر بھی تھا۔ میں میلے میں چلا جاتا۔ ادھر موت کے گولے میں موٹر سائیکل سوار کو دیکھتا تو مجھے بہت اچھا لگتا۔ موٹر سائیکل ایک مخنث چلاتا تھا۔ میں انسانی روپ میں اس سے ملا اور اس سے کہا کہ مجھے بھی یہ کام سکھا دو....وہ مجھ سے بہت متاثر ہوا اور اس نے مجھے موٹر سائیکل چلانا سکھا دی۔ پھر ایک روز جب ابھی شو شروع نہیں ہوا تھا مگر لوگ گولے کے باہر جمع ہو چکے تھے‘ میرے دل میں نہ جانے کیا آیا کہ میں نے غیبی حالت میں موٹر سائیکل چلا دی۔ موٹر سائیکل گولے میں دوڑ رہی تھی مگر اس پر سوار نظر نہیں آ رہا تھا....پہلے تو لوگ اسے شعبدہ سمجھے مگر جب گولے والوں نے یہ منظر دیکھا تو و ہ پریشان ہو گئے اور شور مچانے لگے کہ موٹر سائیکل کون چلا رہا ہے۔ بس ان کا یہ کہنا تھا کہ شور مچ گیا ادھر میری شوخی اتنی بڑھ گئی کہ میں نے موٹر سائیکل کی رفتار راکٹ سے تیز کر دی اور پھر موٹر سائیکل کو چلتی حالت میں چھوڑ کر بھاگ گیا۔ موٹر سائیکل ہوا میں اڑنے لگی اور گولے کی فولادی دیواروں سے ٹکرا کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی یہ دیکھ کر لوگ بھاگے اور ایک دوسرے کے اوپر گرنے سے زخمی ہو گئے ‘ یہ شور مچ گیا کہ کسی جن نے یہ حرکت کی ہے۔ یہ خبر میرے ماں باپ تک پہنچ گئی اور انہیں یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی۔ بھیا....اس روز میری بہت ٹھکائی ہوئی تھی۔
میں غازی کی بات سن کر ہنسنے لگا۔ ”اور آج تم ایک بار پھر یہ حرکت کرنا چاہتے ہو۔بابا میں یہ رسک نہیں لے لگتا “
مگر اب تو میں سیانا ہو گیا ہوں‘ باباجی سرکاری سے اتنی مار کھاتا ہوں کہ اب عقل آنے لگی ہے....“
غازی کی باتیں سنتے سنتے سفر خیریت سے کٹ گیا عشاءکے وقت گاﺅں پہنچ گیا۔ راستے میں البتہ ایک دلچسپ واقعہ ہوا تھا۔ جب ہم گاﺅں کے قبرستان کے پاس سے گزرنے لگے تو آوارہ کتوں کے ایک غول نے ہماری موٹر سائیکل کو گھیر لیا۔ مگر دوسرے ہی لمحے وہ بری طرح چیخنے چلانے لگے اور خوف زدہ ہو کر بھاگ گئے تھے۔ غازی کہنے لگا‘ ”انہوں نے اب مجھے پہچان لیا ہے۔ شاید تم نہیں جانتے‘ کتوں بلیوں‘ الوﺅں حتٰی کہ گدھوں کو بھی جنات کے وجود کی خبر ہو جاتی ہے اور وہ انہیں دیکھ کر گھبرا جاتے ہیں....“ غازی مجھے چھوڑ کر واپس چلا گیا۔ میں رات گئے تک پرچے کی تیاری کرتا رہا۔ پچھلے تین دن سے....یعنی جب سے میں ملک وال گیا تھا وہاں پڑھنے کا موقع ہی نہیں مل سکا تھا۔ میں تو یہ سوچ کر اپنے دوست کے پاس پڑھنے گیا تھا تاکہ اپنی سوشل زندگی کی گہماگہمیوں سے بچ کر بی اے کے امتحان کی تیاری کر سکوں گا مگر مجھے کیا معلوم تھا کہ مجھے وہاں جنات کی دنیا سے متعارف ہونا پڑے گا اور میری زندگی ایک ایسے راز کائنات سے آشنا ہو جائے گی جس کو پانے کے لئے لوگوں کی عمریں گزر جاتی ہیں۔
٭٭٭٭
ہر انسان کی زندگی ناگہانی واقعات سے بھری ہوتی ہے۔ کوئی خوش قسمت کوئی بدبخت ہی ہو گا جسے اتفاقات زمانہ کے ہاتھوں سخت قسم کے تجربات سے نہ گزرنا پڑتا ہو گا ورنہ ہماری دنیا میں اربوں انسانوں کو یقیناً زندگی میں ایک آدھ ایسے معجزاتی‘ غیر مرئی‘ غیر حقیقی واقعات سے واسطہ پڑا ہو گا۔ میں بھی ان میں سے ایک تھا۔ اس وقت تو میں خود کو خوش قسمت ہی تصور کرتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی پوشیدہ کائنات کے باسیوں سے متعارف کرا دیا ہے اور مجھ پر یہ حقیقت روشن کر دی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہر حال میں حق ہے۔ اس نے جو اس میں شبہ کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ ہم مسلمان تو باالغیب ایمان پر اطاعت کرتے ہیں۔ پرکھوں سے مسلمان ہیں تو اس روایت پر چلتے رہتے ہیں۔ نمازیں‘ روزے‘ اور اخلاقی تعلیمات ہمارے مسلمان ہونے کا یقین دلاتے ہیں۔ بے شک اسی میں ہماری نجات اور فلاح ہوتی ہے اور ایک مسلمان کی حیثیت میں ہمیں عبادات الہٰی سے غافل نہیں ہونا چاہئے۔ مگر ذرا سوچئے .... کتنے مسلمان ہیں جو ایمان بالغیب کے باوجود گمراہی کی زندگی گزارتے ہیں۔ قرآن کریم میں شیطان اور جنات کو بطور ایک مخلوق ہم انسانوں سے متعارف کرایا گیا لیکن ہم جنات کے وجود سے غافل اور انکاری ہوتے ہیں۔ میں بھی ان میں سے ایک تھا مگر جب بابا جی سرکار اور غازی کے علاوہ ان کے درجنوں جنات ساتھیوں اور کارکنوں حتیٰ کہ بابا جی سرکار کے پیر و مرشد بڑے حاجی صاحب سے ملاقاتیں ہونے لگیں تو میرا ایمان اس غیبی مخلوق کی حقیقت جاننے کے بعد بہتر ہو گیا۔ میں نے ان جنات کو انسانی شکلوں میں دیکھا‘ اپنے قریب پایا‘ انہیں چھوا‘ ان کے انسانی و جناتی خدوخال کا تجزیہ کیا‘ انہیں کھانے اور پھل کھلائے‘ ان کے کاندھے سے کاندھا ملا کر چلتا رہا۔ ویرانوں اور آبادیوں میں ان کے تجربات و مشاہدات اور معمولات دیکھتا رہا۔ ان سے حکایات زمانہ اور تاریخ کے المناک اور دلچسپ واقعات سنتا رہا۔ وہ اپنی محفلیں سجاتے قرآن پاک کی تلاوت سے وجد کا سماں باندھ دیتے‘ شب ان سے نعتیں سنتے گزر جاتی‘ سحری کا تارہ ان کا عبادات میں استغراق دیکھتے ساکت ہو جاتا۔ جنات سے میری بیس روز تک کی ان ملاقاتوں میں لگا بیس صدیاں گزار بیٹھا ہوں۔ ان کے گزرے ایک ایک پل کی ہر ساعت آج بھی میرے قلب و نظر کو عجیب شانتی سے روشناس کراتی ہے اور میں سرسجدے میں گرا کر خالق حقیقی کی خالقیت‘ ابدیت اور اس کے نظام قدرت پر تسبیح شروع کر دیتا ہوں۔ واللہ خالق العظیم‘ وہی تو ہے رب الملائکہ‘ رب الانس‘ رب الجن‘ جب اس نے کہا کہ وہی ذات بالا و برترہے جو پتھر میں کیڑے کو رزق دیتی ہے۔ تو جنات ان کیڑوں سے بہت بالا مخلوق ہے‘ لوگ کہتے ہیں کہ کبھی ہو گی یہ مخلوق مگر اب نہیں ہے۔ اربوں کھربوں انسانوں کے درمیان جنات کہاں بسیرا کرتے ہیں۔ ایک زمانے میں جب دنیا میں انسان کم تھے جنات کی آبادیاں ہوں گی مگر آنکھوں دیکھی ہوئی حقیقت ان پر بھی منکشف ہو جاتی تو وہ چلا چلا کر اس مخلوق کے وجود کی حقیقت کے بارے میں بتاتے پھرتے کہ ارے‘ یہ مخلوق ابھی باقی ہے اور زمین و آسمان کے درمیان‘ ویرانوں پہاڑوں‘ سمندروں‘ جنگلوں اور انسانی آبادیوں میں مقیم ہے۔ ان کی اپنی زندگی ہے۔ معمولات اوقات ہیں‘ ان کے ہاں بھی انسانوں جیسی اختراعات‘ عبادات‘ قبائل‘ رسم و رواج‘ اچھائیاں‘ برائیاں اور ثقافتیں موجود ہیں۔ مگر یہ سب دیکھنا‘ کہنا سننا اور پھر باور کرانا بہت دشوار ہے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے جب غازی مجھے گھر تک چھوڑنے آیا تھا تو میں نے ساری رات پڑھنے کی بجائے انہی خواب و خیال میں گزار دی تھی۔ میرا ذہن بار بار بابا جی سرکار‘ غازی اور مکھن سائیں کی طرف چلا جاتا تھا۔ ہوا کا ایک جھونکا اگر کسی پردے کو ہلکا سا سرکاتا تو مجھے یہی گماں ہوتا کہ غازی یا باباجی میں سے کوئی آیا ہے تو میں بے ساختہ آنکھیں بند کر لیتا‘ کبھی نیم وا اور دزدیدہ نظروں سے اپنے ماحول کا جائزہ لینے لگ جاتا اور دل میں درود پاکﷺ پڑھنے لگتا تھا۔ مگر وہ ہوا کا جھونکا‘ پردوں کا ہلنا‘ روشنی کا دیواروں پر لہرانا سب معمولات میں شامل تھا۔ میں اس رات ڈرتا رہا‘ سہم کر چارپائی پر سکڑ کر بیٹھ جاتا‘ کبھی متجسس نظروں سے اردگرد دیکھنے لگتا‘ انگریزی کی کتاب میرے ہاتھوں میں کھلی تھی مگر ایک انجانا خوف تھا یا بے کلی‘ میں دلجمعی سے پڑھ نہ سکا اور پھر رات خوب گزر چکی تو‘ فضا میں خنکی اور تازگی کا احساس ابھرا آسمان روشن ستاروں سے بھر گیا۔ ماحول میں نورانیت اور روحانیت کا پہرہ بڑھ گیا تو میرا خوف اکارت گیا۔ میرے اندر بے خوفی پیدا ہوئی اور ایک معمول کی طرح اٹھا۔ وضو کیا اور نماز تہجد ادا کی اور پھر سو گیا۔ بڑی میٹھی اور خوشبودار نیند آئی تھی۔ مجھے لگا جیسے میرا بستر گلستان میں بچھا ہوا ہے۔ رنگ برنگے پرندے جہاں چہچہا رہے ہیں اور پھولوں کی خوشبوﺅں سے فضا مہک رہی ہے۔
صبح سات بجے والدہ نے مجھے اٹھایا۔ ”اٹھو دیر ہو رہی ہے۔ آٹھ بجے تمہارا پیپر شروع ہو جانا ہے اور تم ابھی تک سوئے پڑے ہو“
میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ مجھے امتحان دینے کے لئے سیالکوٹ شہر جانا تھا۔ علامہ اقبال کالج میں میرا سنٹر بنا تھا۔
(جاری ہے)