پٹھان کون؟بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والی شجاع قوم کی چونکا دینے والی تاریخ ۔۔۔دوسری قسط

جیسا کہ عرض کیا ہے پٹھانوں کی اصلیت جاننے کے لئے اس کا پس منظر جاننا ضروری ہے ،یہ جان لیں۔۔۔مملکت اسرائیلیہ کا پہلا جتھہ اشوری پال یا پلول کے ہاتھوں جلا وطن ہوا تھا۔ یہ واقع ۷۷۱ برس قبل مسیح پیش آیا تھا۔ ان جلاوطنوں میں روبن اور جد کے صرف دو قبیلے تھے۔ ان دنوں حکومت اسرائیلیہ کا بادشاہ ناحم تھا اور یہودیہ سلطنت کا بادشاہ غریا تھا۔
۷۲۱ ق م میں اسرائیلیہ حکومت کا آخری بادشاہ ہوسیع تھا جس پر نینوا کے شاہ اشور نے حملہ کیا اور شورون (سامریہ) کا محاصرہ کر لیا۔ اس محاصرے نے تین سال تک طول کھینچا۔ چوتھے سال شورون(شارون) پر قبضہ ہوگیا اور اسرائیل بادشاہ ہوسیع کو قید کر لیا گیا۔ اس قبضے میں جتنے اسرائیلی ہاتھ آئے تھے اشور انہیں نینوا لایا اور پھر مشرق کی طرف ایران اور خراساں وغیرہ علاقوں میں اور دریائے سندھ کی وادی تک میں لا کر آباد کر دیا۔
پٹھان کون؟بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والی شجاع قوم کی چونکا دینے والی تاریخ ۔۔۔پہلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اسرائیلیہ کے بعد اشوری بادشاہ شرجون ثانی کو یہودیہ پر حملہ کرنے کا براہ راست موقع مل گیا اور چند سال چھیڑ چھاڑ کے بعد یہودا کا بادشاہ حزقیا اس کا باج گزار بن گیا۔ لیکن کچھ عرصہ بعد اس نے خراج دینے سے انکار کر دیا اور مقابلہ کرنے پر آمادہ ہوگیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اشوریہ کے بادشاہ سترجون ثانی اور اس کے جانشنین سخیرب نے لشکر کشی کرکے یروشلم کا محاصرہ کر لیا۔ اس جنگ میں حزقیا کو گرفتار کرکے قتل کر دیا گیا اور اس کی جگہ اس کے لڑکے کو تخت نشین کرکے سخیرب نے اپنا باجگزار بنا لیا۔
تاریخ شام کے مطابق سخیرب کا دعویٰ ہے کہ اس جنگ میں اس نے دو لاکھ ایک سو پچاس یہودیوں کو قیدی بنایا۔ اشوری بادشاہ نے حسب سابق ان قیدیوں کو بھی مشرق کی طرف جلاوطن کر دیا اور خراسان وغیرہ میں جہاں جہاں پہلے دس اسرائیلی جلاوطن قبائل آباد کئے گئے تھے وہیں انہیں بسا دیا گیا۔ ان نووارد قیدیوں میں زیادہ تر تعداد بنی پخت کی تھی جو علاقہ موآب، شرق اردن میں آباد تھے۔ اس واقعہ کے بعد سلطنت یہودیہ مزید کمزور ہوگئی اور وہ نینوا کے آگے جھکی رہی اور باقاعدگی سے خراج ادا کیا جاتا رہا۔ یہاں تک کہ نینوا والوں کے وارث اہل بابل نے ۵۹۷ قبل مسیح میں یروشلم پر حملہ کرکے اسے فتح کر لیا۔ انہوں نے بادشاہ یہودا کے بیٹے صدقیا کو تخت پر بٹھا کر اسے اپنا باجگزار بنا لیا۔ اہل بابل یہودیہ سے دس ہزار قیدیوں کو ان کے بال بچوں سمیت بابل لے گئے۔ صدقیا بادشاہ یہودا کئی سال تک تو بخت نصر کا وفادار رہا اور پابندی کے ساتھ خراج ادا کرتا رہا لیکن پھر اس نے اپنی آزادی اور استقلال کا پرچم لہرایا جس پر بخت نصر نے طیش میں آکر اس پر فوج کشی کرکے یروشلم کو تباہ و برباد کردینے کا مصمم ارادہ کر لیا۔ اس نے یروشلم کا محاصرہ کر لیا۔ اس محاصرے نے پندرہ ماہ تک طول کھینچا بالآخر بخت نصر کو کامیابی حاصل ہوئی یروشلم فتح ہوگیا۔ ہیکل(مسجد) کو تباہ کر دیا گیا۔ صدقیا کو گرفتار کرکے اس کے سامنے اس کے بیٹوں کو قتل کیا گیا پھر اس کی آنکھیں نکالی گئیں اور اسے قید کرکے بابل لے جایا گیا۔ بخت نصر ایک لاکھ سے زیادہ یہودیوں کو قیدی بنا کر بابل لے گی اور انہیں ایران اور بابل کے آس پاس آباد کیا جہاں وہ تقریباً ستر برس تک گلامی کے عذاب میں مبتلا رہے۔ اس دوران میں بہت سے یہودی ادھر ادھر کے علاقوں میں بھاگ گئے۔ ان حوادث کی وجہ سے فلسطین میں یہودیوں کی تعداد بہت تھوڑی رہ گئی۔ مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی لکھتے ہیں:
’’برائی کا نتجیہ یہ نکلا کہ بخت نصر، خدا کا عذاب بن کر چڑھ آیا اور ایک لاکھ سے زیادہ بنی اسرائیل کو غلام بنا کر بکریوں کے گلے کی طرح ہنکا لے گئی اور بیت المقدس جیسے خوب صورت اور مقدس شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔‘‘ (قصص القرآن جلد سوم)
سید سراج الاسلام کہتا ہے ’’بابلیوں نے یہودیوں کے شہروں کو تباہ و برباد کر ڈالا۔لاکھوں یہودی مارے گئے اور لاکھوں یہودیوں کو قیدی بنا کر بابل لے جایا گیا۔‘‘ حوالہ (عہد قدیم صفحہ ۵۳۳)
نینوا کے اشوری
اشوری قدیم سامی نسل سے تعلق رکھتے تھے اور اسرائیلی سلطنت کے ماتحت تھے لیکن اندرونی طور پر وہ دریائے دجلہ کے بالائی حصہ میں آزادی اور اندرونی خود مختیاری کی زندگی بسر کر رہے تھے ۔بنی اسرائیل کے آپس کے اختلاف اور طوائف الملوکی کو دیکھ کر انہیں ان حالات سے فائدہ اٹھانے کا خیال پیدا ہوا۔ انہوں نے اپنی طاقت کو منظم کیا اور گردو نواح کے علاقوں کو تاراج کرنا شروع کیا۔ اس میں انہیں بڑی کامیابی ہوئی۔ ہر طرف وحشت و بربریت کا بازار گرم کر دیا۔ انہیں جن لوگوں کی طرف سے مخالفت کرنے یا سدراہ بننے کا خطرہ پیدا ہوتا اسے گرفتار کرکے اس کے اعضاء الگ الگ کرتے یا انہیں پنجروں میں بند کرکے لٹکا دیتے اور طرح طرح کے عذاب دے کر ہلاک کرتے۔ ان کی وحشت و بربریت سے لوگوں کے دلوں پر خوف طاری ہوگیا تھا۔ اشوری پہلی قوم ہے جس نے فن حرب کو ترقی دے کر فوج کی تنظیم کی اس کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا۔ گھوڑسواروں پر رسالہ منظم کیا۔ لوہے کے ہتھیاروں، تیر کمان، بھالے ، تلواروں اور فصیلوں کو گرانے کے لی منجنقیں ایجاد کیں اور سرنگوں وغیرہ کا استعمال کیا۔ وادی دجلہ، فرات کی سر زمین، بابلیہ، ایلام، ایشیائے کوچک کے مشرقی حصے، آرمینیہ، سامریہ، یہودیہ، ایران، خراسان اور دریائے سندھ کی وادی، یہ تمام علاقے مدتوں تک اشوری بادشاہوں کی تاخت و تاراج کا میدان اور تختہ مشق بنے رہے۔ یہاں کے بادشاہ اور حاکم اشوری بادشاہوں کو خراج دیتے تھے اور جہاں کوئی بادشاہ سر اٹھانے کی جرات اور سرکشی کا ارادہ کرتا اس پر فوج کشی کرکے اسے سخت ترین سزا دی جاتی تھی۔
اشوریوں کازوال
۶۱۲ قبل مسیح میں ایران کے مودی (میدی، مادی) سردار سیاک سیر نے جس کا دوسرا نام اوآکیشتر(کھشتری) ہے بابل کے حکمران قبائل کی مدد سے نینوا پر چڑھائی کرکے اشوریوں کی فوج کا خاتمہ کر دیا۔ شاہی خاندان کے افراد کو نیست و نابود اور ملک کو تہس نہس کر دیا۔
بابل والوں کا عروج و زوال
اہل بابل نو بابلی یا کلدانی قوم سے ایک ہی قوم مراد ہے۔ اشوریوں کے زوال کے باعث بابل والوں کو اپنا حلقہ اقتدار اور حدود مملکت وسیع کرنے کا موقع مل گیا۔ نیو پلیسر نے جو جنوبی عراق کے دلدلی علاقے کا قبائلی سردار تھا ۶۲۶ ق م میں بابل میں نئے شاہی خاندان کی بنیاد رکھی۔ ان قبلیوں نے اشوریوں کے خلاف ایران کے مادیوں کی مدد کی تھی۔ بخت نصر اسی نیو پلیسر کی اولاد میں تھا وہ زبردست فاتح اور صاحب شان و شوکت بادشاہ تھا۔ اس کے بعد بابل کے تخت پر چار بادشاہ بیٹھے۔ آخری بادشاہ بخت نصر کا پوتا بال شارز تھا۔ ایک مرتبہ وہ جشن منا رہا تھا اور شراب کا دور چل رہا تھا کہ دیوار پر ایک غیبی ہاتھ کچھ لکھتا ہوا نظر آیا۔ اس کا مطلب یہ لیا گیا کہ پارسی بادشاہ اس کی حکومت کا خاتمہ کر دیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ظہور میں آیا۔ ۵۵۰ ق م میں سائرس ایرانی نے بابل پر حملہ کرکے بابلی سلطنت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیا خسرو اعظم کا ذکر بائبل کے عہد نامہ عتیق میں مرقوم ہے۔ مسلمانوں کی آسمانی کتاب قرآن میں اسی مذکورہ بادشاہ کو ذوالقرنین ظاہر کیا گیا ہے اور بنی اسرائیل کے انبیاء علیہم السلام کے صحیفوں میں اسے نجات دہندہ کہا گیا ہے۔ (واضح ہو کہ سائرس، خورس، کورش، اخویرس، خسرو، یہ سب ایک ہی شخص کے مختلف نام ہیں)۔
جیسا کہ قرائن سے ظاہر ہے سیاست میں ان اسرائیلی جلاوطنوں کو بڑا دخل تھا چنانچہ میدیوں اور خورس کی سلطنت کے قیام میں انہیں کا ہاتھ تھا۔ اشوریوں کے خلاف میدیوں کو جنگ پر آمادہ کرانے اور پھر بابلیوں سے انتقام لینے کے جذبات بھی رکھتے تھے اور اس سلسلے میں ان کو کسی حد تک کامیابی بھی حاصل ہوئی۔ چنانچہ درپردہ بابل سے اسرائیلی سرداروں کا ایک وفد خورس کے پاس اس وقت پہنچا جب کہ وہ اپنی مشرقی مہم میں مصروف تھا۔ خورس(سائرس) نے ان کا خیر مقدم کیا اور ان کو اطمینان دلایا کہ وہ اپنی مہم سے فارغ ہو کر ضرور بابل پر حملہ کرے گا اور ان کا بابل کے ظالم اور عیاش بادشاہ سے نجات دلائے گا۔ خورس جب اپنی مہم سے فارغ ہوگیا۔ تو حسب وعدہ اس نے بابل پر حملہ کر دیا اور دیتاؤں کی قدیم ترین ریاست کو ایران کی سلطنت میں شامل کر لیا۔
جاری ہے۔ تیسری قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
پٹھانوں کی تاریخ پر لکھی گئی کتب میں سے ’’تذکرہ‘‘ ایک منفرد اور جامع مگر سادہ زبان میں مکمل تحقیق کا درجہ رکھتی ہے۔خان روشن خان نے اسکا پہلا ایڈیشن 1980 میں شائع کیا تھا۔یہ کتاب بعد ازاں پٹھانوں میں بے حد مقبول ہوئی جس سے معلوم ہوا کہ پٹھان بنی اسرائیل سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے آباو اجداد اسلام پسند تھے ۔ان کی تحقیق کے مطابق امہات المومنین میں سے حضرت صفیہؓ بھی پٹھان قوم سے تعلق رکھتی تھیں۔ یہودیت سے عیسایت اور پھر دین محمدیﷺ تک ایمان کاسفرکرنے والی اس شجاع ،حریت پسند اور حق گو قوم نے صدیوں تک اپنی شناخت پر آنچ نہیں آنے دی ۔ پٹھانوں کی تاریخ و تمدن پر خان روشن خان کی تحقیقی کتاب تذکرہ کے چیدہ چیدہ ابواب ڈیلی پاکستان آن لائن میں شائع کئے جارہے ہیں تاکہ نئی نسل اور اہل علم کو پٹھانوں کی اصلیت اور انکے مزاج کا ادراک ہوسکے۔