عقیدۂ ختم نبوت کی اہمیت و ضرورت

عقیدۂ ختم نبوت کی اہمیت و ضرورت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


عقیدۂ ختم نبوت کا تحفظ ہر مسلمان کی ذمہ داری، اس کے ایمان کا تقاضہ، آخرت میں حصول جنت اور شفاعتِ رسول ﷺ کا ذریعہ ہے۔ قرون اولیٰ سے لے کر آج تک پوری امت مسلمہ کا اجماع چلا آرہا ہے کہ حضور اکرمﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کفر ہے ،بلکہ امام اعظم امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا تو یہ فتویٰ ہے کہ حضور خاتم الانبیاء ﷺ کے بعد مدعی نبوت سے دلیل طلب کرنا یا معجزہ مانگنا بھی کفر ہے، اس سے عقیدۂ ختم نبوت کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیقؓ اور دیگر صحابہ کرامؓ نے عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے لئے جو عظیم قربانیاں دیں وہ تاریخ کے روشن صفحات میں موجود ہیں۔۔۔ دین کی تکمیل کا مطلب یہ ہے کہ یہ دین اب قیامت تک باقی رہے گا، اب اس میں کسی تبدیلی، کسی اضافے یا کسی ترمیم کی گنجائش نہیں۔ لہٰذا جب دین مکمل ہوچکا ہے تو انبیاء کرام علیہم السلام کی بعثت کا مقصد بھی مکمل ہوچکا، لہٰذا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعداب نہ کسی نبی کی ضرورت ہے اور نہ کسی نبی کی گنجائش۔ لہٰذا آپ کی رسالت کے ساتھ ساتھ آپ کی ختم نبوت کا بھی اعلان کردیا گیا اور نبوت و انبیا کا جو سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا تھا، وہ سلسلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کردیا گیا۔ حضرت محمد مصطفی ، احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری نبی ہیں، آپؐ کے بعد قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا، آپ پر جو کتاب نازل ہوئی قرآن کریم وہ اللہ کی آخری کتاب ہے اس کے بعد کوئی کتاب نازل نہیں ہوگی اور آپ کی امت آخری امت ہے جس کے بعد کوئی امت نہیں۔


انیسویں صدی کے آخر میں بے شمار فتنوں کے ساتھ ایک بہت بڑا فتنہ ایک خود ساختہ نبوت قادیانیت کی شکل میں ظاہر ہوا۔مرزا غلام احمد قادیانی کے کفریہ عقائد و نظریات اور ملحدانہ خیالات سامنے آئے تو علمائے کرام نے اس کا تعاقب کیا اور اس کے مقابلے میں میدان عمل میں نکلے ۔ مرزا قادیانی کے فتنے سے نمٹنے کے لئے انفرادی اور اجتماعی سطح پر جو کوششیں کی گئیں ان میں بڑا اہم کردار علمائے دیوبند کا ہے ، بالخصوص حضرت علامہ انور شاہ کشمیری ؒ اور امیر شریعت سید عطا اللہ شاہ بخاریؒ کی خدمات اور مساعی اس سلسلے میں امت مسلمہ کے ایمان کے تحفظ و بقاء کا سبب ہیں ۔ علامہ سیّد انور شاہ کشمیریؒ گویا اس فتنے کے خاتمے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور تھے، اس فتنے کے لئے وہ ہمیشہ بے چین و بے قرار رہتے۔ امام العصرحضرت مولانا انور شاہ کاشمیری ؒ نے خود بھی اس موضوع پر گرانقدر کتابین تصنیف کیں بعد میں اپنے شاگردوں کو بھی اس کام میں لگایا، جن میں مولانا بدر عالم میرٹھی ؒ ، مولانا مرتضیٰ حسن چاند پوری ، مولانا مناظر احسن گیلانی ، مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ ، مولانا محمد علی جالندھری، مولانا محمد یوسف بنوری، ، مولانا محمد منظور نعمانی ؒ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ جدید طبقہ تک اپنی آواز پہنچانے کے لئے مولانا ظفر علی خانؒ اور علامہ محمد اقبالؒ کو تیار و آمادہ کیا۔حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ نے اس کام کو باقاعدہ منظم کرنے کے لئے تحریک آزادی کے عظیم مجاہد حضرت مولانا سیّد عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کو امیر شریعت مقرر کیا اور انجمن خدام الدین لاہور کے ایک عظیم الشان جلسہ میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کی، اس اجلاس میں پانچ سو جید اور ممتاز علماء و صلحا موجود تھے، ان سب نے حضرت سیّد عطاء اللہ شاہ بخاری کے ہاتھ پر بیعت کی۔

امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ نے تحریک آزادی کے بعد عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دیا، قید وبند کی صعوبتوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا اور پورے ملک میں بڑھاپے اور بیماری کے باوجود جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے قادیانیت کے کفر کو بے نقاب کر کے نسل نو کے ایمان کی حفاظت میں اہم کردار ادا کیا، امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے ستمبر 1951 ء میں کراچی میں عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھاکہ:تصویر کا ایک رخ یہ ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی میں یہ کمزوریاں اور عیوب تھے، اس کے نقوش میں توازن نہیں تھا۔ قدوقامت میں تناسب نہیں تھا، اخلاق کا جنازہ تھا، کریکٹر کی موت تھی، سچ کبھی نہیں بولتا تھا، معاملات کا درست نہیں تھا، بات کا پکا نہیں تھا، بزدل اور ٹوڈی تھا، تقریر و تحریر ایسی ہے کہ پڑھ کر متلی ہونے لگتی ہے ،لیکن میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ اگر اس میں کوئی بھی کمزوری نہ ہوتی، وہ مجسمہ حسن و جمال ہوتا ، قویٰ میں تناسب ہوتا،چھاتی45 انچ کی، کمر ایسی کہ سی آئی ڈی کو بھی پتہ نہ چلتا، بہادر بھی ہوتا، کریکٹر کا آفتاب اور خاندان کا ماہتاب ہوتا، شاعر ہوتا، فردوسی وقت ہوتا، ابوالفضل اس کا پانی بھرتا، خیام اس کی چاکری کرتا، غالب اس کا وظیفہ خوار ہوتا،انگریزی کا شیکسپیئر اور اردو کا ابوالکلام ہوتا پھر نبوت کا دعویٰ کرتا تو کیا ہم اسے نبی مان لیتے؟ میں تو کہتا ہوں کہ اگر حضرت علی کرم اللہ وجہہ دعویٰ کرتے کہ جسے تلوار حق نے دی اور بیٹی نبی ﷺ نے دی، سیدنا ابوبکر صدیقؓ ، سیدنا عمر فاروقؓ اور سیدنا عثمان غنیؓ بھی دعویٰ کرتے تو کیا بخاری انہیں نبی مان لیتا؟ نہیں ہرگز نہیں، میاں! آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کائنات میں کوئی انسان ایسا نہیں جو تخت نبوت پر سج سکے اور تاج نبوت و رسالت ؐ جس کے سر پر ناز کرے۔


حضرت مولانا سیّد انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ تو ختم نبوت کے کام کو اپنی مغفرت کا سبب بتایا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ: ’’اگر ہم ختم نبوت کا کام نہ کریں تو گلی کا کتا ہم سے بہتر ہے‘‘۔۔۔ حضرت علامہ شمس الحق افغانی ؒ فرماتے ہیں کہ جب حضرت انور شاہ کشمیری ؒ کا آخری وقت تھا کمزوری بہت زیادہ تھی ، چلنے کی طاقت بالکل نہیں تھی ، فرمایا کہ مجھے دارالعلوم دیوبند کی مسجد میں پہنچا دیں ، اس وقت کاروں کا زمانہ نہیں تھا ایک پالکی لائی گئی ،پالکی میں بٹھا کر حضرت شاہ صاحب کو دارالعلوم کی مسجد میں پہنچا دیا گیا ، محراب میں حضرت کی جگہ بنائی گئی تھی وہاں پر بٹھا دیا گیا تھا ، حضرت کی آواز ضعف کی وجہ سے انتہائی ضعیف تھی ۔ تمام شاگرد حضرت انور شاہ کشمیر ی ؒ کے ارداگردہماتن گوش بیٹھے تھے آپ نے صرف دو باتیں فرمائیں ، پہلی بات تو یہ فرمائی کہ تاریخ اسلام کا میں نے جس قدر مطالعہ کیا ہے اسلام میں چودہ سو سال کے اندر جس قدر فتنے پیدا ہوئے ہیں ، قادیانی فتنے سے بڑا فتنہ اور سنگین فتنہ کوئی بھی پیدا نہیں ہوا۔دوسری بات یہ فرمائی حضور اکرمﷺ کو جتنی خوشی اس شخص سے ہو گی جو اس کے استیصال کے لئے اپنے آپ کو وقف کرے گا تو رسول اکرم ﷺ اس کے دوسرے اعمال کی نسبت اس کے اس عمل سے زیادہ خوش ہوں گے اور پھر آخر میں جوش میں آکر فرمایا ! جو کوئی اس فتنے کی سرکوبی کے لئے اپنے آپ کو لگا دے گا ، اس کی جنت کا میں ضامن ہوں۔

علامہ انور شاہ کشمیریؒ اپنے شاگردوں سے عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ اور ردِ قادیانیت کے لئے کام کرنے کا عہد لیا کرتے تھے اور فرماتے تھے : ’’جو شخص قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن شفاعت سے وابستہ ہونا چاہتا ہے وہ قادیانی درندوں سے ناموس رسالت کو بچائے‘‘۔۔۔حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے: ’’ختم نبوت کا کام کرنے والوں کی حیثیت ذاتی باڈی گارڈ کی ہے، ممکن ہے دوسرے کام کرنے والے حضرات کا درجہ و مقام بلند ہو، لیکن بادشاہ کے سب سے زیادہ قریب اس کے ذاتی محافظ ہوتے ہیں اور بادشاہ کو سب سے زیادہ اعتماد بھی انہی ذاتی محافظوں پر ہوتا ہے، اس لئے جو لوگ ختم نبوت کا کام کرتے ہیں، وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ قریب ہیں اور آپﷺ کو سب سے زیادہ ان پر اعتماد ہے‘‘۔

حضرت مولانا خواجہ خان محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے: ’’نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، تبلیغ اور جہاد جیسے فرائض کا تعلق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال سے ہے اور ختم نبوت کا تعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارک سے ہے، ختم نبوت کی پاسبانی براہِ راست ذات اقدس کی خدمت کے مترادف ہے‘‘۔۔۔ انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کی منظوری مکہ مکرمہ میں خواجہ خواجگان قطب الاقطاب حضرت مولانا خواجہ خان محمد قدس اللہ سرہٗ نے دی اس موقعہ پر مسجد الحرام بیت اللہ کے مدرس شیخ حرم فضیلۃالشیخ مولانا محمد مکی حجازی حفظہ اللہ اور انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے موجودہ مرکزی امیر فضیلۃ الشیخ مولانا ڈاکٹر سعید احمد عنائیت اللہ حفظہ اللہ اور میاں فضلِ حق احراری (مرحوم) بھی موجود تھے.......یہ حضرت خواجہ صاحب اور اکابرین کی ہی دعاؤں کی برکت ہے کہ انٹر نیشنل ختم نبوت مؤومنٹ کے سابق مرکزی امیر فضیلۃ الشیخ حضرت مولانا عبدالحفیظ مکیؒ سفیر ختم نبوت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ اور مولانا ضیاء القاسمیؒ اور انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے موجودہ مرکزی امیرفضیلۃ الشیخ ڈاکٹر سعید عنائت اللہ حفظہ اللہ کی کوششوں اور محنتوں سے یہ جماعت قلیل عرصے میں پاکستان سمیت پوری دنیا میں عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کا فریضہ سرانجام دے رہی ہے۔فضیلۃ الشیخ مولانا عبدالحفیظ مکی نے اس سلسلے میں پوری دنیا میں مسلسل سفر کئے اور اسی عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے سلسلے میں ساؤتھ افریقہ کے سفر کے دوران ہی 16 جنوری 2017ء حرکتِ قلب بند ہونے کی وجہ سے 70 سال کی عمر میں انتقال کر گئے ۔


یہ عقیدۂ ختم نبوت کے مقدس کام کی ہی برکت تھی کہ آپ کی نماز جنازہ مسجد نبوی شریف میں مسجد نبوی کے امام صلاح البدیر حفظہ اللہ نے پڑھائی جس میں پاکستان سمیت پوری دنیا سے ہزاروں افراد نے شرکت کی اور جنت البقیع میں اپنے شیخ مولانا زکریا کاندھلویؒ کے نزیک دفن کئے گئے جہاں صحابہ کرامؓ ، ازواجِ مطہراتؓ،اوردیگر مقدس شخصیات مدفون ہیں۔حضرت مولانا عبدالحفیظ مکی ؒ کی وفات کے بعد امام کعبہ ڈاکٹر عبدالرحمن السدیس کی خواہش اور انٹر نیشنل ختم نبوت موومنٹ کی شوریٰ کے فیصلہ کے مطابق مدرسہ صولتیہ مکہ مکرمہ کے شیخ الحدیث جامعہ اشرفیہ لاہور کے فاضل فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر سعید عنائت اللہ کو انٹر نیشنل ختم نبوت موومنٹ کا مرکزی امیر منتخب کیا گیا ،جبکہ مولانا ڈاکٹر سعید احمد عنایت اللہ نے جماعت کے ذمہ داران سے مشاورت کے بعد مولانا عبدالحفیظ مکیؒ کے بیٹے صاحبزادے مولانا عبدالرؤف مکی کو مرکزی نائب امیر منتخب کیا .......اسی طرح سفیر ختم نبوت مولانا منظور احمد چنیوٹی ؒ نے جہاں پوری دنیا میں عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے لئے بے مثال جدوجہد کی قادیانیوں سمیت سینکڑوں غیر مسلموں نے آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا وہاں مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ نے قادیانیوں کو پاکستان میں غیر مسلم اقلیت قراردلوانے کی جدوجہد میں اہم کردارادا کیااور 1994ء میں تحریک ختم نبوت کے دوران حضرت مولانا یوسف بنوریؒ کی ہدایت پر سعودی عرب کا دورہ کیا اور وہاں سعودی علماء اور رابطہ عالم اسلامی کی اہم شخصیات سے ملاقات کر کے ان کو فتنہ قادیانیت سے آگاہ کرتے ہوئے قادیانیت کے خلاف کفر کا فتویٰ حاصل کیا جوپاکستان میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے میں معاون ثابت ہوا۔مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ نے پنجاب میں ’’ربوہ‘‘ کا نام تبدیل کرا کے سرکاری سطح پر چناب نگر منظور کروانے میں بنیادی اور تاریخی کردار ادا کیا۔


عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے سلسلے میں 11 مارچ بروز اتوار صبح 11سے نماز عصر تک انٹر نیشنل ختم نبوت موومنٹ کے زیر اہتمام 11 ویں سالانہ ختم نبوت کانفرس مرکزی امیر ڈاکٹر سعید احمد عنائت اللہ مدظلہٗ اورجامعہ اشرفیہ لاہور کے مہتمم حضرت مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی کی زیرِ صدارت منعقد ہوگی کانفرنس کی دو نشتیں ہوں گی جن میں انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے مرکزی نائب امیرفضیلۃ الشیخ مولاناعبدالرؤف مکی (مکہ مکرمہ) اور مولانا ڈاکٹر احمد علی سراج،پیر ناصر الدین خاکوانی، مولانا محمد الیاس چنیوٹیٖ ایم پی اے،حضرت مولانا مفتی محمد حسن ثانی،معروف صحافی و تجزیہ نگار محترم مجیب الرحمن شامی،شیخ الحدیث مولانا عبدالمالک ،مولانا قاضی عبدالرشید،مولانا عبدالرؤف فاروقی،، شیخ الحدیث مولانا زاہد الراشدی، مولانا محمد امجد خان، مولانا سید عبدالخبیر آزاد،الحاج حافظ صغیر احمد، مولانا سید کفیل شاہ بخاری، ، جسٹس ریٹائرڈخواجہ محمدشریف، جسٹس ریٹائرمیاں نذیر اختر،مولانا قاری محمد رفیق وجھوی، مفتی شاہد محمود مکی ، طاہر عبدالرزاق، قاضی محمود الحسن،چودھری غلام مصطفی اورمولانا محمد شفیق وجھوی سمیت مختلف دینی و مذہبی جماعتوں کے قائدین اور تمام مسلم مکاتب فکر کی نامور علمی و دینی شخصیات خطاب کریں گی۔

اس سے قبل مجلس احرار اسلام پاکستان کے زیر اہتمام9مارچ بروز جمعۃ المبارک ایوان اقبال لاہور میں امیر شریعت ؒ و ختم نبوت کانفرنس منعقد ہورہی ہے اور 10 مارچ بروز ہفتہ بعد نماز عصر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام تاریخی بادشاہی مسجد لاہور میں ختم نبوت کانفرنس منعقد ہورہی ہے جس سے تمام مکاتب فکر کے قائدین ، علماء و مشائخ شرکت و خطاب کریں گے۔لاہور میں منعقد ہونے والی یہ تینوں ختم نبوت کانفرنسیں جہاں ایک طرف اتحاد امت کا عملی مظاہرہ ہے،وہاں ملک کی موجودہ صورت حال میں قیام امن، اتحاد بین المسلمین کے فروغ ، فرقہ واریت کے خاتمہ اورامت مسلمہ پر قادیانی فتنہ کو بے نقاب کرنے اور نسل نوکے ایمان کی حفاظت کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی ۔عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ، نسل نو کے ایمان کی حفاظت او ر فتنہ قا دیانیت کو بے نقاب کرنے کے لئے ہر ایک مسلمان کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ،تاکہ وہ دنیا و آخرت میں سرخرو ہوسکے۔تمام عاشقان رسولﷺ عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے لئے ان کانفرنسوں میں بھرپور شرکت کریں۔

مزید :

رائے -کالم -