معاشی ٹیم

معاشی ٹیم
معاشی ٹیم

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ڈیڑھ سال سے اوپر ہو چلا، حکومت کا انیسواں مہینہ بھی ختم ہونے کو ہے، لیکن اس کی معاشی ٹیم ہے کہ سیٹ ہو کر نہیں دے رہی۔پچھلی حکومت کے دور کے اقتصادی اشاریوں سے موازنہ کیا جائے تو ہر چیز اُلٹ ہو چکی ہے۔ اقتصادی اشاریوں کی تفصیل میں کیا جانا کہ عوام کی ”درگت“ ہی سب سے بڑی تفصیل ہے، جو ملک کے ہر شہری کی زبان پر چوبیس گھنٹے موجود رہتی ہے۔ پہلے چھ آٹھ ماہ یا ایک سال تو پچھلی حکومت کی گردان کرکے گزارا جا سکتا ہے، لیکن جب دوسرا سال بھی ختم ہونے کے قریب ہو تو کچھ بھی پچھلی حکومت پر نہیں ڈالا جا سکتا۔ عمران خان سرکار اب اپنی ہر طرح کی کارکردگی کی خود ذمہ دار ہے…… اگر ملک کی معیشت نہیں سنبھل رہی تو اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ حکومت کے پاس ایسی معاشی ٹیم ہے ہی نہیں جو ملک کی معیشت کو چلا سکے یا عوام کوریلیف دے سکے، کم از کم17 روپے کلو ٹماٹر والا مشیر خزانہ تو کبھی عوام کے بارے میں نہیں سوچ سکتا۔ان صاحب کو تو فرانس کی ملکہ میری کا مشیر خزانہ ہونا چاہئے تھا۔ جب حکومت بنی تھی تو بہت چاؤ سے اسد عمر کو وزیر خزانہ بنایا گیا، لیکن آٹھ ماہ تک تجربات کے بعد معلوم ہوا کہ خزانہ سنبھالنا ان کے بس کی بات ہی نہیں۔مارکیٹنگ کے سپیشلسٹ نے اپنی ذاتی مارکیٹنگ بہت اچھی کی ہوئی تھی،

چنانچہ ان سے توقعات باندھی گئیں جو اس لئے پوری نہ ہو سکیں کہ وہ اقتصادیات کے شعبے کے آدمی ہی نہیں تھے۔ عمران خان کئی سال سے پراپیگنڈہ کر رہے تھے کہ لوگ ٹیکس اس لئے نہیں دیتے، کیونکہ حکمران ”چور“ اور ”ڈاکو“ ہیں،عوام انہیں ٹیکس کیوں دیں؟ عمران خان کے آنے سے پہلے ایف بی آر تقریباً چار ہزار ارب روپے سالانہ ٹیکس اکٹھا کر رہا تھا، عمران خان کا دعویٰ تھا کہ جب ان جیسا ”ایماندار“ حکمران ہو گا تو لوگ خود ٹیکس دیں گے اور وہ ڈبل، یعنی آٹھ ہزار ارب روپے ٹیکس اکٹھا کر کے دکھائیں گے۔ پی ٹی آئی حکومت پہلے تو دو منی بجٹ لائی،پھر جب پہلا سالانہ بجٹ پیش کیا،تو ٹارگٹ چار ہزار ارب سے بڑھا کر ساڑھے پانچ ہزار ارب روپے رکھا، لیکن کچھ ہی مہینوں میں اندازہ ہو گیا کہ اتنا ٹیکس اکٹھا کرنا اس کے بس کی بات نہیں ہے۔

الیکشن سے پہلے کے دعوے اور ہوتے ہیں، لیکن آٹے دال کا اصل بھاؤ تو حکومت میں آنے کے بعد ہی پتہ چلتا ہے،اِس لئے آئی ایم ایف کی منت کرکے ٹارگٹ 5500 ارب سے کم کرکے 5200 کرایا گیا۔ جب یہ پتھر بھی بھاری معلوم ہوا تو مزید ترلے شروع کئے گئے کہ ٹارگٹ اور کم کرکے 4800 ارب روپے کر دیا جائے۔ آئی ایم ایف سے مذاکرات ہوتے رہے، لیکن آئی ایم ایف ٹارگٹ مزیدکم کرنے کے لئے راضی نہ ہوا تو اس بھاری پتھر کو بادل نخواستہ ہی سہی، قبول کرنا پڑا، لیکن آئی ایم ایف نے بہر حال اونٹ کے گلے میں شرائط کی گھنٹی باندھ رکھی ہے، چنانچہ گیس کی قیمتیں کئی گنا بڑھانا پڑیں اور بجلی کی قیمت اٹھارہ مہینوں میں اٹھارہ مرتبہ بڑھائی گئی۔ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت 70 ڈالر سے بہت کم ہو کر 50 ڈالر فی بیرل تک آچکی ہے، لیکن پاکستانی عوام کے لئے کوئی ریلیف نہیں ہے۔ پچھلی حکومت کے دور میں جب تیل کی عالمی قیمت 70 ڈالر سے اوپر تھی، تو اس وقت عوام کو پٹرول 70 روپے لٹر مل رہا تھا، موجودہ دور میں اسی عالمی قیمت کے وقت پٹرول 119 روپے تک پہنچایا گیا اور ا ب جبکہ تیل کی عالمی قیمتیں گر چکی ہیں، محض چند روپے کا لالی پاپ عوام کو دے کر بہلانے کی کوشش کی گئی ہے۔ پی ٹی آئی حکومت سے پہلے مختلف حکومتوں کے ادوار میں پاکستان 22 بار آئی ایم ایف پروگرام میں گیا تھا، لیکن ایک مرتبہ بھی عوام کی چیخیں نکلوانے والی شرائط نہیں مانی گئی تھیں۔ ایسا صرف عمران خان حکومت میں ہوا ہے کہ پاکستان میں آئی ایم ایف مارشل لاء لگا ہے اور پہلی مرتبہ پاکستان میں آئی ایم ایف کی حکومت قائم ہوئی ہے۔ حکومت کی معاشی ٹیم کے حالات یہ ہیں کہ حکومت کو سمجھ ہی نہیں آ رہی ہے کہ ایف بی آر کا چیئرمین کسے لگایا جائے؟


پہلے آٹھ ماہ ایک ڈی ایم جی افسر ڈاکٹر جہانزیب خان کو آزمایا گیا، اس کے بعد بہت بڑے دعوؤں اور توقعات کے ساتھ نجی سیکٹر سے شبر زیدی کو چیئرمین ایف بی آر لگایا گیا۔ وہ پہلے دن سے ہی اکھڑے اکھڑے لگے اور بالآخر ایک سال جیسے تیسے گذار کر خرابی ئ صحت کی بناء پر رخصت ہوئے۔ اب دو تین ماہ ہو چکے ہیں، ایف بی آر کا کوئی نیا چیف کمانڈر موجود نہیں ہے اور صورتِ حال یہ ہے کہ ٹیکس کے ٹارگٹ اگر پورے ہوں تو کیسے ہوں؟ کیونکہ حکومت کو معلوم ہی نہیں ہے کہ کسے چیئرمین ایف بی آر لگانا ہے؟


عمران خان حکومت کسی معاشی ٹیم کے بغیر ملک کی اقتصادیات کیسے ٹھیک کر سکے گی؟ ظاہر ہے کہ نہیں کر سکے گی۔ نہ ٹیکس کے ٹارگٹ پورے ہوں گے اور نہ ہی ملک آئی ایم ایف کے چنگل سے باہر نکل سکے گا، اِس لئے سارا ملبہ عوام کے سروں پر ہی گرے گا،جنہیں مزید مہنگائی اور بہت زیادہ بے روزگاری برداشت کرنا پڑے گی……نئے پاکستان میں عوام کی یہ درگت بنے گی، اس کا اندازہ تو کسی کو بھی نہیں رہا ہو گا۔ اب اگر ”عوام“ نے یہ حکومت ”منتخب“ کی ہے تو اسے بھگتنا بھی پڑ رہا ہے…… اقتصادی محاذ پر پی ٹی آئی حکومت ایک شتر بے مہار کی طرح بے سمت چلے جا رہی ہے۔ حکومت میں آنے سے پہلے نہ کوئی ہوم ورک تھا اور نہ ہی کوئی منصوبہ بندی، بس نعرے ہی نعرے تھے۔ ظاہر ہے خالی نعروں سے تو اچھے نتائج نہیں آ سکتے، اس کے لئے اچھی منصوبہ بندی اور اچھی ٹیم چاہئے ہوتی ہے، لیکن جب ٹیم ہی نہیں ہوگی تو کیا کھیلے گی، ریلو کٹے دو چار چوکے چھکے تو لگا لیتے ہیں، لیکن سنچری نہیں بنا سکتے۔پاکستان کی معیشت ایک انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہے اور اس وقت تک رہے گا، جب تک کوئی اچھی معاشی ٹیم ملکی مفاد اور عوامی بہبود کو مد نظر رکھتے ہوئے منصوبے نہ بنائے۔ اس حکومت میں تو ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ عمران خان نے تبدیلی کا نعرہ لگایا تھا اور اب تک حکومت اپنی کل مدت کا تقریباً ایک تہائی مکمل کر چکی ہے……(اگر مدت پوری کرنے میں کامیاب ہوگئی)، لیکن تبدیلی کا دور دور تک نام و نشان نظر نہیں آتا۔ تبدیلی ئ معکوس البتہ ضرور ہے کہ معیشت اور گوورننس دونوں اس سطح سے بہت نیچے گر چکی ہیں،جہاں ان کے اقتدار سنبھالتے وقت تھی۔

جہاں تک معیشت کا تعلق ہے، عمران خان اپنی معاشی ٹیم ہی نہیں بنا سکے۔ الیکشن سے پہلے 200 ماہرین کی خدمات حاصل ہونے کا دعویٰ کھوکھلا ثابت ہو چکا ہے کہ 200 تو بہت دور کی بات ہے، پی ٹی آئی کے پاس تو ایک بھی ایسا ماہر معاشیات نہیں ہے جو ملک کی اقتصادیات کو درست طریقے سے چلا سکے۔ پی ٹی آئی کے سپورٹروں کو اسد عمر سے بہت توقعات تھیں، لیکن انہوں نے کبھی یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی تھی کہ وہ مارکیٹنگ کے آدمی ہیں اور ان کا اقتصادیات سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے۔ ان سے توقعات باندھنا ایسا ہی تھا کہ آخری نمبروں پر بیٹنگ کرنے والے کسی باؤلر سے ڈبل سنچری کی توقع رکھی جائے۔ عمران خان کو بہرحال ایک ایڈوانٹج ضرور ہے، وہ کوئی بھی صحیح یا غلط بات کریں یا ناکامیوں کی جو مرضی توجیح پیش کریں، ان کے پیروکار سر دھنتے، کورنش بجا لاتے اور ان کی کہی ہر بات کو صحیفہ ئ آسمانی سمجھتے ہیں،چونکہ پی ٹی آئی کے پاس معیشت چلانے کے لئے اپنا کوئی بندہ نہیں ہے، چنانچہ آئی ایم ایف سے ٹیم مستعار لی گئی ہے اور اس وقت مشیر خزانہ وہی صاحب ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ ہیں، جو جنرل پرویز مشرف اور آصف علی زرداری کے ادوار میں بھی آزمائے گئے اور ناکام رہے تھے۔

سٹیٹ بینک کے گورنراور ڈپٹی گورنر دونوں ہی آئی ایم ایف سے ڈائرکٹ بھرتی کئے گئے ہیں،اس طرح پاکستان کی اقتصادی پالیسی سازی مکمل طور پر آئی ایم ایف کے کنٹرول میں ہے، جو لازمی طور پر وہی پالیسیاں بنائیں گے، جو پاکستان کے مفاد میں ہوں یا نہ ہوں، لیکن آئی ایم ایف، امریکہ اور دوسرے عالمی ساہوکاروں کے مفاد میں ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک اپنی تاریخ کی بدترین مہنگائی کے دورمیں داخل کر دیا گیا ہے،جہاں عوام کو چیخنے چلانے کی اجازت بھی نہیں ہے۔ حکومت کی معاشی ٹیم کی کارکردگی یہ ہے کہ نہ صرف ٹیکس ریوینو کے ٹارگٹ میں مالی سال کے اختتام پر چھ سات سو ارب روپے کا شارٹ فال رہے گا،بلکہ اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ 2019ء میں تین لاکھ سے زائد ٹیکس گذار ٹیکس نیٹ سے باہر نکل گئے ہیں۔ٹیکس ریٹرنز فائل کرنے والوں کی تعداد جو 2018ء میں 27 لاکھ تھی، 2019ء میں کم ہو کر 23 لاکھ رہ گئی ہے۔ اسی طرح ٹیکس نیٹ میں تاجروں کی تعداد میں بھی نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ اس سال 118 ہزار رجسٹرڈ کمپنیوں میں سے صرف 36 فیصد کمپنیوں نے گوشوارے داخل کئے ہیں۔وزیراعظم عمران خان کی ”سب اچھا“ کی ٹویٹس سے اقتصادیات بہتر نہیں ہوں گی، کیونکہ ملک کی معیشت ایک ہی صورت میں بہتر ہو سکتی ہے کہ حکومت کی معاشی ٹیم مضبوط ہو…… لیکن حکومت کی معاشی ٹیم ہے کہاں؟

مزید :

رائے -کالم -