طالبان امریکہ امن معاہدہ اور پاکستان

طالبان امریکہ امن معاہدہ اور پاکستان

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


افغانستان میں دو دہائیوں سے جاری جس جنگ و جدل کے خاتمے کی نوید سنائی گئی اس پر ٹرمپ انتظامیہ کے تبصرے میں دو حوالوں سے احتیاط برتی جا رہی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ سابق صدور کی افغان پالیسیوں میں پائے جانے والے سقم سے اپنی عوام کو آگاہ کر رہے ہیں اور ٹرمپ انتظامیہ کی ’امریکہ طالبان امن معاہدے‘ کو ایک بڑی فتح کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ افغانستان میں امن کو طالبان کی طرف سے معاہدے پر عملدرآمد سے مشروط کر رہے ہیں۔ جبکہ افغانستان میں طالبان اور امریکہ کے علاوہ بھی کئی ایک اسٹیک ہولڈرز موجود ہیں، جن سے مشاورت کے بغیر وہاں پائیدار امن کی ضمانت شاید نہیں دی جا سکتی۔ مقامی جنگ جو گروپوں کے علاوہ اہم اسٹیک ہولڈر اشرف غنی انتظامیہ ہے جس کے تحفظات کی باز گشت معاہدے کے ساتھ ہی سنائی دینے لگی تھی اور امن معاہدے پر خدشات کے سائے افغان صدر کے بیان کے فوری بعد چھانے لگے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ امریکہ نے اشرف غنی کو طالبان کے ستاھ مذاکرات سے لا علم رکھا ہو یا اسے اعتماد میں نہ لیا ہو۔

اس سلسلہ میں دوحہ میں فریقین کی ملاقاتیں گزشتہ اٹھارہ ماہ سے جا ری ہیں۔ طالبان قیادت کی طرف سے دیا گیا موقف غیر حقیقی نہیں بلکہ دنیا بھر میں جب بھی جنگ کے بعد صلح یا امن معاہدہ ہوتا ہے تو قیدیوں کی واپسی اور رہائی ایسے معاہدوں کی اہم شق ہوتی ہے بلکہ اکثر معاہدوں کی وجہ قیدیوں کی رہائی ہی ہوتا ہے۔ اشرف غنی حکومت کے پاس طالبان کے 5ہزار قیدی مختلف جیلوں میں بند ہیں۔ اسی طرح افغان فورسز کے ایک ہزار قیدی طالبان کی قید میں بھی ہیں۔کسی پائیدار امن کی ضمانت ان قیدیوں کی رہائی ہی ہو سکتی ہے۔ امن کی طرف سب سے پہلا اقدام ان قیدیوں کو ان کے گھر والوں تک پہنچانا ہو گا۔ اگر ایسا نہیں ہو سکتا تو پھر کس بات پر معاہدہ کی بنیاد مضبوط ہو گی۔ افغانستان جو ایک کھنڈر کی تصویر بن چکا ہے، میں امن قائم ہو گا تو وہاں بحالی کا کام ہو سکے گا۔گزشتہ چار دہائیوں سے ایک دوسرے سے بر سر پیکار گروپوں میں باہمی اعتماد ہی ساز گار ماحول پیدا کر سکے گا جس سے تعمیر نو میں پیش رفت ہو گی۔ بین الا فغان مکالمہ کے علاوہ اسلام آباد، تہران اور واشنگٹن کو مل بیٹھ کر اس مکالمہ کا نظام العمل تیار کرنا چاہئے۔ دنیا اب افغانستان میں طالبان اور اشرف غنی حکومت اور افغانستان سے باہر ٹرمپ انتظامیہ پر نظریں جمائے ہوئے کہ فریقین آئندہ کا لائحہ عمل کس طرح طے کرتے ہیں۔ افغانستان میں امن کا مطلب، پاکستان سمیت تمام ہمسایہ ممالک میں خوشی کی لہر کا پیدا ہونا ایک فطری بات ہو گا۔


امریکی افواج کی محفوظ واپسی کو یقینی بنانے کے لئے بھی ضروری ہے کہ طالبان کے موقف کو تسلیم کرتے ہوئے قیدیوں کی واپسی کا بندو بست کیا جائے۔ ٹرمپ انتظامیہ کا یہ سلوگن کہ”افغانستان میں امریکی خون اور پیسہ مذید نہیں بہا جا سکتا، امریکی فوجیوں کو واپس لایا جائے گا“۔کو عملی شکل دینے کے لیے ایک سے زیادہ مرتبہ مشورہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ تاریخ اپنے آپ کو پھر دہرائے گی اور افغانستان غیر ملکی فوجوں کی واپسی کے بعد خدا نخواستہ ایک مرتبہ پھر جنگ کے شعلوں میں جھلس سکتا ہے۔ پاکستان اور افغانستان اسلامی ہمسائے ہونے کے ساتھ ساتھ خطے کے دو اہم ملک ہیں۔ افغانستان میں امن پاکستان کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ اسی لیے افغانستان میں لڑی جانیوالی دونوں جنگوں میں پاکستان کے کردار کو عالمی سطح پر سراہا گیا۔ نائن الیون کے بعد پاکستان ایک طرف اتحادی افواج کا نان نیٹو اتحادی تھا اور دوسری طرف افغانستان کا ہمسایہ ملک۔ اسی لئے پاکستان کو گزشتہ دو دہائیوں میں نا قابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا۔

قانون نافذ کرنے والے پاکستانی اداروں نے بڑی دانشمندی سے پاکستان کو جنگ سے بچائے رکھا اور افغانستان میں کم از کم نقصان پر زور دیا گیا۔ ڈیورنڈ لائن کی دونوں طرف بسنے والے مسلمان پختون جو صدیوں سے ایک دوسرے کے ساتھ نسلی، مذہبی، ثقافتی اور تہذیبی رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں کے لئے یہ صورتحال انتہائی اذیت ناک تھی۔لیکن پاکستان نے افغانیوں کے لئے اپنے دروازے کھلے رکھے اور لاکھوں کی تعداد میں آنے والے مہاجرین کے لیے رہائش اور خوراک کا انتظام کیا۔ پاکستان کے لیے یہ مسئلہ انتہائی گھمبیر رہا کہ ڈیورنڈ لائن کو بند کر دیا جائے یا کھلا رکھا جائے۔ نیٹو فورسز کی طرف سے پاکستان پر الزام لگتا رہا کہ اس سرحد کی طرف سے افغانستان میں در اندازی ہوتی ہے۔ اس الزام میں بھارت پیش پیش تھا جو پاکستان کو تنہا کرنے کے در پے تھا۔ اس آڑ میں بھارت اور پاکستان مخالف قوتوں نے بلوچستان اور کراچی میں دہشت گردی کا بازار گرم کیے رکھا جس سے پاکستان کو اربوں ڈالر کا مالی نقصان اٹھانا پڑا۔

جانی نقصان جو پیسوں میں نہیں تولا جا سکتا اس کے علاوہ تھا۔ دشمن نے ہر ممکن کوشش کی کہ وہ پاکستان کو ایک دہشت گرد ملک ثابت کر کے اس کے خلاف گھیرا تنگ کر سکے لیکن پاکستانی ایجنسیوں نے کمال مہارت اور جانفشانی سے قریبی اور دور بیٹھے دشمنوں کے مزموم ارادوں کو خاک میں ملا دیا۔ بی جے پی کی انتہا پسند ہندو قیادت کو جب افغانستان سے امریکہ کی روانگی اور طالبان سے اس کے مذاکرات کی کامیابی یقینی نظر آنے لگی تو اس نے نہتے کشمیریوں پر ظلم ڈھانا شروع کر دیا۔ اس نے نہ صرف کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو تبدیل کر دیا بلکہ مقبوضہ کشمیر کو جیل میں بدلتے ہوئے وہاں کرفیو نافذ کر دیا جو تا حال جاری ہے۔ اس کے علاوہ ایل او سی پر بلااشتعال شر انگیزی کا سلسلہ بھی بھارت نے شروع کر رکھا ہے جس کا ہماری فورسز اسے منہ توڑ جواب دیتی آ رہی ہیں۔


آ ج سے انیس برس پہلے جب افغانستان میں پاکستان کے دشمنوں نے ڈیرے ڈالے تو بھارت نے اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے وہاں اپنے سفارت خانوں کے نام پر دہشت گردی کو فروغ دینے کے اڈے قائم کئے جہاں اس کے حاضر سروس فوجی افسران پاکستان مخالف عناصر کو ٹریننگ دیتے تھے۔ یہ عناصر بھارت کو شورش زدہ افغانستان سے آسانی سے مہیا ہو جاتے تھے۔ یہ ہمارے قومی سلامتی کے اداروں اور فورسز کا کارنامہ ہے کہ دشمن کی ہر چال کو ناکام کرتے ہوئے انہوں نے پاکستان سے ان کا صفایا کیا۔

مزید :

رائے -کالم -