لاہور میں پیپلزپارٹی کا پاور شو، لانگ مارچ اور جلسہ متاثر کن رہا

 لاہور میں پیپلزپارٹی کا پاور شو، لانگ مارچ اور جلسہ متاثر کن رہا
 لاہور میں پیپلزپارٹی کا پاور شو، لانگ مارچ اور جلسہ متاثر کن رہا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ملک میں اس وقت محاذ آرائی شدت اختیار کرتی جا رہی ہے، حالانکہ ضرورت مکمل اور قومی اتفاق رائے کی ہے۔ پشاور کی جامع مسجد میں کئے جانے والے خودکش حملے کے بعد تو اس کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی، لیکن احساس یہ ہوتا ہے کہ شاید احساس زیاں کی فکر نہیں رہی۔ تحریک انصاف کا سندھ حقوق مارچ تو کراچی جا کر ختم ہوا اور اللہ کا شکر ہے کہ کوئی ناخوشگوار صورت حال پیدا نہیں ہوئی۔ پیپلزپارٹی کا لانگ مارچ جو کراچی سے 27فروری کو شروع ہوا، وہ بھی گزشتہ شب اپنا سفر پورا کرچکا اور اب جلسہ عام کے بعد مکمل ہو گیا ہے۔ یوں جو ہلچل جلوسوں (مارچوں) نے پیدا کی اس میں ٹھہراؤ تو آ گیا، لیکن تحریک عدم اعتماد کا سلسلہ تاحال موجود ہے، تاوقتیکہ اس کا انجام سامنے نہ آ جائے۔تازہ ترین جھٹکا سابق صوبائی وزیر علیم خان کا اعلان ہے۔ اس بارے میں ہفتہ رفتہ اہم تھا اور یہ خبر گرم تھی۔


پاکستان پیپلزپارٹی کا لانگ مارچ کا لاہور میں استقبال پرجوش اور بہت بہتر تھا اس سے اندازہ ہوا کہ جدوجہد اور حرکت رنگ لائی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری اس سے پہلے بھی وسطی اور جنوبی پنجاب کے دورے کر چکے، لیکن حالیہ آمد بہت مختلف تھی کہ پہلے جنوبی پنجاب کے لئے مخدوم یوسف رضا گیلانی اور مخدوم سید احمد محمود کی شبانہ روز کوششوں کے بعد جب بلاول بھٹو اور آصفہ بھٹو کی قیادت میں لانگ مارچ والا قافلہ پنجاب کی حدود میں داخل ہوا تو اسے رحیم یارخان سے ملتان تک بڑی پذیرائی ملی۔ اس کے بعد ساہیوال اور اوکاڑہ والوں نے بھی مثالی استقبال کر لیا۔ تاہم وسطی پنجاب اور لاہور کی تنظیم نے راجہ پرویز اشرف اور چودھری اسلم گل کی قیادت میں تمام تر ”مجبوریوں“ کے باوجود کوشش کی اور یوں لاہور کا پاور شو کامیاب بنا دیا۔ لاہور میں نہ صرف پیپلزپارٹی کے کارکنوں نے ہمت کی بلکہ پرانے جیالے بھی باہر نکل آئے، استقبالیہ کیمپ لگائے گئے اور استقبال کی روائتی تیاری ہوئی۔ ملتان روڈ پر کیمپ تھے اور کارکن پیپلزپارٹی کے روائتی نعروں کے ساتھ روائتی بھنگڑے بھی ڈال رہے تھے جبکہ عوام کی بڑی تعداد بھی یہ شو دیکھنے آئی، چنانچہ ناصر باغ کا جلسہ پیپلزپارٹی کی 86کے بعد والی روائت کا رنگ لے گیا اور بلاول بھٹو زرداری نے بھی پرجوش خطاب سے لاہوریوں کے دل گرمائے۔


بلاول بھٹو نے بحریہ ٹاؤن میں قیام اور آرام بھی کیا اور اس وقفے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اگلی دوپہر کا کھانا ندیم افضل چن کی رہائش پر کھایا، ان کے ساتھ مرکزی کمیٹی کے اراکین کے علاوہ وسطی پنجاب اور لاہور کے مرکزی عہدیدار بھی تھے۔ ندیم افضل چن نے پارٹی میں واپسی کا اعلان کیا اور کہا کہ وہ اپنے گھر میں آ گئے ہیں۔ ندیم افضل چن کے والد افضل چن پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر رکن اسمبلی بھی منتخب ہوئے تھے۔ندیم افضل چن جب پیپلزپارٹی کو چھوڑ کر گئے تو وہ وسطی پنجاب کے جنرل سیکرٹری تھے۔ تحریک انصاف میں رہتے ہوئے وہ وزیراعظم کی ترجمانی کے فرائض انجام دیتے رہے،تاہم اطلاعات کے مطابق وہ مزاج سے ہم آہنگ نہ ہو سکے اور کچھ عرصہ سے الگ الگ سے تھے کہ اب واپس آ گئے ہیں۔ اس حوالے سے اندرونی کہانی کے طور پر بہت کچھ کہا جاتا ہے تاہم میں بہت کچھ جانتے ہوئے بھی شاہ محمود قریشی صاحب سے متفق ہوں کہ ندیم افضل چن کے ہاتھ صاف ہیں، اس لئے ان کا فیصلہ بہتر ہی ہوگا، اگرچہ ان کے ایک بھائی نے اس فیصلے سے اختلاف کیا اور کہا ہے کہ والد سمیت وہ اور خاندان کے دوسرے افراد تحریک انصاف ہی میں ہیں جبکہ تحریک انصاف کی طرف سے یہ بیان قبول نہیں کیا گیا، بہرحال اسے بلاول کی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے۔


بلاول کے ساتھ ان کی چھوٹی بہن آصفہ بھی تھیں اور ان کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی رہیں۔ ڈرون کیمرے سے زخمی ہونے کے باوجود واپس آ گئی تھیں، خیال تھا کہ وہ لاہور میں تقریر کریں گی لیکن ایسا نہ ہوا شاید پروگرام میں شامل نہیں تھا۔ بلاول بھٹو  نے بتدریج اپنے لہجے اور تلفظ پر قابو پایا اور اب وہ تقریر کسی تحریر کے بغیر کرتے اور ان کی اردو پر گرفت کافی مضبوط ہو گئی جبکہ ملکی اور بین الاقوامی حالات پر بھی ان کی نظر ہے۔ لاہور میں میڈیا سے بھی بہتر انداز میں بات کی۔ تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے ان کی حقیقت پسندی کو منفی کہا گیا، حالانکہ انہوں نے تو یہ کہا تحریک عدم اعتماد کے لئے نمبر پورے ہیں، تاہم سو فیصد کامیابی کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ عوامل بھی ساتھ چلنے ہیں۔ بہرحال انہوں نے جدوجہد جاری رکھنے کا مکمل یقین دلایا اور اعادہ کیا۔ یہ ایک کامیاب شو تھا، جو لاہور میں ہوا، اگر بلاول لاہور قیام کریں اور توجہ دیں تو پرانے جیالے اولاد سمیت واپس آ سکتے ہیں۔


دوسری طرف وزیراعظم عمران خان، حکومت اور تحریک انصاف کا میڈیا والا رویہ سوالیہ نشان بنا ہوا ہے۔ میڈیا کی مشترکہ جدوجہد کے نتیجے میں وزیراطلاعات فواد چودھری نے کہا کہ چودھری پرویز الٰہی میڈیا اور حکومت کی مصالحت کرا سکتے ہیں تو ثالثی قبول کرلیں۔ سپیکر پنجاب اسمبلی،سابق نائب وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کے علاوہ قائم مقام قائد حزب اختلاف کے فرائض سرانجام دینے والے مسلم لیگ (ق) کے صدر ہیں اور ان کے تعلقات بہتر ہیں تاہم انہوں نے اب وزیراعظم کو مشورہ دیا ہے وہ اپنے مشیروں سے خبردار رہیں جو ان کے اور میڈیاکے تعلقات خراب کررہے ہیں انہوں نے کہا وزیراعظم نے ان کے ذمہ مصالحتی مشن کی جو ڈیوٹی سونپی وہ اس پر پورا اتریں گے۔


ماہ شعبان کی آج 5تاریخ ہے اور ہر گزرنے والا دن ماہ مبارک رمضان کو قریب تر لا رہا ہے وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے پہلے ہی سے تیاریاں شروع کر دیں کہ شہریوں کو مہنگائی سے بچایا جائے۔ وفاقی حکومت سبسڈی کا اہتمام کر رہی ہے اور صوبائی حکومت نے سستے رمضان بازاروں کا اہتمام شروع کر دیا ہے، یہ روائتی انتظام ہے جو عرصہ سے ہوتا چلا آ رہا ہے لیکن یہ بازار بھی شہریوں کو پوری سہولت نہیں پہنچا پائے، ان بازاروں میں صرف وہ اشیاء سستی مل جاتی ہیں جن پر حکومت سبسڈی دیتی ہے اور یہ اشیاء صارف کی ضرورت کے مطابق نہیں کوٹہ کے مطابق دی جاتی ہیں۔ ملک میں مجموعی مہنگائی موجود ہے، تاہم عمومی گرانی کے ساتھ اب رمضان المبارک کی آمد کے اثرات بھی شروع ہو گئے، گوشت، مرغی گوشت، انڈے اور دالوں کے علاوہ سبزیوں کے نرخ بھی بڑھ گئے، حکمرانوں کو موثر انتظامات کے لئے ضرورت اور بہمرسانی کے نظام کو بہتر بنانے کے علاوہ توجہ تھوک مارکیٹوں پر دینا ہوگی اور تھوک و پرچون کے درمیان توازن پیدا کرنا ہوگا۔

مزید :

رائے -کالم -