مفاہمت کا بادشاہ،آصف علی زرداری

مفاہمت کا بادشاہ،آصف علی زرداری
مفاہمت کا بادشاہ،آصف علی زرداری

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


پاکستان میں محاذ آرائی کے سخت ماحول کی موجودگی میں انتخابی مہم اور انتخابات کی بات بھی ہو رہی اور عدلیہ بھی زیر موضوع ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے آج (بدھ) سے انتخابی مہم کے آغاز کا اعلان کیا گیا اور اس سے ایک روز قبل میاں حماد اظہر نے میڈیا کو بتایا تھا کہ ایک بجے زمان پارک سے انتخابی ریلی کا آغاز ہوگا جو داتا دربار تک جائے گی اور قیادت خود چیئرمین عمران خان کریں گے تاہم آج ہی ایک موقر اخبار کی اطلاع یہ ہے کہ عمران خان نے اس ریلی کو انتخابی مہم کی بجائے احترام عدلیہ ریلی قرار دیا اور انتخابی مہم والی ریلی ہفتہ کو نکالی جائے گی۔ عدالتوں میں ان دنوں عمران خان کے مختلف امور زیر سماعت ہیں۔ آج ہی بیک وقت لاہور اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں ان سے متعلق معاملات زیر غور آئے ہیں۔


یہ تو تازہ ترین صورت حال تھی جو قارئین سے شیئر کر لی، اگرچہ آپ سب الیکٹرونک میڈیا کے ذریعے پہلے ہی سب جان گئے ہوں گے تو آج پاکستان پیپلزپارٹی اور سابق صدر آصف علی زرداری کے حو الے سے بات کرنا ہے کہ آصف علی زرداری کو مختلف القابات سے یاد کیا جاتا ہے اور اب ان کو ”مفاہمت کا بادشاہ“ قرار دے کر بھی یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں، ان کے ایک حالیہ تفصیلی انٹرویو اور وہاڑی کے دورہ کے دوران کی گئی گفتگو سے معنی اخذ کئے جا رہے ہیں۔ حالانکہ انہوں نے کوئی نئی بات نہیں کی اگر وہ یہ کہتے ہیں کہ پیپلزپارٹی پی ڈی ایم کا حصہ نہیں حکومت کی شراکت دار ہے اور آئندہ الیکشن تیر کے نشان پر لڑے گی تو اس میں تعجب کی بات کیا ہے؟ حال ہی میں راجن پور میں جو ضمنی انتخاب تحریک انصاف کے امیدوار نے جیتا تو اس میں پیپلزپارٹی نے جماعتی حیثیت سے حصہ لیا اگرچہ امیدوار کی تیسری پوزیشن تھی کہ یہی بات آصف علی زرداری نے انٹرویو اور وہاڑی میں خطاب کے دوران واضع کی ہے البتہ معنی خیز بات یہ ہے جو انہوں نے عام انتخابات کے حوالے سے کی کہ ان کے خیال میں انتخابات اپنے وقت پر ہوں گے، اب اس میں سے بہت کچھ نکالنے کی کوشش کی گئی فرزند راولپنڈی اور شاہ محمود قریشی نہال ہو گئے ان کے خیال میں زرداری صاحب نے پی ڈی ایم توڑ دی اور اس اتحاد کا شیرازہ بکھرنے والا ہے حالانکہ یہ آصف علی زرداری ہیں جو یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ حکومت کے اتحادی ہیں اور شہباز شریف کے ساتھ کھڑے ہیں ان کو وزیر اعظم بھی بنوایا تھا۔


میں اپنی سیاسی رپورٹنگ کے دور میں مستقل طور پر پی پی کی بیٹ کرتا رہا ہوں۔ ذوالفقار علی بھٹو سے بے نظیر بھٹو اور بلاول تک بھی رپورٹنگ کی چہ جائیکہ رپورٹنگ ہی سے الگ کر کے دوسرے فرائض سونپے گئے اور ان دنوں دفتر تک محدود خود بھی مطالعہ کرتا ہوں۔ میں آصف علی زرداری صاحب کے حوالے سے بعض تحفظات کے باوجود ان کی سیاسی اہلیت کا شاہد اور قائل بھی ہوں، ان سے جان پہچان تو تھی تاہم واسطہ 1988ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے دوران ہوا، ان کے ساتھ وزیر اعظم ہاؤس میں جہانگیر بدر کے ساتھ تفصیلی ملاقات ہوئی۔ جب فاٹا کے رکن اسمبلی پیر صاحب اور ان کے صاحبزادے ساتھ گئے تھے۔ یہ چار اراکین کے گروپ کے سربراہ تھے اور ان کے متعدد مطالبات تھے۔ آصف علی زرداری نے چشم زدن میں معاملہ طے کر لیا تھا۔ اس ملاقات کا دلچسپ حصہ تھا جب انہوں نے میرے ساتھ پنجابی میں بات کی اور رکن فاٹا کے ساتھ گفتگو پشتو میں کی یہ زبانیں وہ فراوانی سے بولتے اور سرائیکی پر بھی عبور رکھتے ہیں جبکہ سندھی ان کی مادری اور انگریزی تعلیمی زبان ہے۔


میرے آصف علی زرداری صاحب کے حوالے سے بعض تحفظات ہیں لیکن ان کی وجہ سے ان کی صلاحیتوں سے انکار ممکن نہیں۔ آصف علی زرداری کئی حوالوں سے زیر بحث رہتے ہیں۔ ایک سلسلہ ہم جیسے کارکن صحافی حضرات کا بھی ہے کہ پیپلزپارٹی مفاہمت کی پالیسی کی وجہ سے اپنے چار بنیادی اصولوں پر عمل سے ہٹ گئی حالانکہ اس جماعت کی مقبولیت انہی چار اصولوں کے باعث تھی اور بے نظیر بھٹو کے دور تک یہ اصول پس پشت نہیں گئے تھے حالانکہ مولانا کوثر نیازی نے سوشلزم کو اسلامی سوشلزم اور محترم محمد حنیف رامے نے اسلامی مساوات کا لبادہ پہنا دیا تھا باوجود اس لحاظ سے کہ خود ذوالفقار علی بھٹو سوشلسٹ کہلانے کی بجائے خود کو سوشل ڈیمو کریٹ کہتے تھے اور ان کے دائیں مصطفٰے کھر تھے تو بائیں طرف بابائے سوشلزم شیخ رشید بھی تھے، اپنے تحفظات کے حوالے سے ایک محفل میں، میں نے ان سے سوال کیا اور جواب بھی پا لیا تھا وہ سوال پیپلزپارٹی کے پس منظر کے حوالے سے تھا کہ جماعت ایسٹیبلشمنٹ کی جھولی میں تھی اور بے نظیر بھٹو تک بھی لئے دیئے رہتی تھیں۔ مثال کے طور پر بے نظیر بھٹو کے ایسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات ایک خاص نہج کے تھے اور وہ خود کو لئے دیئے بھی رہتی تھیں، تاہم ان کو اپنی جماعت کے راہنماؤں کے فوج کے ساتھ تعلقات پر اعتراض بھی نہیں تھا کہ ان کو اعتماد میں بھی رکھا جائے لیکن آصف علی زرداری صاحب نے محترمہ کی شہادت کے بعد ”پاکستان کھپے“ کے نعرہ سے آغاز کر کے اب تک مفاہمت ہی کی ہے اور شواہد یہ ہیں کہ وہ ایسٹیبلشمنٹ کے ساتھ دوسرے سیاست دانوں کی نسبت زیادہ بہتر تعلقات رکھتے اور حامی ہیں، اس حوالے سے انہوں نے اس طعنے کے جواب میں ایک ترقی پسند کو جواب دیا ”بے شک مفاہمت کی،  میں نے اپنے کارکنوں اور پارٹی کے ساتھ آپ حضرات کو بھی تو بچایا ہے۔“


اب پھر سے آصف علی زرداری اسی حوالے سے زیر بحث ہیں اور ان کی باتوں سے مطلب اخذ کئے جا رہے ہیں حالانکہ بلاول کے اعتراض اور آصف علی زرداری کی تاکید کا نتیجہ یہ ہے کہ وفاقی حکومت نے فوری نوٹس لیا اور ساتھ میں مردم شماری کے ذمہ دار تمام حکام کو ہدایت کر دی گئی کہ وہ ڈیجیٹل مردم شماری کے حوالے سے آج (بدھ) ہی سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علیشاہ  سے ملیں ان کے ساتھ بالمشافہ تبادلہ خیال کے بعد تحفظات کا جائزہ لے کر ان کو مطمئن کریں۔ بلاول بھٹو زرداری یا مراد علی شاہ نے اپنے تحفظات تو عام نہیں کئے تاہم اندازہ ہوتا ہے کہ ان کو ڈیجیٹل مردم شماری کے حوالے سے  یہ تحفظات ہیں کہ اندرون سندھ تعلیم کی سطح شہروں کے مطابق نہیں اور مردم شماری والا عملہ بھی مکمل تربیت یافتہ نہیں اور روائیتی طور پر سکول اساتذہ پر مشتمل ہے، ان سے غلطیوں کا امکان بھی ہے کہ جو تفصیلدرکار ہے اور طے ہے وہ تفصیل سے بہت سی معلومات کے بارے میں ہے، اس میں حسب نسب کے علاوہ ہنر اور ذریعہ معاش اور ملکیت تک کے سوالات شامل ہیں اور یہ عملہ پورا ڈیٹا اپ لوڈ نہ کر سکے گا جبکہ شہروں تک بھی نا مکمل ڈیٹا اپ لوڈ ہو رہا ہے اور صرف افراد خانہ شمار کئے جا رہے ہیں حالانکہ ملکیت تک کے سوالات کے جواب بھی لازم ہیں تاکہ ساتھ ہی خانہ شماری اور اہلیت بھی معلوم ہو سکے۔ مراد علی شاہ سے ملاقات کے لئے وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے حکم دیا ہے جس پر عمل ہوگا۔


اب اگر وہاڑی کے دورے اور انٹرویو کے حوالے سے بات کریں تو بھی کوئی ابہام نہیں انہوں نے اپنی سیاسی پوزیشن واضع کر دی کہ وہ جنوبی اور مرکزی پنجاب میں جماعتی بحالی چاہتے ہیں اور اسی حوالے سے انہوں نے وہاڑی سے خود کو امیدوار بنانے کا بھی وعدہ کیا اور مفاہمت پر کاربند  رہنے کی بھی بات کی ان کا حکومت اور پی ڈی ایم کے ساتھ تعاون وزیر اعظم کی حمایت اور مولانا فضل الرحمن کے ساتھ قربت سے بھی واضع ہے۔ باخبر حضرات کے مطابق ان کو ایک اختلاف تحریک انصاف کے خلاف کمزور مقدمات سے بھی ہے اور شاید اسی تحفظ کے حوالے سے نیب کے حوالے سے حالیہ تبدیل شدہ پالیسی بھی ہے۔ جہاں تک ان کا جماعتی حوالے سے تعلق ہے تو ان کی گرفت مکمل ہے معترض حضرات بھی خاموش ہیں یا قیادت قبول کر چکے۔ ابتدا میں جو حضرات اس گرفت پر معترض اور بلاول سے  توقعات لگائے بیٹھے تھے ان کی تسلی ہی کے لئے بلاول کو وزارت خارجہ دلا کر مستقبل کے وزیر اعظم کے طور پر پیش کر دیا گیا ہے تحفظات والوں کے تحفظات اپنی جگہ وہ اپنی سیاست کرتے چلے جا رہے ہیں اور مفاہمتی عمل سے نہیں ہٹیں گے اور یہ مفاہمت وسیع تر معنوں میں ہے۔

مزید :

رائے -کالم -