غداری کیس میں وکلاءسے متعلق ”ملزم“ کاجواب جمع ،مشرف کے تحریری موقف کے بعد عدالت کاکام آسان ہوگیاہے : سپریم کورٹ
بنچ پر ایک مرتبہ پھرمشرف کا اعتراض ۔۔۔ ہم تو ڈوبے ہیں ، صنم تمہیں بھی لے ڈوبیں گے : جسٹس خلجی عارف
اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) سابق باوردی صدر پرویز مشرف نے غداری کیس میں سپریم کورٹ میں تحریری جواب جمع کرادیاہے اور ایک مرتبہ پھر بنچ پر اعتراض سے متعلق یاددہانی کرائی تاہم تین نومبرکو کیے گئے اقدامات کو ماضی کا حصہ قراردیدیا ۔عدالت نے قراردیاہے کہ سابق صدر کے تحریری موقف آجانے کے بعد عدالت کا کام آسان ہوگیاہے تاہم ایک مرتبہ پھر وفاق نے کارروائی سے گریز کرنے کا عندیہ دیدیاہے ۔ایک موقع پر جسٹس خلجی عارف کا کہناتھاکہ ہم تو ڈوبے ہیں ، صنم تمہیں بھی لے ڈوبیں گے ۔ جسٹس ایس خواجہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے غداری کیس کی سماعت کی ۔ دوران سماعت سابق صدر کی جانب سے ایک صفحے پر مشتمل تحریری جواب عدالت میںپیش کیاگیاجس میں پرویز مشرف نے کہاکہ احمد رضاقصوری اور ابراہیم ستی کے دلائل کو حتمی سمجھیں ، زبانی دلائل میں فرق ہواتو تحریری دلائل کو حتمی سمجھاجائے اور اُنہوں نے وکلاءکے بارے میں وضاحت طلب کرنے پر شکریہ اداکیا۔ سابق صدر کا کہناتھاکہ فاضل عدالت بنچ پر اعتراض زیرغورلائے ،تین نومبر کے فیصلے سے متاثرہ کوئی بھی جج فیصلہ نہیں سن سکتا۔ وکیل کی طرف سے دائر جواب میں کہاگیاہے کہ تین نومبر 2007ءکا اقدام وزیراعظم کی ایڈوائس پر کیاگیا ہے اور اب وہ ماضی کا حصہ بن چکاہے ، آرٹیکل چھ کی کبھی خلاف ورزی نہیں کی ۔ یاد رہے کہ پرویز مشرف کے وکلاءکے دلائل میں تضاد کی وجہ سے عدالت نے ملزم سے تحریری جواب طلب کیاتھاکہ وہ واضح کریں کہ کس وکیل کے دلائل کوحتمی سمجھیں ۔جسٹس جواد ایس خواجہ نے احمد رضاقصوری کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ آپ کے موکل کا تحریری جواب آگیاہے ، اب عدالت کیلئے آسان ہوگیاہے جس پر احمد رضاقصوری نے کہاکہ ایمرجنسی کے نفاذ سے متاثرہ کوئی جج کیس کی سماعت نہیں کرسکتا ۔قصوری نے اپنے دلائل مکمل کرلیے اور موقف اپنایاکہ فیصلے کا اطلاق مستقبل میں ہوسکتاہے ،اکتیس جولائل 2009ءکا عدالتی فیصلہ مستقبل کیلئے تھا۔اُن کاکہناتھاکہ صرف اُن کے موکل کیخلاف کارروائی کرنا امتیازی سلوک ہوگاجس پر جسٹس خلجی عارف نے کہاکہ ہم تو ڈوبے ہیں ، صنم تمہیں بھی لے ڈوبیں گے ۔وکلاءصفائی کے بعد اٹارنی جنرل نے دلائل شروع کردیئے ۔اٹارنی جنرل نے کہاکہ ممکنہ طور پر دو دن میں انتخابات ہورہے ہیں جس پر جسٹس جواد نے استفسار کیاکہ آپ آج کہہ رہے ہیں کہ ممکنہ طور پر ، انتخابات ہورہے ہیں یا نہیں ؟ اٹارنی جنرل نے کہاکہ انتخابات انشاءاللہ ضرورہوں گے جس پر جسٹس خلجی عارف کاکہناتھاکہ وزیراعظم نے اپنی تقریر میں انشاءاللہ کے الفاظ ادا نہیں کیے ۔ اٹارنی جنرل کاکہناتھاکہ پرویز مشرف کیخلاف کارروائی کے سیاسی مضمرات ہوں گے ۔اُنہوںنے کہاکہ سپریم کورٹ کے پاس سنگین جرائم کے تعین ہونے کا اختیار نہیں جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے استفسار کیاکہ کیاآپ وکلاءصفائی کے دلائل کو اپناتے ہیں ؟ یہ بات پرویز مشرف کے وکیل نے کی تھی ۔خلجی عارف کے استفسار پر اٹارنی جنرل نے بتایاکہ تین نومبر اور بارہ اکتوبر کے اقدامات غیرآئینی و غیر قانونی تھے ،آرمی چیف نے آئین معطل کیا، کل کو نیول چیف اورا ٓئی جی پولیس بھی کہے گاکہ آئین معطل کرتاہوں ، آئندہ آئین سے کوئی روگردانی نہیں ہونی چاہیے ،کسی کو کٹہرے میں کھڑا کرنے سے کوئی مقصد حل نہیں ہوگا ،قومی یکجہتی ہونی چاہیے جس پر جسٹس خلجی عارف حسین کاکہناتھاکہ ملک اور قومیں اُس وقت کمزور ہوتی ہیں جب آئین و قانون توڑا جاتاہے ۔اٹارنی جنرل کاکہناتھاکہ حکومت کا مشرف کے خلاف کارروائی کا مینڈیٹ نہیں ، یہ معاملہ منتخب حکومت پر چھوڑ دیاجائے جس پر جسٹس جواد نے کہاکہ آپ مختصر اً یہ کہہ رہے ہیں کہ نگران حکومت نے ایکشن نہیں لینا۔