اب کیا ہوگا؟
اگرچہ لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ اب کیا ہو گا، لیکن کیا ہی بہتر ہو کہ ہم اس پر غور کریں کہ اب تک کیا ہوا ہے؟پاک فوج کے چھے اعلیٰ افسران کی برطرفی کی خبر اور اس سے قبل بلا امتیاز احتساب کی بات نے ایک دفعہ تو حکومت کو ہلا کر رکھ دیا تھا ۔ وزیر اعظم نواز شریف نے فی الفور پانامہ لیکس پر عوام سے ایک اور خطاب کیا اور یاد دلایا کہ احتساب کے دائرے میں جنرل پرویز مشرف کو لانے کی بھی ضرورت ہے جو آئین سے غداری کے مرتکب ہونے کے باوجود مُلک سے باہر چلے گئے ہیں۔ اسی خطاب میں انہوں نے چیف جسٹس کی سربراہی میں انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان بھی کیا ۔ بس پھر کیا تھا ، پی ٹی آئی کو تو جیسے پر لگ گئے اور لوگوں میں ایک مرتبہ پھر یہ تاثر ابھر آیا کہ دوبارہ سے عمران خان کے پیچھے ایک امپائر کھڑا ہونے والا ہے ۔ تاہم اس کے باوجود کہ وزیراعظم لندن میں میڈیکل چیک اپ اور چیف جسٹس انور ظہیر جمالی غیر ملکی دورے سے واپس بھی آ گئے، فوری طور پر سیاسی منظرنامے پر وہ بھونچال نہ آیا، جس کے خدشے اور خواہش میں آدھی قوم ہیجان میں اور آدھی ہذیان میں مبتلا رہی ہے ۔
دوسری جانب عمران خان کی کرشماتی شخصیت عوام کی متاثر کن تعداد کو پہلے ایف نائن پارک اسلام آباد اور پھر چیئرنگ کراس لاہور پر اکٹھا کرنے میں کامیاب ہو گئی تھی، لیکن اس بار علامہ طاہرالقادری ’’نیوٹرل‘‘ تھے اور پاکستان پیپلز پارٹی سمیت بقیہ اپوزیشن جماعتیں عمران خان کو باور کرارہی تھیں کہ اگر انہوں نے سولو فلائیٹ کی تو ان سے خیر کی توقع نہ رکھنا۔ چاروناچار عمران خان کو انٹی گورنمنٹ فلائیٹ کو سلو کرنا پڑا اور یوں چودھری اعتزاز احسن کے گھر میں مشترکہ ٹی او آرز کا ڈول ڈالا گیا۔ ان ٹی او آرز کے مشتہر ہوتے ہی یہ تاثر گہرا ہو گیا کہ اپوزیشن کا مقصد کرپشن کا خاتمہ نہیں،بلکہ وزیراعظم کی حکومت کا خاتمہ ہے۔ افسوس کہ اس حکومتی پراپیگنڈے پر اپوزیشن نے معذرت خواہانہ رویہ اختیار کیااور بجائے یہ کہتی کہ کرپشن کا خاتمہ ان کے نہیں،بلکہ حکومتی اداروں کے اختیار میں ہے اس لئے وہ اپنے ٹی او آرز کو وزیراعظم کی ذات تک محدود رکھیں گے ۔ انہوں نے اس تاثر کو زائل کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی اور تب تک نقصان کا ازالہ نہیں کیا جب تک کہ ان ٹی او آرز کو گہری زک نہیں پہنچ گئی۔اس سے بڑھ کر اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ نہ کر کے اپوزیشن نے ازخود اپنی تحریک کو پنکچر کرلیااور عوام میں پیدا ہونے والی امنگ کا گلا دبا دیا گیا۔
یہی نہیں وزیراعظم نواز شریف نے اپنی عوامی تقریروں میں سخت رویہ اپنایا اور پہلی مرتبہ عمران خان کو کھری کھری سنائیں۔ دھرنے کے دوران ان کا رویہ دیکھ کر لگتا تھا کہ انہیں بات کرنی ہی نہیں آتی اور ان کی حکومت کی سلامتی کا سارا دارومدار ان کے حلیفوں کی نیت پر ہے۔ تاہم اس مرتبہ وزیراعظم نے ترکی بہ ترکی جواب دیا جس سے ان کی سیاسی قوت کی دھاک بیٹھ گئی اور ان کے مخالفین بھی منہ میں انگلیاں دبائے پوچھتے نظر آئے کہ وزیراعظم اس قدر سیخ پا کیوں ہیں؟ ان حلقوں کا خیال تھا کہ وزیر اعظم وہی رویہ اختیار کریں گے جو دھرنوں کے دوران دیکھنے میں آیا تھا اور عمران خان اسی طرح دندناتے پھریں گے جس طرح کنٹینر پر نظر آئے تھے، لیکن اس مرتبہ معاملہ الٹ ہوگیا ہے۔ وزیراعظم شیر اور عمران خان ہیر پھیر کرتے نظر آئے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی عمران خان کو ٹانگوں سے لینا چاہتی ہے، لیکن بانہیں اس کے گلے میں ڈالے ہوئے ہے۔ شیخ رشید دور کھڑے تلملا رہے ہیں ،بلکہ خورشید شاہ سے گلہ کرتے نظر آتے ہیں کہ وہ لال حویلی میں انہیں دعوت دینے کیوں نہیں آئے؟
اب معاملہ اس مرحلے پر آن پہنچا ہے کہ وزیراعظم کی زیر صدارت ہونے والے حلیف جماعتوں کے اجلاس میں کہا گیا ہے کہ اپوزیشن اپنے ٹی او آرز اپنے پاس رکھے ۔ یہ ایک اور بولڈ سٹیٹمنٹ ہے جو وزیراعظم ہاؤس کی جانب سے آئی ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ عوام کی اکثریت حکومت کے ساتھ ہے، آرمی چیف اپنے اسی موقف پر قائم ہیں جو انہوں نے دھرنوں کے دوران اختیار کیا تھا اور سپریم کورٹ کسی صورت بھی ایک سیاسی معاملے میں ٹانگ اڑانے کے حق میں نہیں اس صورت حال میں اپوزیشن مزید کمزور اور منتشر ہوتی نظر آئے گی اور وہ موومنٹ نہیں بن سکے گی، جس کی توقع پانامہ پیپرز کے لیک ہوتے ہی پیدا ہو گئی تھی۔ اس بار ایک اور اہم پیش رفت ہوئی ہے کہ میڈیا کا وہ حصہ جو ان فیئر پلے کررہا تھا ، بُری طرح ایکسپوز ہوگیا ہے اور ان کی بانسری اب زیادہ دیر بجنے والی نہیں ہے۔