مشرق وسطیٰ میں جنگیں،برطانیہ اور فرانس کی سوسال پرانی سازش کا نتیجہ
برلن(مانیٹرنگ ڈیسک) سو سال قبل برطانیہ اور فرانس کے درمیان مشرق وسطیٰ کی تقسیم سے متعلق خفیہ طور پرہونے والا سائیکس پیکو نامی معاہدے کی وجہ سے آج تک یہ خطہ تنازعات، جنگوں اور سازشوں کا شکار ہے۔
جرمن نشریاتی ادار ے ڈی ڈبلیو کے مطابق داعش اپنے طور پر عراق اور شام کے مابین موجود سرحد کا خاتمہ کر چکی ہے۔ جہادیوں کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق اس طرح انہوں نے مغربی سامراج کے مشرق وسطیٰ کے ساتھ ذلت آمیز رویئے کا خاتمہ کر دیا ہے۔ عراق اور شام کے مابین یہ سرحد تقریباایک سو برس تک قائم رہی۔ یہ سرحد برطانوی سفارت کار مارک سائیکس اور فرانسیسی سفارت کار فرانسوا جارج پیکو کے مابین نو مئی 1916ءمیں ہونے والے ایک خفیہ معاہدے کا نتیجہ تھی۔ داعش کی طرف سے جاری کردہ ایک ویڈیو میں سرحد کے خاتمے کو ”سائیکس پیکو کا اختتام“ قرار دیا گیا ہے۔
عرب لوگ سائیکس پیکو معاہدہ کو عربوں کے خلاف ایک مغربی سازش سمجھتے ہیں۔ شام میں سائیکس پیکو معاہدہ تاریخ کی تعلیم کا لازمی جزو ہے جبکہ اس معاہدے کے اثرات اب تک نہ صرف شامی بلکہ تمام عرب بھی محسوس کر رہے ہیں۔
پہلی عالمی جنگ کے دوران اپنی فتح سے پہلے ہی برطانیہ اور فرانس نے سلطنت عثمانیہ کے بڑے حصے وہاں کے لوگوں کی رائے کے بغیر ہی آپس میں تقسیم کر لیے تھے۔ فرانس کے حصے میں آج کے ترکی کے جنوب مشرق سے لے کر شمالی عراق، شام اور لبنان تک کے حصے آئے تھے جبکہ جنوبی علاقے جو کہ موجودہ عراق کے وسط تک پھیلے ہوئے تھے، برطانیہ نے اپنے حصے کے طور پر رکھ لیے تھے۔
اس دوران اس کھیل میں جرمنوں کا بھی کردار رہا۔ جرمن پہلی عالمی جنگ میں اپنے دشمنوں کو مشرق وسطیٰ میں لڑائی کے ذریعے کمزور کرنا چاہتے تھے۔ جرمن اس وقت سلطنت عثمانیہ کے اتحادی تھے۔ جرمنوں نے استنبول کے خلیفہ کو مدد فراہم کی تاکہ یہ خلیفہ عربوں کو برطانیہ کے خلاف ’مقدس جہاد‘ کے لیے تیار کرے۔
جرمن میڈیا کے مطابق اکتوبر 1915 مکہ اور مدینہ کے سربراہ حسین بن علی نامی شخص تھے اور شریف مکہ کا ٹائٹل بھی انہی کے پاس تھا۔ شریف مکہ کا منصب فاطمین مصر کے دور میں 967ءمیں قائم کیا گیا تھا۔ شریف مکہ کا منصب رکھنے والی شخصیت کی بنیادی ذمہ داری مکہ اور مدینہ میں عازمین حج و عمرہ کے لیے انتظام و انصرام کرنا ہوتا تھا اور ترک خلیفہ کے بعد یہ دوسرا بڑا طاقت ور عہدہ تھا۔
اکتوبر 1915ءمیں مصر میں برطانیہ کے ہائی کمشنر ہینری میک موہن نے آخری شریف مکہ ثابت ہونے والے حسین بن علی کو یہ پیش کش کی کہ اگر عربوں نے برطانیہ کی حمایت کی تو وہ ایک سلطنت کے قیام میں شریف حسین کی مدد کریں گے۔ برطانیہ نے یہ یقین دہانی بھی کرائی تھی کہ شریف حسین کی مرضی کے مطابق مخصوص عرب علاقوں کو اس کی سلطنت میں شامل کیا جائے گا۔حسین نے برطانوی ایجنٹ تھامس ایڈروڈ لارنس ( لارنس آف عریبیہ) کے ساتھ مل کر عثمانیوں کو واقعی شکست دے دی۔
لیکن فرانس اور برطانیہ اپنے سائیکس پیکو معاہدے پر قائم رہے۔اور حسین بن علی سے کیا گیا وعدہ پورا نہ کیا۔ اس کانفرنس میں عرب ریاستوں کے قیام کا مطالبہ تو منظور کیا گیا لیکن یہ بھی کہا گیا کہ ایسا صرف ان دونوں ملکوں کی اپنی مرضی سے ہوگا۔ اس وقت کے برطانوی وزیر خارجہ لارڈ جارج کرزن کا کہنا تھا کہ یہ تقسیم برطانوی معاشی مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے کی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’عربوں کے پس پردہ‘ برطانوی معاشی مفادات کا خیال رکھا جائے گا، ”یہ عرب ریاستیں برطانوی رہنمائی اور انتظام میں چلیں گی اور ان کو کنٹرول کوئی پیدائشی مسلمان اور اگر ممکن ہوا تو کوئی عرب ٹیم کرے گی۔“
پیرس امن کانفرنس کے نتیجے میں سب سے پہلے دو ریاستیں شام اور عراق قائم کی گئیں۔ اسی طرح 1922ء میں تیسری ریاست لبنان کے وجود کی بنیاد رکھی گئی۔ اسی برس بین الاقوامی برادری کی طرف سے ایک اور مینڈیٹ سامنے آیا کہ ’یہودی لوگوں کیلئے قومی گھر‘ قائم کیا جائے گا اور یہی بعدازاں یہودی ریاست اسرائیل کی بنیاد بنا۔
اس کے ایک برس بعد 1923ء میں برطانیہ نے امارت شرقِ اردن کو فلسطین سے الگ کر دیا اور اس طرح آج کے اردن کی بنیاد رکھی گئی۔ کویت کو انیسویں صدی کے آخر میں ہی برطانیہ کی حمایت حاصل تھی لیکن پہلی عالمی جنگ کے بعد اسے آزاد ریاست بنا دیا گیا۔
برطانیہ اور فرانس کے اس کھیل میں ایک ایسا نیا ورلڈ آرڈر سامنے آیا، جس کے نتیجے میں تنازعات اور جنگوں کا نہ رکنے والا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین کئی جنگیں ہو چکی ہیں، لبنان کی خانہ جنگی 1975ءسے 1990ءتک جاری رہی۔ اگست 1990ءکی خلیجی جنگ میں عراقی صدر صدام حسین نے کویت پر حملہ کیا۔ اسی طرح ترکی، عراق اور شام کے کرد علاقوں میں بھی حالات کشیدہ ہیں۔
آخر میں سن 2003ءمیں عراق پر کیے جانے والے امریکی حملے نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ اس جنگ کے نتیجے میں داعش پیدا ہوئی، جس نے شامی خانہ جنگی کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ مشرق وسطیٰ کے تازہ حالات اس خطے کے نئی تقسیم کی طرف جائیں یا نہ جائیں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ ماضی میں ان علاقائی ریاستوں میں ایسی بنیادیں رکھ دی گئی تھیں کہ جن کے نتیجے میں تناو¿، بغاوتیں اور جنگیں یقینی تھیں۔