پاکستانی میڈیا اور سیاسی جماعتوں سے دوستانہ توقع
ایرانی شاعر سعدی کہتا ہے:
بنی آدم اعضای یک پیکرند
کہ در آفرینش زیک گوہرند
چوعضوی بدرد آورد روزگار
دگر عضو ہا را نماند قرار
ترجمہ: بنی آدم ایک بدن کے اعضا کے مانند ہیں۔ اس لئے کہ سب کی تخلیق ایک ہی جوہر سے ہوئی ہے۔ جب ایک عضو کسی وجہ سے تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے تو دوسرے اعضا بھی اس کی وجہ سے بے چین ہو جاتے ہیں۔
عصر جدید میں عالمی معاشرہ اس طرح ایک دوسرے سے متصل ہے کہ اگر دُنیا کے کسی دور افتادہ ترین مقام پر کسی ایک انسانی فرد کے ساتھ کوئی ناخوشگوار حادثہ پیش آتا ہے تو تمام دنیا کے باشعور لوگ اس کے ساتھ اظہار ہمدردی کرتے ہیں اور یہی عمل مظلوم کی حمایت اور ظالم کی مذمت تصور کیا جاتا ہے۔ بلاشبہ ظالم کو رائے عامہ کے دباؤ کے نتیجے میں ایک بہت ہی وسیع دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن خاموشی ظالم کی حوصلہ افزائی کے مترادف ہوتی ہے۔خواہ یہ خاموشی غفلت و کاہلی کا نتیجہ ہو یا عمدی ہو۔ ایران اور پاکستان دو اسلامی ہمسایہ ممالک کے طور پر مشترک تاریخی و ثقافتی رشتوں میں منسلک ہونے کے ساتھ ساتھ ہر نشیب و فراز اور خوشی ، غم میں ایک دوسرے کے شریک اور ہر ضرورت میں ایک دوسرے کے مددگار رہے ہیں۔
بلاشبہ ایرانی حکومت پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کی مضبوطی میں کوشاں ہے اور اس سلسلے میں اپنی تمام کاوشوں کو بروئے کار لا رہی ہے۔ یہاں یہ امر قابلِ توجہ ہے کہ گزشتہ ہفتے تہران میں دونوں ممالک کے مشترک کمیشن کا اجلاس منعقد ہوا۔ پاکستان کے پارلیمانی وفد نے سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی قیادت میں تہران کا دورہ کیا، نیز لاہور اور کوئٹہ سمیت پاکستان کے چند بڑے شہروں کے میئرز نے مشہد کا دورہ کیا۔ ان دوروں سے دونوں ممالک کے ایک دوسر ے سے محبت کرنے والوں بالخصوص ایران و پاکستان کے عوام کے دِلوں میں امید کی شمع روشن اور دونو ں ممالک کے تعلقات میں استحکام کی امیدیں دو چند ہو گئی ہیں۔ بالخصوص ان مذکورہ دوروں سے ایک ہفتہ قبل ایران کے مرکزی بینک اور سٹیٹ بینک آف پاکستان نے تعاون کے ایک سمجھوتے پر دستخط بھی کئے اور اس سمجھوتے کے نتیجے میں تجارت کے لئے ایل سی کھلنے سے دو طرفہ تجارت میں اضافے کا امکان ہے۔ نہایت افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے ابھی دو طرفہ تعلقات میں وسعت لئے اٹھنے والے ان مثبت اقدامات اور دستخطو ں کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ وہ دہشت گرد اور بدخواہ عناصر جن کی اپنی اور ان کے سرپرستوں کی آنکھوں میں دونوں ممالک برادرانہ تعلقات کانٹے کی طرح کھٹکتے ہیں دوبارہ سرگرم ہو گئے اور انہوں نے ایران کے گیارہ سرحدی محافظوں کو شہید کر دیا اور موقع کو غنیمت جان کر کہیں پاکستان میں چھپ گئے۔ ان کرائے کے تکفیری دہشت گردوں کی اس مذموم کارروائی نے ایرانی عوام کو سوگوار کیا اور اپنی اور اپنے سرپرستوں کی خوشی کا اہتمام کیا۔
اگرچہ وزارت خارجہ پاکستان نے دہشت گردی اور انتہا پسندانہ کارروائی کی مذمت کے ساتھ ساتھ ملت ایران کے ساتھ اظہار ہمددردی کیا، مگر انتہائی افسوس ہے کہ پاکستانی میڈیا اور پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں نے اس دہشت گردوں کی اس وحشیانہ اور مجرمانہ کارروائی پر نہ صرف خاموشی اختیار کی، بلکہ کمال بے حسی کا مظاہرہ کیا۔ بلاشبہ موقر میڈیا اور معزز سیاسی جماعتوں، این جی اوز اور ممتاز شخصیتوں کی طرف سے اس غیر انسانی اور مجرمانہ کارروائی کی مذمت اور دہشت گردوں کی حوصلہ شکنی اور دوسری طرف ایران کے متاثرہ خاندانوں کی تسلی خاطر کا موجب بن سکتی ہے۔ یہ وہ حقیر سی توقع ہے جو ایران کے عوام پاکستانی میڈیا، سیاسی جماعتوں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور این جی او سے رکھتے ہیں اور یہ کوئی غیر معمولی توقع بھی نہیں ہے۔ میڈیا اور سیاسی جماعتوں اور دیگر تنظیموں کی خاموشی، دہشت گردوں اور انتہا پسند تکفیری عناصر کی مجرمانہ کارروائیوں کی حوصلہ افزائی ، ایک طرف ان دہشت گردوں کے سرپرست اور پاکستان اور ایران کے باہمی تعلقات کے بدخواہوں کی مسرت و شادمانی کا باعث بنتی ہے اور دوسری طرف ایرانی قوم کو اپنے شہید جوانوں کے سوگ میں مبتلا کرتی ہے، جو یقیناًپاکستانی عوام کی مرضی کے خلاف ہے جبکہ میڈیا، سیاسی جماعتوں او ر رائے عامہ کی ہمدردی ایران کے سوگوار خاندانوں کے زخموں پر مرہم رکھ سکتی ہے۔
ایران اور پاکستان کی مشترکہ سرحدیں پاکستان کی آزادی سے لے کر اب تک پُر امن تھیں اور اس امن کا تسلسل دونوں ممالک کے مفاد میں ہے۔ اِس لحاظ سے دونوں ممالک کی حکومتوں اور عوام کو چاہئے کہ اپنی کوششیں ان دہشت گرد عناصر جو کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں اختلاف کے لئے کوشاں ہیں، کی سرکوبی میں صرف کر دیں۔ ان کے سرپرستوں کو مایوس کر دیں اور اس کے برعکس ایرانی اور پاکستانی عوام کے دلوں میں خوشی اور مسرت کے بیج بوئیں اور اپنی دوستانہ اور پرامن سرحدوں کو ہمیشہ کے لئے ان مجرم عناصر سے پاک کر دیں۔ ہم ایرانیوں کے دِل اپنے پاکستانی بہن بھائیوں کے دلوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور ہم خود کو پاکستان کے ساتھ ہم عقیدہ اور ہم نسل سمجھتے ہیں اسی لئے جو بھی کوئی ناگوار حادثہ جو انہیں پیش آتا ہے وہ ہمارے دلوں اور روحوں کو زخمی کرتا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ پاکستانی بھی ہم ایرانیوں کی نسبت یہی جذبات رکھتے ہیں۔ آئیے مل کر دعا کریں کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے منحوس سائے اسلامی ممالک بالخصوص ایران و پاکستان کی سرحدوں سے چھٹ جائیں اور ایران و پاکستان کے عوام میں سے کوئی ان دہشت گردانہ کارروائیوں کے نتیجے میں آزردہ خاطر نہ ہو۔
پاک ایران دوستی زندہ باد