اسرائیل میں پہلی مسلمان خاتون جج

اسرائیل میں پہلی مسلمان خاتون جج
اسرائیل میں پہلی مسلمان خاتون جج

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسرائیل میں 86لاکھ یہودیوں کے درمیان17لاکھ مسلمان بستے ہیں۔اسرائیل کی یہودی اکثریتی اسمبلی میں جہاں پانچ سات سُنّی مسلمان ممبران ہیں،وہاں ایک قادیانی چند،درُوزی اورعیسائی بھی موجود ہیں۔حال ہی میں اسرائیل نے مذہبی عدالتی نظام کے تحت تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک مسلمان خاتون کو جج مقرر کردیاہے۔خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایک قانون دان حنہ منصورخطیب کو تین مردوں کے ساتھ جسٹس کمیٹی میں منتخب کیا گیا ہے جو اِسرائیل میں مسلمانوں کے عائلی قوانین کے لیے عدالت کی قاضی(مذہبی امور) ہوں گی۔اعلامیے کے مطابق جیوش ہوم پارٹی کے وزیر اِنصاف ایلیت شیکید اور کمیٹی کی سربراہ حنہ خطیب منتخب ہوئی ہیں ،جبکہ خاتون جج کی تعیناتی پر کہا گیا ہے کہ’ ’بہت پہلے یہ تقررہوجانا چاہیے تھا۔‘‘حنہ خطیب کا کہنا تھا کہ ’’یہ عرب خواتین اور عرب معاشرے کے لیے بڑی خبر ہے۔‘‘اُن کا کہنا تھا کہ’ ’میں اِس انتخاب پر پُرجوش ہوں اور امید ہے کہ اس سے مزید خواتین کی تعیناتی کے لیے راہ ہموار ہوگی۔‘‘عرب خاتون قانون دان عائدہ توما سلیمان کا کہنا تھا کہ حنہ خطیب کی تعیناتی تاریخی فیصلہ ہے جواُس طویل قانونی جنگ کا نتیجہ ہے جو خواتین کی تنظیموں کی جانب سے لڑی گئی اور اِس سے اسرائیل میں موجود تمام عربوں کو فائدہ ہوگا۔انھوں نے ایک بیان میں کہا کہ ’’یہ وقت کسی بھی کردار کو اَدا کرنے ، فیصلہ سازی اور معاشرے اور ریاست میں کسی پوزیشن میں رہنے کے لیے عرب خواتین کی طاقت پر اعتماد اور راستے میں حائل رکاوٹوں کو دُور کرنے کا ہے ۔‘‘ 

خیال رہے کہ اسرائیل میں عائلی قوانین طلاق، شادی اور نان نفقہ کے مسائل شرعی عدالتوں کے زمرے میں آتے ہیں اور مختلف طبقات کے لیے الگ نظام موجود ہے ۔حنہ خطیب نہ صرف مذہبی عدالت کی پہلی خاتون جج ہیں،بلکہ اُنہیں اسرائیل کی تاریخ میں کسی بھی عدالت میں منتخب ہونے والی پہلی خاتون جج کا اعزازبھی حاصل ہوچکاہے۔ اس سے قبل کسی خاتون نے یہودیوں کی عدالت میں جج کی ذمہ داریاں ادا نہیں کیں۔حنہ خطیب جلدہی اسرائیلی صدررُووَین رِیولین سے حلف اٹھائیں گی۔
خیال رہے کہ اسرائیل میں مذہبی عدالتوں کی تعداد 9 ہے، جبکہ ایک اپیل کورٹ بھی ہے اور خاتون مسلمان جج کی تعیناتی سے اسرائیلی نظام میں مسلمان ججوں کی تعداد 18 ہوگئی ہے ۔ تاہم دوسرے مذاہب کی کوئی خاتون جج تعینات نہیں ہے۔ حتیٰ کہ عیسائی، یہودی اور درُوز مذہب کی کوئی خاتون جج بھی موجود نہیں ہے۔ قبل ازیں 2015ء میں فلسطینی اتھارٹی نے شریعت کورٹ کی خواتین ججوں کی تعیناتی کی مثال قائم کی تھی۔ فلسطینی عدالتوں کے لیے دو خواتین جج تعینات کی گئیں۔حنہ خطیب کی تعیناتی اِسرائیل کی جوڈیشل اپائنٹ منٹس کمیٹی کی طرف سے عمل میں لائی گئی ہے جو ملک بھر میں ججوں کا تقررکرتی ہے۔کمیٹی کے تمام کے تمام 9ممبران بشمول شاس پارٹی کے کئی انتہائی قدامت پرست اراکین نے حنا خطیب کے تقررکے حق میں ووٹ دیے ۔یادرہے کہ اڑہائی سال قبل بائیں بازو کی ایک جماعتMeretz نے عدالتوں میں مسلمان جج خواتین تعینات کرنے کے لیے ایک بل اسمبلی میں پیش کیاتھا،جسے دواِنتہائی قدامت پرست ارکان (وزیرصحت اوروزیرمذہبی امور) کی مخالفت کی وجہ سے نامنظورکردیاگیاتھا۔
اسرائیلی خاتون وزیر انصاف ایلیت شاکید نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ملک کی تاریخ میں پہلی بار ایک مسلمان عرب خاتون کو جج تعینات کیا گیا ہے جو اسرائیل میں مقیم مسلمانوں کے اسلامی شرعی کیس نمٹائے گی۔’’جیوش ہوم‘‘ کی خاتون رہنما شاکید نے کہا کہ مسلمان خاتون جج کی تعیناتی ججوں کی ایک کمیٹی کی طرف سے کی گئی ہے ۔ کمیٹی نے ملکی تاریخ میں حنہ خطیب کو پہلی اسلامی شرعی جج تعینات کیا ہے ۔خیال رہے کہ جسٹس حنہ خطیب نے شریعہ لاکرنے کے ساتھ قانون میں دواضافی ڈگریاں بھی حاصل کررکھی ہیں ۔ وہ عرب اکثریتی آبادی کے علاقہ شمالی الخلیل میں تمرہ قصبے کی رہائشی ہیں اور اسلامی فیملی امور سے متعلق قانون کی ماہر سمجھی جاتی ہیں۔ وہ شادی شدہ ہیں اور چار بچوں کی ماں ہیں۔اسرائیل کے عبرانی ریڈیو سے بات کرتے ہوئے حنہ خطیب نے کہا کہ وہ گزشتہ 17 سال سے ایک وکیل کے طور پر خدمات انجام دے رہی ہیں اورشرعی امور پر گہری دسترس رکھتی ہیں۔
یروشلم پوسٹ کے مطابق شرعی قوانین کے تحت شرعی عدالتوں کے لیے پہلی شرط امیدوارکا شریعت پر عمل پیراہونالازم ہے۔نیزاُمیدوارنے چھ سال پہلے قانون کی ڈگری حاصل کررکھی ہو،یاوِزارتِ تعلیم کی منظورکردہ یونیورسٹی سے کم ازکم شرعی قوانین سیکھنے میں چھ برس لگائے ہوں۔علاوہ ازیں امیدوارکو شرعی امورمیں مہارت کا تحریری امتحان پاس کرناضروری ہے۔شرعی عدالتیں مسلمانوں کے ذاتی معاملات شادی،طلاق،وراثت کی منتقلی اورگھریلو تشددجیسے مسائل کے لیے بنائی گئی ہیں۔یہ عدالتیں خلافت عثمانیہ کے ابتدائی دورسے قائم ہیں۔جنہیں اسرائیل کی اسمبلی Knesset نے 1961میں اسرائیل کے نظام میں شامل کرلیاتھا اوراب یہ عدالتیں وزارت انصاف کے ماتحت ہیں۔یہ عدالتیں یروشلم کی شریعہ کورٹ کے ساتھ اوسطاًبیس کیس روزانہ اورسال بھر میں36ہزارکیسوں کی سماعت کرتی ہیں۔واضح رہے کہ اسرائیل کے سرکاری قانون میں چار شادیوں کی اجازت نہیں۔ اس پابندی کی وجہ سے اسرائیل میں رہنے والے فلسطینی مقبوضہ مغربی کنارے کے علاقوں میں شادیاں کرتے ہیں۔ اسرائیل ایسے شہریوں کی بیویوں کو شہریت نہیں دیتا۔ تاہم اُن کی اولاد کو اِسرائیل کا ریاستی باشندہ قرار دیتا ہے ۔
اسرائیلی عرب قانون سازوں نے خاتون جج کے تقررکویہودی ریاست میں اِسرائیلی عرب خواتین کے لیے بہت بڑی کامیابی اورجنسی برابری سے تعبیرکیاہے۔اُن کا کہنا ہے کہ اسرائیل میں عرب خواتین کی تحریک کے لیے یہ تاریخی اقدام ہے جوکہ نہ صرف عرب مسلمان خواتین کے لیے بلکہ اسرائیل کی تمام آبادی کے لیے سُودمندہے۔ایک انتہائی پسندقدامت پرست ملک میں جہاں مذہبی نظریہ کے علاوہ روایتی طورپر بھی عورتوں کا مذہبی عدالتوں کا جج بنناممنوع ہے،حنہ خطیب کا تقررایک خوش آئنداقدام خیال کیا جارہاہے،لیکن ایک بات روزِروشن کی طرح واضح ہے کہ صیہونیت نے اسرائیل اورفلسطین میں مسلمانوں پر ظلم وستم کی جو خون ریزفضاء قائم کررکھی ہے۔اُس کے پیش نظرعدالت کی کرسی پر براجمان جج ،چاہے کسی بھی مذہب کا ہو،اُس سے مسلمانوں کے لیے عدل واِنصاف کے حصول اوردادرَسی کی توقع دیوانے کا خواب ہے۔

.

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -