تمام سیاسی، دینی اور مذہبی جماعتوں پر امن بحال رکھنا فرض ہے
سندھ بالخصوص کراچی جو صوبہ کا دارالحکومت اور مُلک کا معاشی حب ہے تین عشروں کے بعد قدرے آزاد ماحول میں سانس لے رہا ہے، جس کی وجہ سے سب ہی سیاسی جماعتیں جلسے، جلوس اور یوتھ کنونشن کے ذریعہ اپنی انتخابی مہم چلا رہی ہیں، سندھ کو تین عشرروں سے نسلی اور لسانی سیاست کی نفرت نے اس طرح جکڑا ہوا تھا کہ قومی سیاست کی دعوے دار جماعتوں کو اپنا وجود برقرار رکھنا دشوار رہا۔ 2013ء کے عام انتخاب کے نتیجے میں وجود میں آنے والی مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت نے 3ستمبر2013ء کو تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی کپتانی میں، اس وقت کے آرمی چیف کی کمانڈ میں کراچی میں بدامنی کے خاتمہ کے لئے پولیس اور رینجرز کے جس مشترکہ آپریشن کا آغاز کیا تھا۔ کراچی میں آج جس قدر بھی امن ہے اور ساری سیاسی جماعتوں کو آزادانہ ماحول میں جلسے، جلوس کرنے کی آزادی ہے۔یہ اس آپریشن کا مرہون منت ہے۔ مُلک بھر کی طرح سندھ میں بھی انتخابی مہم تو سال سے زیادہ عرصے سے جاری ہے، اب جلسہ، جلسہ کھیلنے کے کھیل نے انتخابی گہما گہمی کو جہاں نکتہ عروج پر پہنچادیا ہے، وہیں دشنام طرازی غیر شائستہ زبان اور لب و لہجہ میں تلخی کا زہر دوسرے انداز میں نفرت اور تعصب میں صوبہ کو جکڑ رہا ہے، انتہا پسندی کے مہیب سائے پھر اس کے باسیوں کے سروں پر منڈلانے لگے ہیں۔ اس صوبہ کی بدقسمتی 1988ء سے رہی ہے کہ یہاں ہر الیکشن میں ایسی فضا پیدا کردی جاتی ہے یا حالات کے جبر سے پیدا ہو جاتی ہے، سندھ کا انتخابی منظر نامہ دیہی سندھ اور شہری سندھ کی تقسیم کو برقرار رکھنے والوں کی گرفت سے آزاد نہیں ہوپاتا ہے۔بدامنی کے خاتمہ اور شہری سندھ کی سیاست پر الطاف حسین کے پاکستان دشمن نعروں اور پالیسیوں کی وجہ سے ایم کیو ایم ٹوٹ پھوٹ اور دھڑے بندی کا شکار ہوئی، تو پیپلز پارٹی حکومتی لاؤ لشکر کے ساتھ اس جارحانہ انداز میں اہلِ کراچی کو مینڈیٹ حاصل کرنے کی دعویدار بن کر میدان میں کودی ہے کہ ایم کیو ایم کے باہم دست و گریبان دھڑے ’’سیلاب کے خطرے‘‘ کے مانند جان بچاؤ کے لئے اختلاف کو پس پشت ڈال کر ’’مہاجر کارڈ‘‘اور ’’مہاجر ووٹ بنک‘‘ کے تحفظ کا پرچم لے کر مشترکہ پاور شو کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ اس میں کیا شک ہے کہ ٹنکی گراؤنڈ (فیڈل ایریا میں) ایم کیو ایم کے جلسہ کی حاضری پیپلز پارٹی کے جلسہ کے مقابلے میں زیادہ بھی تھی اور اس علاقے میں آباد اُردو بولنے والی کمیونٹی روایتی جوش و خروش کے ساتھ شریک بھی تھی، مگر جس طرح پیپلز پارٹی نے 44 سال بعد اس علاقے میں جلسہ کرنے کے بعد زمینی حقائق کے منافی یہ اعلان کردیا تھا کہ اب وہ کراچی کے فاتح ہیں، اسی طرح ایم کیو ایم کو بھی کسی غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہئے کہ 1988ء سے لے کر 2013ء کے ہر انتخاب میں (ایم کیو ایم جس طرح شہری سندھ کی واحد بارگیننگ ایجنٹ کے طور پر کامیاب ہوتی رہی ہے، اسی طرح 2018ء کے انتخاب میں بھی ہو جائے گی۔ بدلتے سیاسی منظرنامہ میں پیپلز پارٹی یا ایم کیو ایم کے لئے ماضی کے تین عشروں کی طرح محض نسلی اور لسانی سیاست کی نفرت کی آگ بھڑکا کر کامیاب ہونا آسان نہیں رہا۔ اسی طرح ایم کیو ایم کی ٹوٹ پھوٹ اور کمزوری سے پیدا ہونے والے خلاء سے فائدہ اٹھانے کے خواب دیکھنے والی قومی سیاست کی دعوے دار جماعتوں کے لئے بھی کھیل اتنا آسان نہیں ہے۔ جتنا آسان تحریک انصاف کی مقامی قیادت عمران خان کو باور کرا رہی ہے۔ امن و امان کی بہتر صورتِ حال نے ساری جماعتوں کے لئے کام کرنے کا آزاد ماحول ضرور فراہم کر دیا، مگر انتخاب میں ایم کیو ایم کے مقابلے میں کامیاب وہی ہو سکے گا جو کراچی کے حقیقی مسائل کے حل کا قابلِ عمل فارمولا دے گا اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کو انتخابی منشور کا حصہ بنائے گا۔اب مُلک کی تمام سیاسی جماعتوں کو اس کا ادراک کرنا ہو گا کہ سندھ کے مسائل کا حل دیہی سندھ، شہری سندھ کی تقسیم میں ممکن نہیں ہے۔ سلامتی کا واحد راستہ قومی سیاست اور سیاسی کلچر کو پروان چڑھانے میں ہے۔ ایم کیو ایم کے مشترکہ جلسہ میں ڈاکٹر فاروق ستار اور خالد مقبول صدیقی نے متروکہ سندھ صوبہ کا نعرہ لگایا ہے،جس کے اگلے دن 6مئی کو الطاف حسین سے سب سے پہلے بغاوت کرنے والوں کے سرخیل آفاق احمد خان نے لیاقت آباد میں 26سال بعد مہاجر قومی موومنٹ کو اپنے پہلے جلسہ میں جنوبی سندھ کو صوبہ بنانے اور ضلع سنٹر کو ضلع لیاقت آباد کا نام دینے کا مطالبہ کر دیا ہے جو خالد مقبول صدیقی کے متروکہ سندھ صوبہ کے مطالبہ کے مقابلے میں ’’مہاجر کارڈ‘‘ کے نام پر ووٹ دینے والے ووٹرز کے لئے زیادہ قابلِ عمل اور کشش رکھتا ہے۔ اہلِ کراچی کے مسائل کا حل ’’ جاگ مہاجر جاگ‘‘ کے نعرہ کو زندہ رکھنے میں ہے۔
کراچی میں سیاسی گہما گہمی اور جلسے جلوس کے دوران ہی گزشتہ روز افسوسناک تصادم ہوا، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے کارکن ایک دوسرے پر حملہ آور ہو گئے، پتھراؤ، جلاؤ گھیراؤ کی کیفیت پیدا ہوئی، گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچایا گیا اور کیمپ جلا دیئے گئے، بیسیوں افراد زخمی بھی ہوئے رینجرز نے آکر بیچ بچاؤ کرایا دونوں جماعتوں کی طرف سے ایک دوسرے کے خلاف الزام لگایا جا رہا ہے۔ یہ تصادم حکیم سعید پارک میں 12 مئی کو جلسہ کرنے پر ہوا، دونوں جماعتیں جلسہ کرنا چاہتی ہیں، اللہ کرے ان سطور کی اشاعت تک یہ حضرات قابلِ عمل حل پر پہنچ جائیں اور کراچی پُرامن رہے۔
علاوہ ازیں مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو اپنے سیاسی مخالفوں کے خلاف بھڑکا کر ماضی کی انتہا پسندی کی سیاست کو زندہ رکھنے میں کسی کا بھلا نہیں، اُس انتہا پسندی کی سیاست کے آگے بند نہ باندھا گیا تو انتخابی مہم میں ہر روز وزیر داخلہ احسن اقبال پر ہونے والے قاتلانہ حملہ کی طرح کے سانحہ کا سامنا سب کو رہے گا۔ چودہ سو سال سے مسلمانوں کے تمام فقہی مسالک کے ماننے والوں کا اجماع ہے، جس طرح مسلمان ہونے کے لئے ختم نبوت پر اس طرح ایمان رکھنا لازم ہے، جس طرح قرآن پاک اور ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفی ؐ نے رکھنے کا حکم دیا ہے اسی طرح تمام دینی اکابر کا اس امر پر اجماع ہے کہ جو شخص زبان سے ختم نبوتؐ پر ایمان رکھنے کا اقرار کرتا ہے اُسے دائرہ اسلام سے خارج کرنے کا حق کسی کو ہے اور نہ ہی آئین پاکستان یہ حق ریاست کو دیتا ہے کہ وہ ختم نبوتؐ پر ایمان رکھنے کا اقرار کرنے والوں کے ایمان کا فیصلہ کرے۔یہ معاملہ اس علیم و خبیر باری تعالیٰ پر چھوڑ دینا چاہئے، جس سے کسی کے دِل کی بات پوشیدہ نہیں اس کا ازالہ پارلیمینٹ نے انہی الفاظ کو حلف نامہ میں شامل کر کے کر دیا ہے۔
اگر وزیر داخلہ احسن اقبال پر قاتلانہ حملے کا ملزم بقول پولیس کے بیان کے کہ ’’ملزم نے قاتلانہ حملہ کا اعتراف کرتے ہوئے اس کی وجہ ختم نبوت کا معاملہ بتایا ہے‘‘ تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس رجحان کے آگے بند نہ باندھا گیا تو انتخابی مہم کتنی خونریز ہو سکتی ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ تمام مکاتب فکر کے سنجیدہ اہل علم اس طرح کے فتنہ پردازوں کا راستہ روکنے کے لئے بالغ نظری کا مظاہرہ کریں۔ بصورت دیگر انتشار اور فتنہ و فساد برپا کرنے کے علمبرداروں کی چاندی ہو جائے گی۔ اہلِ علم دینی اکابرین کے ساتھ ساتھ ہماری تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت پر بھی لازم ہے کہ وہ دشنام طرازی کی سیاست کے مضمرات کا ادراک کریں۔ عمران خان اور آصف علی زرداری 2013ء کے انتخابی نتائج کو متنازعہ بنانے کے چکر میں سیاسی اخلاقیات کی تمام حدود کو پار کر رہے ہیں۔ وہ اپنی اداؤں پر ذرا غور تو کریں اس کی زد میں ان کے سیاسی حریف میاں نواز شریف سے زیادہ آ رہے ہیں جن کی پشت پر وہ کھڑے ہونے کے دعویدار ہیں۔ عمران خان نے2013ء کے انتخاب میں بیلٹ کے تقدس کو پامال کرنے میں ملوث ہونے کا الزام اس وقت کے حاضر سروس اس اعلیٰ فوجی افسر پر عائد کیا ہے جس کی خدمات فوج نے سیکیورٹی کے لئے الیکشن کمیشن کو فراہم کی تھیں، اسی طرح آصف علی زرداری نے عدالتی عملے(آر اوز) پر الزام لگایا ہے جو سپریم کورٹ کے حکم پر الیکشن کمیشن کو فراہم کئے گئے تھے۔ ان الزامات کی وضاحت فوج اور عدلیہ کی طرف سے آنا ضروری ہے اور یہ اہم اس لئے بھی ہے کہ 2018ء کے انتخابات بھی الیکشن کمشن فوج اور عدلیہ کی نگرانی میں کرائے گا، سنجیدہ سیاسی حلقے آصف علی زرداری کے اس دعویٰ کو بھی اِسی پس منظر میں دیکھ رہے ہیں جس میں انہوں نے 2018ء کے انتخاب میں بڑی تعداد میں آزاد امیدواروں کی کامیابی کی نوید سنا کر ان کے تعاون سے اپنی مخلوط حکومت تشکیل دینے کا دعویٰ کیا ہے، پاکستان کی بقا و سلامتی کے لئے اور قومی یکجہتی کو برقرار رکھنے کے لئے ہر طرح کی’’ مینی پولیشن‘‘ سے پاک۔ صاف شفاف آزادانہ، مصفانہ غیر جانبدارانہ وقت مقرہ پر انتخاب کا انعقاد ناگزیر ہے اور اس کے ساتھ ساتھ عدلیہ اور فوج کے اداروں کو غیر متنازعہ رکھنا بھی لازم اور ضروری ہے۔ یہ سیاست دانوں اور ریاستی اداروں کی بھی مشترکہ قومی ذمہ داری ہے۔