بابر ستارکے کالم میں عائدالزامات بے بنیادہیں،ترجمان نیب
اسلام آباد(خصوصی رپورٹ)قومی احتساب بیورو(نیب) کے ترجمان نے وضاحت کی ہے کہ 5مئی2018 کو’’دی نیوز‘‘میں چھپنے والے بابر ستار کے آرٹیکل’’ہمارے ساتھ ہو یا مخالف‘‘ میں امتیا ز عنایت الہٰی کے بارے میں نیب پر جوالزامات عائد کئے گئے ہیں ،وہ سراسر غلط اور مفروضے پر مبنی ہیں۔وہ اپنے آرٹیکل کے ذریعے عوام میں یہ تاثر تخلیق کرنے میں منہمک ہیں کہ نیب غیر جانبدارانہ اور صاف شفاف احتساب نہیں کرتااور وہ میڈیا کے ذریعے نیب کی غیر جانبدارانہ تفتیش پر بھی بے بنیاد اعتراضات اٹھا کر ایک مہم کے ذریعے رائے عا مہ کونیب کیخلاف گمراہ کررہے ہیں۔جبکہ صورتحال اس کے بر عکس ہے اورنیب ملک بھر میں اپنی کارروائیوں کے ذریعے صاف شفاف و آزاد ا نہ احتساب پر یقین رکھتا ہے۔پلڈاٹ ،قومی ،بین الاقوامی اور ورلڈ اکانومک جیسے فورم بھی اس کی شفافیت کی گواہی دے چکے ہیں۔ کلچرل کمپلیکس آف شکر پڑیاں اسلام آبادکے کیس کے حقائق پربریف کرتے ہوئے ترجمان نے کہا یہ ایک خود مختار منصوبہ تھا جس کی سی ڈی اے اورڈی ڈبلیو پی جیسی بااختیار اتھارٹیوں نے 13اجلاسوں کے بعد منظور ی دی ۔فزیبلٹی رپورٹ اور اخراجاتی تخمینہ کیساتھ ساتھ اس پر مزید بھی رسمی اور غیر رسمی کام کیا گیا، نیب نے اس پر 2007سے 2009تک اپنی تحقیقات کیں جو بغیر کسی دباؤ یا سفارش کے تھیں اور اس ضمن میں ادارے نے کسی قسم کی جانبداری یا تعصب کا مظاہرہ نہیں کیا۔ملزم امتیاز عنایت الہٰی نے بطور چیئرمین سی ڈی اے جون 2009میں چا رج لیا اور انہوں نے سائٹ پر جاکر مذکورہ منصوبے کامعائنہ کیا،اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے اور ٹھوس وجوہات کے بغیر کام بند کرا دیا،اسکے علاوہ سابق چیئرمین سی ڈی امتیاز عنایت الہٰی نے اور بھی بے ضابطگیاں کیں جن کی وجہ سے منصوبے کے تعمیراتی اخرا جات 471ملین بڑھ گئے، جبکہ مزید نقصانات اس کے علاوہ ہیں۔20اپریل2018میں ایگزیکٹو بورڈ کی میٹنگ میں درج بالا وجوہات جن میں تعمیراتی کام رکوانے ، اختیارات کے ناجائز استعمال اور دیگر سنگین بے ضابطگیوں کے الزامات کی بنا پر فیصلہ کیاگیا کہ امتیازعنایت الہٰی کیخلاف نیب عدالت اسلام آبادمیں ایک ریفرنس دائر کیا جائے۔ نیب کے پاس اس ضمن میں ٹھوس شواہد اورثبوت موجود ہیں جنہیں احتساب عدالت اسلام آباد میں بطور ریکارڈ پیش کیاجائیگا۔نیب امید کرتا ہے اس کیخلاف کچھ چھاپنے سے پہلے میڈیانیب سے رابطہ کر لیا کرے تاکہ حقیقت واضح ہو جائے۔
ترجمان نیب