پیپلز پارٹی نے گلشن اقبال کی بجائے مزار قائد اعظم کے سامنے جلسے کا پروگرام بنا لیا
تجزیہ :قدرت اللہ چودھری
کہا جاتا ہے نادان لوگ بھی بالآخر وہی کچھ کرتے ہیں جو دانا کرتے ہیں لیکن خرابی بسیار کے بعد، ہم یہ تو نہیں کہتے کہ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف میں زیادہ دانا کون ہے، کیوں کہ دعوے تو دونوں جانب دانائی کے ہیں لیکن عمل نادانوں والے ہیں، کراچی پر ایم کیو ایم کی گرفت ڈھیلی کیا ہوئی، ہر کوئی اس خلا کو پُر کرنے کے لئے دیوانہ ہوا پھرتا ہے، جس نے 44 سال بعد لیاقت آباد میں جلسہ کر لیا، وہ بھی خوشی سے پھولے نہیں سما رہے اور جو جنرل (ر) پرویز مشرف کے صدارتی ریفرنڈم میں اُن کے ساتھ تھے اور یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ شاید اُن کے صدقے اُنہیں بھی اقتدار کی خیرات میں سے کوئی حصہ مل جائے، وہ بھی اب بارہ مئی کی یاد منانا چاہتے ہیں۔ اگر آپ بھول گئے ہیں تو یاد دلائے دیتے ہیں کہ 12 مئی 2007ء وہ سیاہ دن تھا جب کراچی کی سڑکوں پر خون کی ہولی کھیلی گئی، مسلح افراد نے میڈیا ہاؤسز کو اپنی نشریات بند کرنے پر مجبور کیا اور جو نہ مانے اُن کی نشریات کے پلگ کھینچ کر زبردستی بند کرا دی گئیں، اس روز وکلاء اور سیاسی کارکن بھی شہید ہوئے اور عام لوگ بھی، اس وقت کے چیف جسٹس افتخار احمد چودھری کو جنرل (ر) پرویز مشرف نے زبردستی ہٹا کر اپنی پسند کی سپریم کورٹ تشکیل دے دی تھی، وکلاء چیف جسٹس کی بحالی کی تحریک چلا رہے تھے اور اس روز اسلام آباد سے کراچی جا رہے تھے۔ وہ کراچی پہنچ گئے لیکن اُنہیں ہوائی اڈے سے باہر نہ آنے دیا گیا۔ وہ کئی گھنٹے تک ہوائی اڈے پر ہی موجود رہے۔ اس دوران شہر عملاً مسلح افراد کے حوالے رہا، جن کے پاس ایسا جدید اسلحہ تھا جو اس سے پہلے کسی کے پاس نہیں دیکھا گیا، معلوم نہیں یہ اسلحہ کس چینل سے حاصل کیا گیا تھا۔ سارا دن شہر کو خون میں نہلایا جاتا رہا، مجبوراً افتخار چودھری واپس آ گئے۔ اسی شام اسلام آباد میں جنرل (ر) پرویز مشرف نے پارلیمینٹ ہاؤس کے سامنے ڈی چوک میں اپنا جلسہ رکھا ہوا تھا، اُنہوں نے اس جلسے میں کراچی کے واقعات کا بڑے فخر سے اعلان کیا اور مُکے لہراتے ہوئے کہا دیکھ لی عوام کی طاقت، جنرل پرویز مشرف اپنی اس کامیابی پر مسرت کا اظہار کر رہے تھے جو افتخار چودھری کو کراچی ایئرپورٹ سے باہر نہ نکل سکنے کی صورت میں ہوئی تھی۔ اب اس 12 مئی کی یاد منائی جا رہی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ جو لوگ اس وقت جنرل (ر) پرویز مشرف کے ساتھ تھے وہ کس کی یاد منا رہے ہیں، ان زیادتیوں کی جو جنرل نے روا رکھیں یا ان مرحومین کی جو ایک محصور ماحول میں زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ تو بارہ مئی کا پس منظر ہے، اس دن کی یاد منانے کے لئے پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف نے گلشن اقبال کراچی کے حکیم سعید پارک میں جلسے کا پروگرام بنا رکھا ہے، عجیب بات ہے کہ دونوں جماعتوں کی نظرِ انتخاب حکیم سعید پارک پر ہے، حالانکہ کراچی میں عام جلسوں کے لئے بہت سی جگہیں دستیاب ہیں۔ بڑی آسانی کے ساتھ ان میں سے کسی ایک کا انتخاب کیا جا سکتا تھا، پیپلزپارٹی نے اس جگہ جلسے کے لئے 4 مئی کو ڈسٹرکٹ ایسٹ کی ضلعی انتظامیہ کو درخواست دی تھی، جس پر اسے جلسے کی اجازت دے دی گئی۔ اس اجازت کی روشنی میں پیپلزپارٹی جلسے کی تیاریاں کر رہی تھی، تحریک انصاف بھی اس جگہ جلسہ کرنا چاہتی تھی لیکن اس نے نہ تو اس مقصد کے لئے ضلعی انتظامیہ کو باقاعدہ کوئی درخواست کی اور نہ ہی کسی ذمے دار کو اپنے اس ارادے سے آگاہ کیا، ایسی صورت میں پیپلزپارٹی کا حق فائق تھا لیکن گزشتہ روز دونوں پارٹیوں کے درمیان جو افسوس ناک تصادم ہوا، جس میں املاک کے نقصان کے علاوہ بہت سے لوگ زخمی بھی ہوئے، اس کے بعد پیپلزپارٹی نے وسعتِ قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فیصلہ کیا ہے کہ تحریک انصاف اگر اس جگہ جلسہ کرنے پر مصر ہے تو کر لے، پیپلزپارٹی کسی اور جگہ جلسہ کر لے گی، لیکن یہ فیصلہ پہلے بھی کیا جا سکتا تھا۔ اس کے لئے تصادم کا انتظار کیوں کیا جا رہا تھا؟ اس سلسلے میں لاہور کے گریٹر اقبال پارک میں تحریک انصاف کے حالیہ جلسے کا حوالہ دینا ضروری ہے۔ اس پارک کو کروڑوں روپے کے اخراجات کے بعد پارک کی شکل دی گئی ہے جو اب کسی جلسے کے لئے موزوں جگہ نہیں رہ گئی کیونکہ جگہ جگہ پھولوں کی کیاریاں، گھاس کے قطعات اور تفریح کے دوسرے لوازمات بنا دیئے گئے ہیں۔ کھلی جگہ بہت کم رہ گئی ہے، کسی جلسے کے شرکا جب اس جگہ پہنچتے ہیں تو پارک کو کافی نقصان ہوتا ہے لیکن ایسے محسوس ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتیں بضد ہیں کہ انہیں اس جگہ جلسہ کرنا ہے حالانکہ اس جگہ اب سامعین دلجمعی کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے۔ تحریک انصاف کو اس جگہ جلسے کی اجازت نہیں دی گئی تھی لیکن اس کے رہنما تقریباً روزانہ یہ اعلان کرتے تھے کہ اجازت ملے نہ ملے وہ جلسہ اسی جگہ کریں گے، چنانچہ تحریک انصاف نے جلسہ یہیں کیا اور اب انتظامیہ نے پارک کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ کرنے کا تحریک انصاف سے مطالبہ کیا ہے جو 23لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ اس سے پہلے جماعت اسلامی نے اپنے یوم تاسیس کے لئے بھی یہی جگہ پسند کی تھی۔ اب ایم ایم اے بھی 13 مئی کو یہاں جلسہ کر رہی ہے۔ لگتا ہے اس پارک کی انتظامیہ غریب کی جورو ہے جس سے چھیڑخانی ہرکوئی اپنا حق سمجھتا ہے۔