وہ کم عمر ترین صحابیؓ جنہیں رسول اللہ ﷺ نے حاکم مکہ بنایاتھا،سرکار عالم ﷺ نے انہیں یہ کیوں ذمہ داری عطا فرمائی ؟آپ بھی جانئے اسلام میں تقوی ٰ اور جراتمندی کی کیا اہمیت ہے

وہ کم عمر ترین صحابیؓ جنہیں رسول اللہ ﷺ نے حاکم مکہ بنایاتھا،سرکار عالم ﷺ نے ...
وہ کم عمر ترین صحابیؓ جنہیں رسول اللہ ﷺ نے حاکم مکہ بنایاتھا،سرکار عالم ﷺ نے انہیں یہ کیوں ذمہ داری عطا فرمائی ؟آپ بھی جانئے اسلام میں تقوی ٰ اور جراتمندی کی کیا اہمیت ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

عام طور یہ اعتراض اٹھایا جاتا ہے کہ انصاف اور امن عامہ کی کرسی پر کسی نوجوان اور کم عمر کو نہیں بٹھانا چاہئے کیونکہ وہ عاقل اور تجربہ کار نہیں ہوتا ۔اسلام ایسی قدغن کو قبول نہیں کرتا بلکہ اسلام میں تقویٰ پرہیزگاری اور استقامت کی بنیاد پر ذمہ داریاں تفویض کرنے کا سب سے بڑا قدم رسالت مآب ﷺ نے اٹھایا تھا ۔آپﷺ نے فتح مکہ کے بعد کہ جب مکۃ المکرمہ سے ایک بڑھ کر ایک صالح متقی اور بااثر شخصیات اور اکابر صحابہ موجود تھے ،رسول خداﷺ نے ایک انیس سالہ نوجوان صحابی حضرت عتاب بن السیدؓ کو والی و حاکم مکہ مقرر کردیا تھا ۔ ایک روایت سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت عتاب بن اسید کو حضور انورﷺ نے طائف سے مراجعت فرمائی کے بعد عامل مکہ مقرر کرنے کے بعد ارشاد فرمایا کہ’’ اے عتاب! تم جانتے ہو کہ میں نے تم کو کن لوگوں پر عامل بنایا ہے؟ اگر میں ان کے لئے تم سے بہتر کسی اور کو سمجھتا تو اسی کو ان پر عامل بناتا‘‘۔
فتح مکہ کے بعد جن حضرات نے شرف ایمان پایا ان میں ایک نہایت اہم اور نمایاں شخصیت حضرت عتاب بن اسیدؓ کی ہے جنھیں رسول اللہﷺ نے والی مکہ مکرمہ مقرر فرماکر دارین کی سعادتوں سے مالامال فرما دیا۔ حضرت عتاب بن اسیدؓ قلب سلیم کے مالک اور قبول حق کا صحیح جذبہ رکھتے تھے فتح مکہ کے موقع پر انھیں رسول اللہﷺ کی دعوت توحید و رسالت کی عظمت اور اسلام کی حقانیت کا پوری طرح احساس و یقین ہو گیا اس لئے بغیر کسی دباو کے وہ بطیب خاطر خود حضور اقدسﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر شرف ایمان سے ممتاز ہوئے۔ اس وقت ان کی عمر کم و بیش اکیس سال تھی۔ رسول اللہﷺ نے قبل ازیں مکہ کے جن چار لوگوں کے بارے میں ارشاد فرمایا تھا کہ وہ شرک سے دور اور ایمان و اسلام سے قریب ہیں ،ان میں سے ایک عتاب بن اسید بھی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ موقع ملتے ہی انھوں نے اسلام سے وابستگی اختیار کر لی۔
حضرت عتاب بن اسیدؓ امیہ بن عبد شمس کی نسل سے تھے اور قریش کی ایک نہایت اہم شاخ سے تعلق رکھتے تھے ان کی کنیت ابو عبد الرحمن تھی والدہ محترمہ کا نام زینب بنت عمرو تھا ۔وہ بھی عبد شمس کے خاندان سے تھیں۔ والد والدہ دونوں طرف سے وہ قریشی تھے۔
حضرت عتاب بن اسید عہد رسالت میں والی مکہ رہے۔ انھیں رسول اللہﷺنے دو چادریں مرحمت فرمائی تھی اور ان کے گزارہ کے لئے دو درہم یومیہ کا وظیفہ مقرر فرما دیا تھا۔ حضرت عتاب بن اسیدؓ حضرت صدیق اکبرؓ کے عہد خلافت میں بھی والی مکہ کے منصب پر برقرار رہے اور جس دن حضرت ابو بکرؓ کی وفات شریف ہوئی اسی دن حضرت عتابؓ نے بھی اس دار فانی کو کوچ کیا۔ عمر شریف 25 یا 26سال ہوئی۔ اتنی کم عمری میں حضرت عتابؓ نے اپنے تقویٰ و پرہیزگاری، محبت خدا و رسولﷺ اور اپنے فرائض منصبی کا کما حقہ ذمہ داریوں کو پورا کرکے ایسے گہرے نقش قائم کئے جس کی مثال نہیں ملتی۔

مزید :

روشن کرنیں -