فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر423
پورا خاندان سینما گھر پہنچا ،فلم شروع ہوئی اور ظہور راجا نے اپنا دیدار کرانا شروع کیا۔مگر آگے چل کر وہ سین آیا جس میں ظہور راجا کی پٹائی ہونے لگتی ہے ۔یہ دیکھ کر اس کی ماں اور بہنیں تو بلبلا اٹھیں مگر راجا صاحب نے وہیں بیٹھے بیٹھے تھانے درانہ آواز لگائی ’’ہورمار ،بمبئی جا کر کنجر بن گیا اے۔‘‘
جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے ہماری فلم میں سورن لتابھی تھی۔اسے دیکھ کر ہمیں اس کی کئی سال پرانی فلم یاد آگئی جس میں اس کا گانا ’’اکھیاں ملا کے‘جیا برما کے ،چلے نہیں جانا‘‘زباں زدعام ہوا کرتا تھا۔اب ہم نے ان کو نہایت کم گو،مدبر ،سنجیدہ اور انتہائی با وقار پایا۔وہ اکیلی اپنے کمرے کے برآمدے میں بیٹھی رہتی اور دوسروں کمروں کے گرد چکر کاٹنے والوں کا تماشہ دیکھتی۔
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر422 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
کاردار فلم میں لمبے مکالمے کا قائل نہیں تھا ،ان کا کہنا تھا کہ ریڈیو ڈراموں کی کہانی مکالمے کے ذریعے آگے چلتی ہے مگر فلم میں تو سیلو لائیڈ یعنی تصویر خود بولتی ہے۔اسی لیے فلموں کے عالمی مقابلوں میں تمام فلمیں بغیر ساؤنڈ ٹریک کے دکھائی جاتی ہیں ۔یہ فلم جو ہم بنا رہے تھے اس میں بھی مکالمے کا فقدان تھا ۔اس لیے سورن لتا ایک روز ہم سے پوچھنے لگی ’’نقوی صاحب ،کیا یہ سائیلنٹ فلم بن رہی ہے ؟‘‘
اس دوران ہم نے پشاور کلب میں فریدہ خانم ایک گانا بھی فلم بند کیا ۔کلام فیض صاحب کا ۔۔۔
ہم گھوم پھر کے کوچہ قاتل سے آئے ہیں ۔
اور آواز فریدہ کی ۔بس سماں بند ھ گیا۔مگر مصیبت یہ ہوئی ہے کہ کلب کے تمام ممبران شراب کے نشے میں دھت وہاں آ دھمکے اور ہمیں کئی ری ٹیک کرنے پڑے ۔
اس فلم کے ایک سین میں شبنم کو بطور فوجی نرس پیش کرنا تھا لہذا اس کے لیے وردی درکار تھی ۔ہم فوراََ سی ایم ایچ کے نر سنگ ہاسٹل پہنچے اور میٹرن سے اپنا مدعا بیان کیا ۔وہ کہنے لگی وردی تو آپ کو مل جائے گی مگر پہنائیں گے ہم خود ۔آپ فلموں والے (یعنی ہمیں یہ بھی سننا تھا )نرسوں کو بڑے غلط انداز میں پیش کرتے ہیں ،اسے وارڈ میں مریضوں کے درمیان اچھلتے کودتے اور گانا گاتے دکھاتے ہیں ۔ہم شبنم کو خود سمجھائیں گے کہ نرس بن کر کیسے چلنا پھرنا چاہیے۔
شام ہوئی تو ہم شبنم کو سی ایم ایچ کے نرسنگ ہاسٹل لے گئے ۔مگر یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ وردی پہنانے کی رسم ادا کرنے کے لیے اسپتال کی تمام نرسیں موجود تھیں پھر وہاں پر ایک اور مصیبت کھڑی ہو گئی ۔شبنم خاصی دراز قد ہے اور اسے کسی کی شلوار پوری نہیں آرہی تھی ۔مجبوراً ہم بھاگ کر اپنے ایک افسر کے گھر گئے اور اس کی دراز قد کی بیوی کی منت کر کے لٹھے کی شلوار مستعار لے آئے ۔یہ الگ بات ہے کہ چند روز بعد جب ہم یہ شلوار واپس کرنے گئے تو انہوں نے اسے صحن میں پرے کوڑے کے ڈھیر میں پھینک دیا ۔خیر باقی تو سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہو گیا پر ہماری شوٹنگ کوئی دو گھنٹے لیٹ سٹارٹ ہوئی ۔
ہر فلم کا ایک باقاعدہ ایک اسکرپٹ ہوتا ہے جس میں ہر تفصیل درج ہوتی ہے ۔یعنی فلاں سین اس طرح ہو گا ۔اس میں فلاں فلاں یہ کپڑے پہنیں گے۔اس کے لیے یہ سامان درکار ہو گا مگر ہماری اس فلم کا کم از کم ہمارے پاس کوئی اسکرپٹ نہیں تھا ۔بس ہر بات کاردار کے اپنے دماغ میں بیٹھی ہوئی تھی ۔بیٹھے بیٹھے کہتا چلو فلا ں لوگوں کو ساتھ لو، وارسک ڈیم پر شوٹنگ کرنی ہے یاجھیل کے کنارے سین فلمائیں گے۔ہم حکم کی بجاآوری کرتے تھے ۔ہمیں کچھ معلوم نہ ہوتا تھا کہ فلم کے سین کے لیے کیا کیا چاہیے ۔ایک شام ہم پشاور سے کوئی8 یا 10 میل دور پشاور کالونی پہنچے ۔وہاں فضائیہ کے افسر فیملی کے ساتھ رہا کرتے تھے ۔شوتنگ شروع ہوئی اور چلتی رہی ۔رات کوئی بارہ بجے کاردار کہنے لگا کہ دو سپاہی چاہیں جن کے ہاتھوں میں اسٹین گن ہو۔سپاہی تو اس وقت وہاں موجود تھے مگر اسٹین گنیں کہاں سے آئیں؟مجبوراََ ہمیں شاور سے واپس آکر آرما منٹ افسر کو جگانا پڑا۔اس نے آ کر آرمری کھولی اور دو عدد اسٹین گنیں ہمارے حوالے کیں۔ہم لے کر گاڑی بھگاتے ہوئے وارسک پہنچے اور وہ اسٹین گنیں پیش کیں ۔کاردار نے ان کی طرف دیکھا تک نہیں ۔کہنے لگا میں نے سین کا وہ حصہ کاٹ دیا ہے،اب ان کی ضرورت نہیں ،ہم تو سر پیٹ کے رہ گئے۔
ایک مرتبہ کاردار کو جو سین فلمانے کی سوجھی وہ بھی وارسک میں ہی تھا ۔اس میں روزینہ اور اس کی سہیلی شبنم علی الصباح ایک مکان کے سامنے کھڑی دکھائی جاتی ہیں ۔اوپر سے ایک ون او فور(104)طیراہ چڑھتے سورج کی طرف پرواز کرتا ہوا گزرتا ہے اور یہ دونوں اسے دیکھ کر ہاتھ ہلاتی ہیں ۔
اب باقی تو سب کچھ ٹھیک تھا مگر ون او فور طیارے صرف سرگودھا میں تھے۔سو ہم نے وہاں کے بیس کمانڈر کو فون کیا۔
ان دنوں ظفر چوہدری صاحب وہاں تعینات تھے ۔ہم نے کہا ’’سر کل صبح پانچ بجے ایک ون او فور طیارہ چاہیے جو وارسک کے اوپر پرواز کرے اسے ہم نیچے سے کنٹرول کر لیں گے۔‘‘
’’ظفر چوہدری بھنا گئے ۔کہنے لگے کون بول رہا ہے؟‘‘
ہم نے کہا ’’فلائٹ لیفٹیننٹ نقوی۔‘‘
غصے سے بولے ’’کس سے بات کر رہے ہو ؟ ‘‘
ہم نے بڑے آرام سے کہا ’’بیس کمانڈر سرگودھا سے،یہ سی این سی کا آرڈر ہے۔‘‘
جھنجھلا کر بولے ’’ڈیم اٹ !صبح پہنچ جائے گا۔‘‘
اب پشاور کی سردی اور اتنے سویرے روانگی ۔ہم نے ڈین ہوٹل کے مینجر کو کڑا حکم دیا کہ صبح چار بجے جگا کر شبنم اور روزی کو ناشتہ کروا دینا۔لیلی کی فکر نہیں تھی وہ ہمارے ساتھ صبح تین بجے بھی تیار تھی ۔پورا یونٹ وقت پر وارسک پہنچ گیا روزی اور شبنم کو ایک افسر کے گھر کے سامنے کھڑا کیا اور گھر والوں کو سختی سے منع کیا کہ وہ کھڑ کیوں سے نہ جھانکیں۔ادھر سورج نمودار ہوتے ہی 104بھی پہنچ گیا۔وہ اوپر سے اتنی تیزی سے گزرا کہ یہ پری نما چہرے اسے دیکھتے ہی رہ گئے اور ہاتھ ہلانا بھی بھول گئے۔مجبوراََاس طیارے کے پائلٹ عارف اقبال سے دو چکر مزید لگوانے پڑے ۔
شوٹنگ ختم کر کے واپس پشاور پہنچے تو شبنم پوچھنے لگی کہ آج کوئی اور کام تو نہیں ؟ہم نے کہافی الحال تو نہیں۔تو کہنے لگی پھر آج مجھے لنڈی کوتل میں شاپنگ کروا دو۔
وہاں واپسی پر اسلامیہ کالج کے سامنے بڑی کڑی چیکنگ ہوتی تھی ۔ہم نے فوراََوردی پہنی اور شبنم اور روبن گھوش کو لنڈی کوتل لے گئے۔وہاں شبنم نے 28ہزار کی شاپنگ دے ماری۔ہم نے مذاق سے کہا کہ آج تو تم نے بڑے پیسے خرچ ڈالے ۔کہنے لگی کوئی بات نہیں یہ تو میں نے رات طارق عزیز سے جیتے تھے۔معلوم ہوا کہ ہمارا مینجر کو تڑی لگانا بے سود رہا ،شبنم تو صبح چار بجے تک تاش کھیلتی رہی تھی۔(جاری ہے )
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر424 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں