فیضان لیلۃ القدر

فیضان لیلۃ القدر

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


مولانا محمد الیاس عطار قادری 

لیلۃ القدر انتہائی برکت والی رات ہے اس کو لیلۃ القدر اسلئے کہتے ہیں کہ اس میں سال بھر کے احکام نافذ کئے جاتے ہیں یعنی فرشتے رجسٹروں میں آئندہ سال ہونیوالے معاملات لکھتے ہیں جیساکہ تفسیر صاوی مذکور ہے ”اسے (امور تقدیر کو) مقرب فرشتوں کے رجسٹروں میں ظاہر کر دیا جاتا ہے“ اور بھی متعد شرافتیں اس مبارک رات کو حاصل ہیں۔ مفسر شہیر حکیم الامت حضرت مفتی احمدیار خان علیہ رحمۃ الحنان فرماتے ہیں ”اس شب کو لیلۃ القدر چند وجوہ سے کہتے ہیں (۱)اس میں سال آئندہ کے مکہو مقرر کر کے ملائکہ کے سپرد کر دئیے جاتے ہیں۔ قدر بمعنی تقدیر یا قدر بمعنی عزت یعنی عزت والی رات۔ (۲)اس میں قدروالا قرآن پاک نازل ہوا۔ (۳)جو عبادت اس میں کی جائے اسکی قدر ہے۔ (۴)قدر بمعنی تنگی یعنی ملائکہ اس رات میں اس قدر آتے ہیں کہ زمین تنگ ہو جاتی ہے۔ ان وجوہ سے اسے شب قدر یعنی قدر والی رات کہتے ہیں“۔ 
بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ ”جس نے اس رات میں ایمان اور اخلاص کیساتھ قیام کیا تو اس کے عمر بھر کے گزشتہ گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں“۔ لہٰذا اس مقدس رات کو ہرگز ہرگز غفلت میں نہیں گزارنا چاہئے۔ اس رات عبادت کرنے والے کو ایک ہزار ماہ یعنی تراسی سال چار ماہ سے بھی زیادہ عبادت کا ثواب عطا کیا جاتا ہے اور اس ”زیادہ“ کا علم اللہ عزوجل جانے یا اسکے بتائے سے اسکے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جانیں کہ کتنا ہے۔ اس رات میں حضرت سیدنا جبریل علیہ السلام اور فرشتے نازل ہوتے ہیں اور پھر عبادت کرنے والوں سے مصافحہ کرتے ہیں۔ اس مبارک شب کا ہر ایک لمحہ سلامتی ہی سلامتی ہے اور یہ سلامتی صبح صادق تک برقرار رہتی ہے۔ یہ اللہ عزوجل کا خاص الخاص کرم ہے کہ یہ عظیم رات صرف اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے امت مسلمہ کو عطا کی گئی۔ اللہ عزوجل قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ”بیشک ہم نے اسے شب قدر میں متموم اور تم نے کیا جانا، کیا شب قدر؟ شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر، اس میں فرشتے اور جبریل (علیہ السلام) اترتے ہیں اپنے رب کے حکم سے، ہر کام کیلئے، وہ سلامتی ہے صبح چمکنے تک“۔ (سورۃ القدر)۔ شب قدر کس قدر اہم رات ہے کہ اس کی شان مبارک میں اللہ عزوجل نے پوری ایک سورت سورۃ القدر کے نام سے نازل فرمائی، اس سورت میں اللہ عزوجل نے اس مبارک رات کی کئی خصوصیات ارشاد فرمائی ہیں۔ مفسرین کرام رحمہم اللہ تعالیٰ اسی سورت کے ضمن میں فرماتے ہیں ”اس رات میں اللہ عزوجل نے قرآن مجید کو لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر نازل فرمایا اور پھر تقریباً 23برس کی مدت میں اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اسے بتدریج نازل کیا“۔ 
سورۃ القدر کا شان نزول مشہور تابعی حضرت سیدنا کعب الاحبار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے، چنانچہ آپ فرماتے ہیں بنی اسرائیل میں ایک نیک خصلت بادشاہ تھا، اللہ عزوجل نے اس زمانے کے نبی علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی کہ فلاں سے کہو کہ اپنی تمنا بیان کرے۔ جب اس کو پیغام ملا تو اس نے عرض کی: ”اے میرے رب عزوجل میری تمنا ہے کہ میں اپنے مال، اولاد اور جان کیساتھ جہاد کروں“۔ اللہ عزوجل نے اسے ایک ہزار لڑکے عطا فرمائے، وہ اپنے ایک ایک شہزادے کو اپنے مال کیساتھ لشکر کیلئے تیار کیا کرتا اور پھر اسے اللہ عزوجل کی راہ میں مجاہد بنا کر بھیج دیتا، وہ ایک ماہ جہاد کرتا اور شہید ہو جاتا۔ پھر دوسرے شہزادے کو لشکر میں تیار کرتا تو ہر ماہ ایک شہزادہ شہید ہو جاتا، اسکے ساتھ ساتھ بادشاہ رات کو قیام کرتا اور دن کو روزہ رکھا کرتا۔ ایک ہزار مہینوں میں اس کے ہزار شہزادے شہید ہو گئے، پھر خود آگے بڑھ کر جہاد کیا اور شہید ہو گیا۔ لوگوں نے کہا کہ اس بادشاہ کا مرتبہ کوئی نہیں پا سکتا تو اللہ عزوجل نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی کہ ”شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر“ یعنی اس بادشاہ کے ہزار مہینوں سے جوکہ اس نے رات کے قیام، دن کے روزوں اور مال، جان اور اولاد کے ساتھ راہِ خدا عزوجل میں جہاد کر کے گزارے اس سے بہتر ہے۔ 
 ”جب شب قدر آتی ہے تو اللہ عزوجل کے حکم سے حضرت جبریل علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک سبز جھنڈا لئے فرشتوں کی بہت بڑی فوج کیساتھ زمین پر نزول فرماتے ہیں اور اس سبز جھنڈے کو کعبہ معظمہ پر لہرا دیتے ہیں۔ حضرت جبریل علیہ السلام کے سو بازو ہیں، جن میں سے دو بازو صرف اسی رات کھولتے ہیں، وہ بازو مشرق و مغرب میں پھیل جاتے ہیں۔ پھر حضرت جبریل علیہ السلام فرشتوں کو حکم دیتے ہیں کہ جو کوئی مسلمان آج رات قیام، نماز یا ذکراللہ عزوجل میں مشغول ہے اس سے سلام و مصافحہ کرو نیز ان کی دعاؤں پر آمین بھی کہو۔ چنانچہ صبح تک یہی سلسلہ رہتا ہے، صبح ہونے پر جبریل علیہ السلام فرشتوں کو واپسی کا حکم صادر فرماتے ہیں، فرشتے عرض کرتے ہیں، اے جبریل علیہ السلام اللہ عزوجل کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کی حاجات کے بارے میں کیا کیا؟ حضرت جبریل علیہ السلام فرماتے ہیں ”اللہ عزجل نے ان لوگوں پر خصوصی کرم فرمائی اور چار قسم کے لوگوں کے علاوہ تمام لوگوں کو معاف فرما دیا۔“ صحابہ کرام نے عرض کی ”یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ چار قسم کے لوگ کون سے ہیں؟“ ارشاد فرمایا ”ایک تو عادی شرابی، دوسرے والدین کے نافرمان، تیسرے قطع رحمی کرنے والے (یعنی رشتہ داروں سے تعلقات توڑنے والے)، چوتھے وہ لوگ جو آپس میں بغض و کینہ رکھتے ہیں اور آپس میں قطع تعلق کرنے والے۔“ 
شب قدر اس قدر عظمت والی رات ہے کہ اس میں ہر خاص و عام کو بخش دیا جاتا ہے، تاہم عادی شرابی، ماں باپ کے نافرمان، قطع رحمی کرنیوالے اور بلامصلحت شرعی آپس میں کینہ رکھنے والے اور اس سبب سے آپس میں تعلقات منقطع کرنے والے اس عام بخشش سے محروم کر دئیے جاتے ہیں۔ پیارے اسلامی بھائیو! شب قدر جیسی بابرکت رات میں بھی جن مجرموں کی بخشش نہیں کی جا رہی وہ کس قدر شدید مجرم ہونگے؟ ان گناہوں سے صدق دل سے توبہ کر لینی چاہئے اور حقوق العباد والے معاملات بھی حل کر لئے جائیں، بیشک اللہ عزوجل کا فضل و کرم بے حد و بے انتہا ہے۔ 

مزید :

ایڈیشن 1 -