بڑھتے ہوئے جرائم پر قابو کیسے پایا جائے
جب معاشرے میں غربت، بے روزگاری، رشوت ستانی،اقربا پروری، ناانصافی بڑھ جائے تو افراد حسد،تعصب، حرص و ہوس جیسی کمزوریوں اوراخلاقی گراوٹ کا شکار ہونے لگتے ہیں۔معاشرے میں نفرت، غم وغصہ اور مایوسی جنم لیتی ہے جس کے نتیجے میں افراتفری اور نفسانفسی پر وان چڑھتی ہے۔ اسی طرح جب سیاست دان اور حکمران اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے قانون سازی کریں اور سزا و جزا میں دہرا معیار اپنایا جائے، اختیارات کا ناجائز استعمال ہونے لگے تو لوگوں میں احساسِ محرومی جنم لیتا ہے اور جرم کو پنپنے کا موقع مل جاتاہے۔ترقی یافتہ ممالک میں قانون کی بالادستی یقینی اورعدلیہ کی آزادی کااحترام کیا جاتا ہے، لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ معاشرہ افراتفری، انتشار کا شکار ہے۔اگر ہم معمولی اور سنگین نوعیت کے جرائم، پاکستان کے قانون ساز اداروں،پولیس اور عدلیہ کی بات کریں توسب سے پہلے جو مسئلہ سامنے آتا ہے،و ہ ہے سیاسی مفاد کی تکمیل اورمخصوص طبقے کوفائدہ دینے کے لیے قوانین کا نفاذجس کا بوجھ عدالتی نظام پر پڑتا ہے اور عدالتیں اپنے اصل مقاصد سے کنارہ کشی پر مجبور ہوجاتی ہیں۔پچھلے 75 سال کے دوران مفکرین، دانش وروں اور قانون دانوں نے جرم و سزا سے متعلق ٹھوس اور جامع تجاویز، سفارشات بھی پیش کیں، مگر جرائم میں کمی نہ ہوسکی اور یہ بڑھتے ہی چلے گئے،آج ہمار اپولیس سسٹم اور عدالتی نظام اس کے بوجھ تلے دباہوا ہے۔عدالتی کارروائیوں کے دوران یا بعد میں ملزم یا مجرم کو جیل بھیج دیا جاتا ہے جہاں ان کی اصلاح کرنے اور جرم سے نفرت دلانے والا کوئی نہیں ہوتا۔ جیل کا ماحول اور ہمارا سسٹم اسے مزید بگاڑ کرکچھ عرصے یا چند سال بعد دوبارہ اسی معاشرے میں دھکیل دیتا ہے۔
قتل، ایک سنگین جرم ہے اور اگرسیریل کلر زکی بات کی جائے تو امریکا اورمغربی ممالک میں کئی ایسے کیسز سامنے آچکے ہیں اور آتے رہتے ہیں اور اس میں گرفتاری کے بعد عدالتی کارروائی مکمل کی جاتی ہے۔ وہاں ایسے مجرموں کا مکمل ریکارڈ رکھا جاتا ہے اور اس حوالے سے جرم کی وجہ، اسباب اور مجرم کے حالات،اس کے خیالات پرباقاعدہ تحقیق کی جاتی ہے،مگر پاکستان میں 100 بچوں کے قاتل جاوید اقبال نے خود گرفتاری دی تھی، اسے پولیس نے نہیں پکڑا تھا۔کیا پاکستا ن میں سیریل کلر موجود نہیں یا ایسے درندہ صفت جو کئی بے گناہ اور معصوم انسانوں کو قتل کرچکے ہیں اور اب بھی کررہے ہیں؟ یہاں دراصل جرم اور مجرم کے تعاقب کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جاتی، اس لیے سیریل کلر ز بھی سامنے نہیں آتے، ان کا ریکارڈبھی نہیں بنتا اور کوئی ایسا ادارہ موجود ہی نہیں جو اس درندگی کی اصل وجہ جاننے کے لیے تحقیق کرے۔زینب اور دیگر معصوم زندگیاں بھی اسی نوعیت کے جرائم کی لپیٹ میں آئیں، مگر تحقیقات روایتی طریقے سے آگے بڑھاتے ہوئے صرف جرم اور اس کا ارتکاب ثابت کیا گیا، اس کے محرکات،اسباب جاننے کے لیے سائنسی طریقے اپنانے اور کسی ماہرِ نفسیات سے مدد لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔یہ وہ باتیں ہیں جو ایک عام آدمی بھی سمجھتا اور جانتا ہے، اور یہ ہمارے لیے کوئی نئی بات نہیں مگرکیا اس میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے اور اس حوالے سے بہتری ممکن ہے؟ کیا کوئی ایسا راستہ ہے جو اس نظام کو درست کرنے میں مدد دے؟ ایسا کیا ہے کہ پالیسیاں بھی مرتب کی جاتی ہیں،اصلاحات بھی سامنے آتی ہیں، قانون سازی بھی کی جاتی ہے،مگر ہمارے مسائل جوں کے توں ہیں۔ہم اگر مغربی دنیا کے چندممالک سے اپنے معاشرتی حالات، سیاسی اور سماجی ڈھانچے کا موازنہ کریں تو ہمیں اس کی کچھ بنیادی خامیاں نظر آسکتی ہیں۔
یورپ جو آج سے 70 سال پہلے جنگ اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے انسانی المیوں اوربحرانوں کا شکار تھا آخراس کے حالات کیسے بہتر ہوئے، ہمیں بھی ان ممالک کی کاپی کرنے اور موثر حکمت عملی کی اشد ضرورت ہے،ورنہ ہمارے پاس الہ دین کا کوئی ایسا چراغ موجود نہیں ہے کہ ہم جرائم کی شرح کو کنٹرول کرسکیں آپ اداروں کے سربراہان سمیت دیگرجتنے مرضی کرائم فائٹرآفیسرز تعینات کرکے دیکھ لیں جرائم کی شرح کو روکنا ان کے بس کی بات نہیں ہے، صرف لاہور کی بات کرلی جائے جو کہ پنجاب کی عکاسی کرتا ہے یہاں روزانہ 150سے زائد موٹر سائیکل چوری کی وارداتیں معمول بن گیا ہے جبکہ راہزنی،پرس چھیننے،کارچوری،ہاوس رابری اس کے علاوہ ہیں،سابق سی سی پی او لاہور فیاض احمد دیو نے موثر حکمت عملی سے کام لیاتو موٹر سائیکل سمیت تمام واقعات میں نمایاں کمی دیکھنے کی ملی، فیاض احمد دیوکے دور میں سیف سٹی اتھارٹی کی رپورٹ کے مطابق قتل اقدام قتل،اغواء تشدد،لڑائی جھگڑوں کی کالز میں 46فیصد کمی واقع ہوئی،جبکہ راہزنی اور ڈکیتی کی کالز میں 40فیصد کمی ریکارڈ کی گئی،سڑکوں پر وارداتوں کی کالز میں 66فیصدجبکہ دکانوں پر 52فیصدکمی ریکارڈ کی گئی،گاڑیاں چھیننے کی کالز میں 42فیصدکاریں اور موٹر سائیکل چوری کی وارداتوں میں 53فیصد کمی ریکارڈ کی گئی جوکہ اب ان تمام واقعات میں دوگنا سے بھی زیادہ اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے، اسی طرح نگران حکومت کے دور میں لاہور میں تعینات سی سی پی او بی اے ناصر کی تعیناتی کے وقت عالمی کرائم انڈیکس نے شہر میں جرائم میں نمایاں کمی کی تصدیق کی تھی۔
اچانک جرائم کی شرح میں ہوشربا اضافہ انتہائی تشویش ناک اور ناقص حکمت عملی کانتیجہ معلوم ہو تا ہے فیاض احمد دیو کے بعداب لاہور میں نئے تعینات ہونیوالے سی سی پی او بلال صدیق کمیانہ نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ شہر کو امن کا گہوراہ بنانے اور جرائم کی شرح کو روکنے میں اپنا کردار اداکریں گے انہیں لاہور میں پہلے بھی کام کرنے کا تجربہ حاصل ہے لیکن یاد رہے جس دور میں وہ لاہور میں کام کرتے رہے اس دور میں نہ تو سیف سٹی ادارہ وجود میں آیا تھا اور نہ ہی الیکٹرونک میڈیا موجود تھا ویسے تولاہور ہی نہیں دیگر شہروں میں بھی امن و امان کی صورت حال حوصلہ افزا نہیں ہے، ڈاکووں کے ایک گروہ نے ایک گھر میں واردات کے دوران موقع پر پہنچنے والے ایک اے ایس آئی کو شہید کردیا جبکہ دو ڈاکو بھی مقابلے میں مارے گئے ،بہاول پور میں نامعلوم افراد نے فائرنگ سے 6افرادہلاک 4زخمی،میانوالی میں بھی فائرنگ 3 افراد ہلاک اور چار ذخمی،جبکہ پاکپتن میں نون لیگ کے ایم پی اے میاں نوید کے والدکو گھر کے اندر قتل کردیا گیا،تمام واقعات میں ملزمان موقع سے فرار ہوئے،جبکہ گذشتہ ایک ہفتے میں پنجاب کے دو مختلف علاقوں میں قبروں سے لاشیں نکالنے کے دو واقعات رپورٹ ہوئے،لاشوں کی بے حرمتی کرنے پران اضلاع میں بھی امن کی امان کی صورت حال خراب ہے،یہ بھی خبر ہے کہ نئی قائم ہونیوالی حکومت نے امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے کے لئے پنجاب بھر سے بہت سارے افسران کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے