ہم زراعت میں پیچھے کیوں ہیں؟
روئے ارض پر جتنے بھی انسان موجود ہیں، صاف پانی کے بعد ہر ایک کی سب سے پہلی فکر اور خواہش مناسب خوراک کا حصول ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ زراعت دنیا کی سب سے اہم اور سب سے بڑی صنعتوں میں سے ایک کا درجہ حاصل کر چکی ہے، زرعی پیداوار کسی ملک کے تجارتی توازن ہی نہیں اس ملک کی آبادی کی صحت اور معاشی تحفظ کے لیے بھی نہایت اہمیت کی حامل اور سب سے بڑا کردار ادا کرنے والا فیکٹر ہے۔
اناج اور سبزیوں کی پیداوار کے حوالے سے امریکہ، چین، بھارت اور روس دنیا بھر میں سرِ فہرست ہیں، چین دنیا بھر میں چاول پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے، گندم کا بھی سب سے بڑا پروڈیوسر ہے جبکہ مکئی پیدا کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے، چین پیاز اور بند گوبھی سمیت بہت سی سبزیوں کا سب سے بڑا پروڈیوسر بھی ہے، کل پیداوار کے لحاظ سے امریکہ گندم میں چوتھے مکئی میں پہلے اور سویابین میں دوسرے نمبر پر ہے۔ چین اور بھارت خاصی بڑی مقدار میں خوراک پیدا کرتے ہیں لیکن ان کی اپنی آبادی اتنی ہے کہ زیادہ تر اپنی آبادی کی ضروریات پوری کرنا ہی ان کی ترجیح ہوتی ہے البتہ وہ ممالک جن کی زرعی پیداوار زیادہ ہے، وہ اپنی سرپلس پروڈیوس برآمد کر کے قیمتی زرِ مبادلہ کماتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کے مطابق امریکہ 118.3 بلین ڈالر کی خوراک برآمد کرتا ہے، اسی طرح نیدرلینڈز 79 بلین ڈالر، جرمنی 70.8 بلین ڈالر، فرانس 68 بلین ڈالر، برازیل 55.4 بلین ڈالر کی خوراک ہر سال برآمد کرتے ہیں۔ خوراک برآمد کرنے والے ممالک میں نیدرلینڈز کا نام شامل ہونا بہت سوں کے لیے اچنبھے کا باعث ہو سکتا ہے کیونکہ یہ ایک چھوٹا سا ملک ہے،چھوٹا ہونے کے باوجود یہ پھولوں اور پودوں کا سب سے بڑا ایکسپورٹر ہے، دنیا بھر میں جتنے بھی پھول اور پودے برآمد ہوتے ہیں ان کا نصف نیدرلینڈ سے آتا ہے، نیدرلینڈ ٹماٹر اور مرچوں کا سب سے بڑا سپلائر بھی ہے۔
ایک زمانے میں پاکستان بھی کپاس اور چاول کا ایک بڑا ایکسپورٹر تھا لیکن پھر ہماری حکومتوں کے نامناسب فیصلوں کے نتیجے میں ہم پیچھے کھسکتے چلے گئے اور آج یہ صورت حال ہے کہ ہمیں اپنی ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لیے بھی کپاس درآمد کرنا پڑتی ہے اور چاول کی ہماری بین الاقوامی مارکیٹ بہت حد تک بھارت کے پاس جا چکی ہے چنانچہ آج کا سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ہمارے زرعی زوال اور ترقی یافتہ ممالک کے زراعت میں آگے بڑھ جانے کی وجوہات کیا ہیں؟
دیکھنے کی بات ہے کہ نیدر لینڈ ایک چھوٹا سا ملک ہے اور اتنا بڑا ایکسپورٹر کیسے بن گیا،امریکہ، کینیڈا اور مغربی یورپ کے ممالک کے زرعی شعبے میں آگے بڑھ جانے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ بہت کم زرعی زمین کو ضائع ہونے دیتے ہیں، وہاں سڑکوں کا ایک وسیع نیٹ ورک موجود ہے جن کے ذریعے وہ زرعی لوازمات مارکیٹوں سے زمینوں تک اور زمینوں کی پیداوار کو مارکیٹ تک لے کر آنے کے لیے وافر استعمال کرتے ہیں، اس کے علاوہ وہاں کے کسان کھاد کا بڑے پیمانے پر استعمال کرتے ہیں اور یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ ٹھیک وقت پر ٹھیک کھاد فصل کو دی جائے تو پیداوار کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ ان ممالک کے زرعی شعبے میں آگے بڑھ جانے کی ایک وجہ جینیاتی طور پر تبدیل شدہ بیجوں کا استعمال بھی ہے، ان بیجوں کے استعمال کی وجہ سے نہ صرف پیداوار میں اضافہ ہوا ہے بلکہ ان ممالک کو مہنگی کھادوں اور جڑی بوٹی مار ادویات سے بھی خاصی حد تک نجات مل چکی ہے۔
افریقہ اور جنوبی ایشیا میں صورت حال اس کے بالکل برعکس نظر آتی ہے، یہاں آمدورفت کے حوالے سے انتہائی کم اور غیر ترقی یافتہ انفراسٹرکچر ہے، چنانچہ زرعی لوازمات کو کھیتوں تک پہنچانے اور کھیتوں کی پیداوار کو منڈیوں تک لے جانے کے لیے کسانوں کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح آبپاشی کے بنیادی ڈھانچے کا فقدان ہے جس کی وجہ سے ان خطوں کے کاشتکاروں کو قدرتی ذرائع، جیسے بارش پر بہت زیادہ انحصار کرنا پڑتا ہے، یہ خطے موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں بھی ہیں۔ پاکستان کی بات کی جائے تو یہاں رہائشی کالونیوں کے کاروبار کی وجہ سے زرعی رقبہ مسلسل سکڑتا جا رہا ہے، کسانوں کو بیج اچھا نہیں ملتا چنانچہ پیداوار بھی اچھی نہیں ہوتی، کھاد بلیک میں ملتی ہے جسے عام کسان نہیں خرید سکتا جو زرعی پیداوار میں کمی کا باعث بنتا ہے، یہاں کے حکمرانوں کے غلط فیصلوں کی وجہ سے بھی کسانوں کو دشواری اور مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسا کہ ان دنوں اپنی گندم کی پیداوار سرکاری طور پر طے شدہ قیمت پر فروخت نہ ہونے کی وجہ سے کسان احتجاج کر رہے ہیں۔
اس کے علاوہ بھی کچھ عوامل ہیں جو امریکہ کینیڈا اور یورپ جیسے خطوں کو زرعی پیداوار کے لحاظ سے دنیا کے دوسرے براعظموں سے ممتاز بناتے ہیں، مثال کے طور پر میں یہاں کینیڈا میں زرعی ترقی کے حوالے سے کی جانے والی کوششوں اور اقدامات کا احاطہ کرتا ہوں، اس سے اندازہ لگایا جا سکے گا کہ امریکہ اور یورپ شعبہ زراعت کی ترقی کے لیے کتنے سنجیدہ ہیں اور کیا کیا منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
زرعی کاروبار کو مخصوص فنڈنگ کی ضرورت ہوتی ہے، کاشتکاری کے بنیادی آلات کی زیادہ قیمت ان بہت سے چیلنجوں میں سے ایک ہے جن کا سامنا نئے کسانوں حتیٰ کہ پْرانے کسانوں کو ہو سکتا ہے۔ موسم کی تبدیلی، ٹیکنالوجی یا زمین کی قیمتیں کسان کے منافع کو متاثر کر سکتی ہیں۔ کاشتکاری کی جدید تکنیکس کے لیے فنڈز بھی اس شعبے کے بڑے مسائل میں سے ایک ہے، کینیڈا میں گرانٹس، سرکاری تعاون، سبسڈیز اور قرض کی ضمانتیں مختلف سرکاری ذرائع سے دستیاب ہوتی ہیں۔ انوویشن کینیڈا کے آن لائن سرچ ٹول کا استعمال کر کے ایسے پروگراموں اور خدمات تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے، اگر آپ کا کاروبار فارم آپریشن کا ہے، آپ فوڈ پروسیسنگ کرتے ہیں، فارم سے متعلق سازوسامان کا پلانٹ لگائے ہوئے ہیں یا آپ کی ایگری کلچرل بائیو ٹیک کمپنی ہے، تو آپ فارم کریڈٹ کینیڈا لون پروگرام سے مالی اعانت کے اہل ہو سکتے ہیں۔ کینیڈا نے کسانوں اور کاشت کاروں کے لیے اس کے علاوہ بھی بہت سے پروگرام شروع کر رکھے ہیں جیسے
ایڈوانس پے منٹ پروگرام، ایگری انویسٹ،ایگری سٹیبلٹی پیمنٹس،کینیڈین ایگری کلچرل لونز ایکٹ پروگرام،فارم پراپرٹی کلاس ٹیکس ریٹ پروگرام،منسٹری آف ایگری کلچر، فوڈ اینڈ رورل افیئرز فنڈنگ پروگرامز،پرائس پولنگ پروگرام وغیرہ وغیرہ۔
اب اتنے پروگراموں کے ہوتے اور کینیڈین حکومت کی جانب سے اتنی آسانیوں کے پیدا کیے جانے کے بعد زرعی پیداوار میں اضافہ نہ ہو تو کیا ہو، اور سب سے بڑی بات یہ لوگ ایمان دارہیں، ذخیرہ اندوز نہیں، منافع خور نہیں، بلیک مارکیٹنگ کی بھی یہاں اجازت نہیں، حکومت کسانوں کی پیدا کردہ اجناس کی قدر بھی کرتی ہے تو ترقی ان کا حق بنتا ہے۔ پاکستان اور دوسرے ممالک کے اس سیکٹر میں پیچھے رہ جانے کی وجہ درج بالا عوامل کے حوالے سے غیر سنجیدہ رویہ اور مستقبل قریب و بعید کے لیے منصوبہ بندی کا فقدان ہے اور سب سے بڑھ کر کرپشن کسی کو آگے نہیں بڑھنے دیتی۔