پنشن پر نظریں اور نادرا کے نخرے
وقتی اور آسان حل ڈھونڈنے کی ترکیب کوئی ہمارے پالیسی سازوں سے سیکھے۔ جس طرح ہر دوا کے سائیڈ ایفیکٹ ہوتے ہیں اُسی طرح ہر فیصلے کے منفی مضمرات بھی اُسی کے ساتھ ظاہر ہو کر اپنا اثر دکھاتے ہیں، چونکہ وقتی طور پر مریض کو بچانا مقصود ہوتا ہے،اِس لئے ایسے فیصلے کر لیے جاتے ہیں جن کے اثرات دُور رس ہوتے ہیں۔اب یہ خبریں آ رہی ہیں کہ حکومت نے پنشن کے بوجھ سے بچنے کے لئے جہاں اُس کے قواعد میں اصلاحات کا فیصلہ کیا ہے وہاں ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔اِس وقت سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کی حد عمر60سال ہے، اب اسے62یا65سال تک بڑھانے کی تجاویز دی گئی ہیں۔مقصد یہ ہے ایک طرف نئی بھرتی نہ کرنی پڑے اور دوسری طرف ریٹائرمنٹ پر جو بھاری رقم دی جاتی ہے اور اُس کے بعد ہر ماہ پنشن بھی دینی پڑتی ہے اُس سے بچا جا سکے۔آئی ایم ایف کو بہت عرصے سے سرکاری ملازمین کی پنشن چبھ رہی ہے،حالانکہ خود امریکہ اور دیگر ممالک میں نہ صرف بیروزگاری الاؤنس دیا جاتا ہے،بلکہ ساٹھ سال کی عمر کے افراد کو سینئر سٹیزن الاؤنس بھی ملتا ہے، جس سے اُن کی اچھی گذر اوقات ہو جاتی ہے،جبکہ علاج معالجہ کی سہولیات ویسے ہی فری ہوتی ہیں۔یہ عجب منطق نکالی گئی ہے کہ پنشن معیشت پر ایک بوجھ ہے،حالانکہ یہ ایک سرکاری ملازم کا حق ہے جو اپنی ساری زندگی ایک محکمے میں صرف کرتا ہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد یہ توقع رکھتا ہے کہ ریاست اُس کا خیال رکھے گی۔60برس تک خدمات سرانجام دینے والوں کو ریٹائرمنٹ کے بعد بے یارو مدد گار چھوڑ دینا معاشرے کے لئے اُس کی نسبت زیادہ تکلیف دہ ثابت ہو گا،جو پنشن کی وجہ سے خزانے پر بوجھ کا سوچ کر اربابِ اختیار اور پالیسی سازوں کو ہوتی ہے۔ پنشن خیرات نہیں ملازمین کا حق ہے۔یہ ایک فرد کا نہیں،خاندان کا معاملہ ہوتا ہے جو ساری زندگی ریاست کی خدمت کرتے گزارتا ہے۔اُس کا ایک لائف سٹائل بن چکا ہوتا ہے۔اُسے اگر ریٹائرمنٹ کے اگلے ہی دن مالی تحفظ سے محروم کر دیا جائے تو اُس کی عزتِ نفس، عمر بھر کی ساکھ اور زندگی کا بھرم ختم ہو سکتا ہے۔آئی ایم ایف اِس بات پر زور دیتا ہے اور نہ ہمارا طبقہ ئ اشرافیہ ہی اس پر سوچتا ہے کہ پنشن سے تو معیشت کا پہیہ چلتا ہے، کیونکہ یہ ریٹائر افراد کے روز گار کی ہی ایک شکل ہے،اصل بوجھ تو مراعات یافتہ طبقے کی عیاشیاں ہیں، جن پر ہر سال اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں،اگر یہ مراعات ہی کسی غریب ملک نہیں،بلکہ امریکہ، برطانیہ،کینیڈا اور جرمنی کے عوامی نمائندوں اور بیورو کریسی کے مطاق کر دی جائیں تو اربوں روپے کی بچت ہو۔ وہاں ایک عام درجے کا سرکاری افسر بڑی سرکاری گاڑی کا سوچ سکتا ہے اور نہ اُس کے دفتر پر شاہانہ اخراجات ہوتے ہیں۔زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں،پاکستان میں موجود غیر ملکی سفارت خانوں کے غیر ملکی عملے کی مراعات ہی دیکھ لیں، جو اپنے ملک کے بڑے سرکاری افسر شمار ہوتے ہیں،لیکن یہاں انہیں بوقت ِ ضرورت سفارت خانے کی گاڑی فراہم کی جاتی ہے،وہ بھی ایک محدود وقت کے لئے،سفیر کے سوا باقی عملہ ایک ہی صف میں کھڑا نظر آتا ہے۔
جہاں تک پنشن کا بوجھ کم کرنے کے لئے ریٹائرمنٹ کی حد بڑھانے کا تعلق ہے تو اس فیصلے سے پہلے اس کے منفی اثرات پر غور کر لینا چاہئے۔یہ نہ ہو کہ پیسے بچانے کے چکر میں ہم اپنے معاشرے کا توازن ہی گنوا بیٹھیں۔اِس وقت پاکستان اُن ممالک میں شامل ہے جہاں بیروز گاری کی شرح سب سے زیادہ ہے،خاص طور پر ہمارا پڑھا لکھا،بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بیروز گاری کا عذاب بھگت رہا ہے۔میں روزانہ ہی ایسے نوجوانوں اور اُن کے والدین سے ملتا ہوں،جو ڈگریاں لئے نوکری کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔جب ملک میں سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کی عمر60برس مقرر کی گئی تھی تو اُس وقت آبادی اتنی نہیں تھی جتنی آج ہے۔اب آبادی کئی گنا بڑھ چکی ہے،جس کی وجہ سے تعلیم یافتہ نوجوانوں میں بھی کئی گناہ اضافہ ہوا ہے اور بیروز گاری بھی بڑھی ہے۔ایسے میں تو ضرورت اِس امر کی ہے کہ ملازمت کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کیے جائیں۔یہ درست ہے کہ بیروز گاری ختم کرنے کے لئے صرف سرکاری ملازمتیں ہی کافی نہیں؛تاہم اگر ایک سرکل چلتا رہے تو ایک خاص تناسب سے ان ملازمتوں کے ذریعے نوجوانوں کو روز گار فراہم کیا جا سکتا ہے۔اب اگر پنشن بچانے کے خوف سے ان ملازمتوں کا راستہ بھی ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھا کر بند کر دیا جاتا ہے تو ذرا سوچئے اگلے دو چار سالوں میں ملک کی کیا حالت ہو گی اور بیروز گاری کتنا بڑا عذاب بن جائے گی،اِس لئے صرف ایک پہلو کو سامنے رکھ کر فیصلے کرنے کی بجائے ہر پہلو کو مد ِنظر رکھا جانا چاہئے۔جہاں تک پنشن ختم کرنے جیسے فیصلوں پر غور کرنے کا تعلق ہے تو ان کے کتنے بھیانک اثرات ہوں گے شاید اس پر غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جا رہی۔
آج کے کالم میں وزیر داخلہ محسن نقوی کا ذکر کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں،اِس لئے نہیں کہ اُن کا نام گندم سکینڈل میں آ رہا ہے،بلکہ اس لئے کہ وہ ایک اچھے کام کے لئے پوری توجہ کے ساتھ محنت کر رہے ہیں۔ایک روز پہلے جب وہ ہنگامی طور پر کوئٹہ سے ملتان آئے تو انہوں نے چوک کچہری کے پاس قائم نادرا سنٹر کا اچانک دورہ کیا۔یہ سنٹر سالہا سال پہلے بنا تھا، شہر کی آبادی کہاں سے کہاں پہنچ گئی،مگر نادرا کے کسی چیئرمین یا مقامی ڈائریکٹر کو یہ خیال نہیں آیا اس تنگ جگہ پر قائم اس سنٹر کو جو لاکھوں کی آبادی کے لئے بنایا گیا ہے،کسی کھلی اور بہتر عمارت میں منتقل کر دیں۔محسن نقوی اس سنٹر کے دورے پر آئے تو انہوں نے اِس بات کو فوری نوٹ لیا اور اس کی منتقلی کے احکامات دیئے۔ محسن نقوی نے جب سے نادرا مراکز کے دورے شروع کئے ہیں ایک حقیقت کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ اِن سنٹرز کا عملہ عوام سے اچھا سلوک نہیں کرتا اور دوسرا کرپشن عام ہے۔جان بوجھ کر لوگوں کو ٹوکن کے لئے گھنٹوں انتظار کرایا جاتا ہے، تاکہ وہ دوسرا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہو جائیں۔ ہمارے بعض سرکاری محکمے گرگٹ کی طرح ہیں، رنگ بدلتے رہتے ہیں۔کوئی بااختیار یا مال و زر والا آ جائے تو نرمی کا رنگ اوڑھ لیتے ہیں،عام آدمی ہو تو سختی ختم نہیں ہوتی۔سوال تو یہ بھی ہے کہ نادرا سنٹرز کی بری کارکردگی یا کرپشن محسن نقوی کے دوروں ہی میں کیوں سامنے آ رہی ہے۔نادرا کا اپنا نظام کیا ہے اور بھاری تنخواہوں پر کام کرنے والے افسر کیا لسّی پی کر سوئے ہوئے ہیں کہ انہیں یہ سب کچھ نظر نہیں آتا۔