پولیس وکلاء تصادم اور شہر میں بڑھتے ہوئے جرائم
لاہور ہائی کورٹ کے باہر پولیس اور وکلاء میں تصادم کا واقعہ انتہائی افسو سناک ہے،ہائی کورٹ وکلاء کے روز مرہ کی آماجگاہ ہے اگر وہاں چلے بھی جاتے تو کونسی قیامت کی آمد تھی پولیس کی اس کارروائی سے معاملہ حل کی جانب نہیں خرابی کی طرف بڑھا ہے۔ وفاقی وزیر قانون کے مطابق وکلاء دہشت گرد نہیں ہیں پھر ان سے ایسا سلوک کیوں کیا گیا ایسے واقعات دنیابھر میں جگ رسائی کا باعث بنتے ہیں،پنجاب پولیس جس پر پہلے ہی سیاست ذدہ ہونے کا الزام ہے۔یہ واقعہ حکمرانوں کی بدنامی کے ساتھ ادارے کی بدنامی کا باعث بھی بنا ہے۔سارا دن مال روڈ اور ملحقہ سڑکوں پر ٹریفک کا نظام درہم برہم ہونے سے شہری پولیس اور حکمرانوں کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے رہے،شہر میں ڈکیتی اور لوٹ مار کی بڑھتی ہوئی وارداتوں سے پولیس کا مورال پہلے ہی پستی کا شکار ہے حکمرانوں کو چاہیے کہ پولیس کو اپنے اصل کام پر توجہ دینے کی ہدایت کریں۔پاکستانی عوام میں معاشی حوالے سے سخت بے چینی اور بے زاری پائی جاتی ہے، ملک میں بدقسمتی سے چوری، ڈاکا اور لوٹ مار کے ماحول کو مزید گرما دیا ہے۔ویسے تو پورے ملک کے شہروں میں راہزنی کے واقعات عام ہیں مگر بدقسمتی سے اس وقت لاہورکے عوام اس عذاب سے سخت پریشان ہیں۔ گھروں، دکانوں میں ڈکیتیاں اور سڑکوں پر کھلے عام لوٹ مار روز کا معمول بن گیا ہے۔ ان وارداتوں کا سلسلہ رک نہیں سکا،سابق ڈی آئی جی آپریشنز سید علی ناصر رضوی ایس ایس پی سید علی رضا کے ساتھ مل کر جرائم کی شرح میں پچیس سے تیس فیصد کمی لائے تھے جوکہ برقرار نہیں رہ سکی بلکہ صورت حال یہ ہے کہ ان وارداتوں میں عام دنوں سے زیادہ اضافہ ہوگیا ہے پھر سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ ان وارداتوں میں مرنے والوں کی تعداد ایک درجن سے زیادہ ہوگئی ہے جب کہ اس سال کے ابتدائی چار مہینوں میں اب تک کل ملا کر تین درجن سے ذائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔بینکوں سے رقم نکالنا اور رقم لے کر چلنا عوام کے لیے مشکل عمل بن چکا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس سلسلے میں پنجاب حکومت بالکل لاچار اور مجبور نظر آتی ہے۔ پولیس کیا کر رہی ہے؟ وہ چوری اور ڈکیتی کی وارداتوں کو روکنے میں کیوں ناکام ہے؟اس سوال کا نہ تو حکومت پنجاب کی جانب سے کوئی جواب آ رہا ہے اور نہ ہی پولیس کا محکمہ ہی اس کی کوئی وضاحت کر رہا ہے البتہ پنجاب حکومت کے ایک سابق وزیر کا کہنا ہے کہ پولیس کی جانب سے ناقص انوسٹی گیشن کی وجہ سے چوریوں اور ڈکیتیوں میں ملوث مجرمان رہا ہو جاتے ہیں اگر انھیں قرار واقعی سزا ملے تو ضرور شہر میں بہتری آ سکتی ہے۔ان کے ہی مطابق شہر میں جہاں یہ وارداتیں زیادہ ہو رہی ہیں وہاں آئس جیسی منشیات کی فروخت بھی بلا روک ٹوک جاری ہے۔ سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ چوریوں، ڈکیتیوں کی وارداتوں میں اب تک کئی پولیس کے اہلکار رنگے ہاتھوں گرفتار ہو چکے ہیں۔ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ جب پولیس ہی رہزن بن جائے تو پھر عوام کو تحفظ کون دے گا؟پولیس کے کرائم میں ملوث ہونے کے واقعات یقینا حکومت پنجاب کی نظر میں ہوں گے تو پھر اس کی روک تھام کے لیے وہ کیا کر رہی ہے، ویسے اب تک تو وہ کچھ کرتی نظر نہیں آ رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ پولیس کا محکمہ سیاست زدہ ہو چکا ہے۔پولیس میں سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں اور تعیناتیاں جاری ہیں، یہ نہیں دیکھا جاتا کہ امیدوار کا کیریکٹر کیسا ہے، صرف سفارشوں اور رشوتوں پر بھرتیاں اور تعیناتیاں جاری ہیں۔ ایسی بھرتیاں و تعیناتیاں ہی یقینا خطرناک ثابت ہو رہی ہیں کیونکہ بعض پہلے سے کرائم میں ملوث افراد بھی پولیس کا حصہ بن چکے ہیں اور یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا ہے ہنوز جاری ہے۔پولیس کے تمام شعبوں میں افراتفری کا ماحول ہے۔اگر بات کی جائے شعبہ آپریشن کی تو ڈی آئی جی آپریشنز اور ایس ایس پی آپریشنز میں کوآرڈی نیشن کا فقدان ہے کل تک جس ایس ایس پی نے جرائم کی شرح میں کمی لانے میں اپنا کردار ادا کیا تھا آج انہیں سائیڈ لائن کرنے سے اس شعبے کی کارکردگی بری طرح متاثر ہورہی ہے۔اسی طرح انوسٹی گیشن ونگ میں تعینات افسران بھی لابنگ کا شکار ہیں،اگر بات کی جائے آرگنائزڈ کرائم یونٹ کی،ڈی آئی جی عمران کشورکی تعیناتی سے یہ سمجھا جارہا تھا کہ بٹ برادران سمیت ایس پی فرقان بلال کو تبدیل کردیا جائے گا مبینہ کرپشن کے حوالے سے ان پر سنگین الزام موجود ہیں بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ لاہور پولیس کے سربراہ تبدیل ہوسکتے ہیں ڈی آئی جی جا سکتے ہیں لیکن انہیں تبدیل کرنا آسان نہیں ہے۔ سابق ڈی آئی جی کیپٹن لیاقت ملک کی تبدیلی کے وقت ان افسران کی تبدیلی بھی یقینی قرار دیدی گئی تھی۔ تاہم لاہور میں اعلی عہدوں پر تعینات متعدد افسران کی کرپشن کے حوالے سے انکوائری رپورٹ منظر عام پر لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔اس انکشاف کے بعد مبینہ کرپشن میں ملوث افسران نے ہاتھ پاوں مارنا شروع کردیے ہیں اور انکوائری رپورٹ کو دبانے پر کوششیں ہورہی ہیں۔آرگنائزڈ کرائم یونٹ کی حالیہ کارروائی نے ایسے وقت میں لاہور پولیس کی لاج رکھ لی ہے جب بہت کچھ تبدیل ہونے والا تھا۔منشیات فروشی میں ملوث بڑا گینگ”جورڈن“گرفتار کرکے کروڑ روپے کی منشیات برآمد کی ہے۔ منشیات فروش گینگ بیرون ممالک سے منشیات سے بھری امپورٹڈ چاکلیٹ کوریئر سروسز کے ذریعے منگوا کر لاہور میں سپلائی کرتا تھا۔ گینگ آئس، چرس، افیون اور دیگر منشیات امپورٹڈ پیکنگ میں فراہم کرتا۔گینگ کی جانب سے بین الاقوامی سطح پر بدعنوان اہلکاروں کی ملی بھگت سے مختلف کمپنیوں کی کوریئر سروسز کے ذریعے غیر قانونی اشیا کی سمگلنگ کی جاتی تھی جو لاہور کی ایلیٹ کلاس اور تعلیمی اداروں میں فروخت ہوتی تھی۔ڈی آئی جی عمران کشور کی نگرانی میں پنجاب پولیس کے آرگنائزڈ کرائم یونٹ نے ڈیفنس میں چھاپہ مار کر 3 خواتین سمیت 6 ملزمان کو گرفتار کیاہے جب کہ گینگ کا سرغنہ محمد ایوب عرف جورڈن بیرون ملک فرار ہے۔12 سال سے سرگرم منشیات فروش گینگ کی گرفتاری پر وزیر اعلیٰ مریم نواز نے پولیس ٹیم کو وزیر اعلیٰ آفس بلا کر شاباش دی اور افسران کی کارکردگی کو سراہا۔لاہور پولیس کے سربراہ کی زاتی کوششوں سے وزیر اعلی پنجاب نے انہیں خراج تحسین پیش کیا ہے اس سے قبل تمام کارروائیوں میں کریڈٹ کے حقدار آئی جی پولیس قرار پائے تھے۔