جان کر بھی فریب کھائے ہیں ۔۔۔
سوچ کر ہم نے دن بتائے ہیں
غم کے آگے خوشی کے سائے ہیں
کیا کہیں !ہم ہیں اتنے سادہ لوح
جان کر بھی فریب کھائے ہیں
زندگی کا سفر نہ ختم ہوا
پھر سے بچپن میں لوٹ آئے ہیں
ایک آزادی اور ہے مطلوب
اس لیے خون میں نہائے ہیں
بے ثمر ہوگیا تو بچوں نے
کاٹ کر پیڑ گھر بنائے ہیں
سب کا سورج, تو کھا گئے ٹاور
روز روشن پہ ان کے سائے ہیں
فون ,ٹی وی,گھڑی , کلینڈر بھی
"سیل"کم بخت تونے کھائے ہیں!!
کیسے ریکویسٹ قبول ہو ان کی
پروفائیل کو جو چھپائے ہیں
ساتھ تھے روشنی میں سب ارشاد
دور ظلمت میں تیرے سائے ہیں
کلام :ڈاکٹر ارشاد خان