جیسے ہی حرم شریف میں داخل ہوا تو کعبہ آگیا، جسم میں کپکپی طاری ہونے لگے، یہاں کے محسوسات اور جذبات مدینہ کی نسبت قدرے مختلف تھے
مصنف:محمد اسلم مغل
تزئین و ترتیب: محمد سعید جاوید
قسط:96
مدینہ پہنچنے کے بعد ہم مسجد نبویؐ کے قریب ہی ایک ہوٹل میں ٹھکانہ بنا لیا۔ تیار ہو کر ہم فوراً ہی تیز تیز قدموں سے مسجد نبویؐ کی طرف چلے تاکہ اگلی نماز وہاں قائم کر سکیں۔ بیت اللہ شریف کے بعد یہ مسجد مسلمانوں کیلئے سب سے مقدس مقام ہے۔ اس لیے مدینہ شریف میں آنے والے ہر مسلمان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ نمازیں یہاں ادا کر سکیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے کیے گئے وعدے کے مطابق اجر اور ثواب حاصل کرسکیں۔ اُس زمانے میں یہاں مردوں کیلئے تو روضہ مبارک تقریباً ہر وقت ہی کھلا رہتا تھا جہاں ٹھہر کر وہ درود و سلام پڑھ سکتے تھے۔ تاہم خواتین کو مخصوص اوقات میں ہی وہاں جانے کی اجازت تھی۔ میں مسجد میں اپنی پہلی نماز مکمل کرنے کے بعد روضہ رسولﷺ کی طرف آگیا۔ اب میں وہاں شرمساری سے سر جھکائے کھڑا اپنے گناہوں کا اعتراف کر رہا تھا کہ میں مسلمان ہونے کے باوجود ان کی دی گئی تعلیم کی پیروی نہ کر سکا اور اس سلسلے میں مکمل ناکام رہا۔ روضے کی ساتھ ہی ان کے 2 عظیم صحابہؓ اور خلفاء کرام کی قبور بھی ہیں جن میں ایک قبر حضرت ابو بکرؓ صدیق کی اور دوسری حضرت عمر ؓکی ہے۔ یہ رسول اکرم ﷺکے وہ ساتھی تھے جو ان کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلے اور بعد ازاں اپنی تمام زندگی ان کی دی گئیں تعلیمات کو پھیلانے میں صرف کر دی جس میں عمومی زندگی کے عام مسائل کے علاوہ انھوں نے ان علاقوں میں بھی حکومتیں قائم کیں اور اُنھیں کامیابی سے چلایا جو انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد فتح کرکے ایک اسلامی ریاست قائم کی تھی۔ میں نے ان کی قبور پر بھی ٹھہر کر فاتحہ خوانی کی اور اپنا نذرانہ عقیدت پیش کیا۔ کچھ دیر وہاں قیام کے بعد میں باہر آگیا۔ اس زیارت کے بعد میں نے کبھی بھی روضہ رسولﷺ کے سامنے جا کر کھڑے ہونے کی جسارت نہیں کی۔ میری ہمیشہ یہ خواہش ہوتی تھی کہ میں ایسی جگہ عبادت کروں جہاں میں ان کے مبارک قدموں کی طرف بیٹھ سکوں تاکہ میں ان سے اپنی اس ندامت اور پشیمانی کو چھپا سکوں جو میں ان کی دی گئی تعلیمات پر عمل نہ کرتے ہوئے اپنے چہرے پر سجائے ہوئے تھا۔ ہم نے مدینہ میں کچھ دن قیام کیا اور اس دوران ہم نے وہاں واقع تاریخی اور متبرک مقامات کی زیارت کی جس میں مسجد قباء، مسجد قبلتین اور دوسری یادگار مسجدوں اور مقدس مقامات کے علاوہ اُحد کا وہ مقام بھی دیکھا جہاں مسلمانوں کی ایک بڑی جنگ اُحد لڑی گئی تھی، وہاں قبرستان میں دفن صحابہ کرامؓ کی قبروں پر فاتحہ خوانی بھی کی۔
اب ہم اپنی اگلی منزل یعنی مکہ المکرمہ جانے کیلئے تیار تھے۔ حج یا عمرہ پر جانے والے تمام اشخاص پر احرام پہننا لازم ہے۔ مکہ میں داخلے کیلئے سب طرف وہ مقامات متعین کر دئیے گئے ہیں جنہیں میقات کہا جاتا ہے۔ مدینہ سے مکہ جانے والے حاجیوں کیلئے جو میقات مقرر کیا گیا ہے اس کا نام ابیار علی ہے جو مدینہ شہر سے تھوڑا باہر ہے، وہاں پہنچ کر ہم سب نے احرام باندھے، نوافل ادا کئے اور آگے روانہ ہوئے۔ مدینہ سے مکہ کا یہ سفر 453 کلو میٹر کا ہے جسے اُس وقت 6 گھنٹے لگتے تھے۔ مکہ پہنچ کر ہم نے ایک ہوٹل میں قیام کیا۔ اس کے بعد ہم تیار ہو کر حرم شریف جانے کیلئے روانہ ہوئے۔ جیسے ہی میں حرم شریف میں داخل ہوا تو یکدم کعبہ سامنے آگیا اور میرے جسم میں ایک دم کپکپی طاری ہونے لگے۔ یہاں کے محسوسات اور جذبات مدینہ کی نسبت قدرے مختلف تھے۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔